کسی بھی فرد کے لیے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہوتی ہے کہ
کوئی ادارہ، آرگنائزیشن اور فورم اُس کی خدمات کا اعتراف کرے اور تحریری
سرٹیفکیٹ دے.
کئی ادارے ہیں جن کیساتھ علمی کام کیا، انہوں نے اعتراف کیا.اسناد و
سرٹیفکیٹ اور ایکسپیرینس لیٹر سے نوازا.
ریڈیو پاکستان گلگت کے ساتھ میرا تعلق 12 سالوں پر محیط ہے. اور یہ تعلق
بہت دیر تک رہے گا ان شاء اللہ.
زمانہ طالب علمی سے ان کے ساتھ علمی، قلمی اور تحریری وابستگی ہے.
ریڈیو، پاکستان کا سب سے قدیم نشریاتی ادارہ ہے. آج بھی اپنی پوری آب و تاب
کے ساتھ جمہور کو آگاہی دے رہا ہے.علم وفن سے مستفید کررہا ہے.خبر کی دنیا
کا سب سے مستند ادارہ ہے. ٹی وی چینلز کی خبریں بڑے شہروں تک محدود ہیں مگر
ریڈیو کی خبر سیاچن تک بھی پہنچتی ہے. دور دراز دیہاتوں میں صرف ریڈیو ہی
مستند ذریعہ ہے.
بلاشبہ ملک عزیز کے لاکھوں اہل قلم و فن ریڈیو پاکستان کیساتھ وابستہ رہے
ہیں اور اپنا علمی، قلمی اور فنی لوہا منواچکےہیں.ریڈیو نے بڑے بڑے فنکار
پیدا کیے.
آج بھی ہر علاقے کے اہل علم وفن کی ریڈیو ہی قدر کرتاہے. اپنے علم و فن کے
مظاہرے کا دعوت دیتا ہے.اور مناسب ادائیگی بھی کرتا ہے.
میں نے ان بارہ سالوں میں ہر قسم کے دینی، سماجی اور علمی موضوعات پر لکھا
ہے اور پروگرامز اور سیمینارز میں حصہ لیا ہے جو علاقائی اور ملکی سطح پر
نشر ہوئے ہیں . میں تو اپنے طلبہ کو بھی ہر سال ریڈیو پاکستان کا وزٹ کراتا
ہوں اور انہیں ایک نئی دنیا سے متعارف کرواتا.
ریڈیو پاکستان گلگت کے ساتھ بڑی حسین یادیں وابستہ ہیں. اللہ نے چاہا تو اس
پر اپنی آپ بیتی کا پورا اک باب ترتیب دونگا. ان شاء اللہ
آج ریڈیو پاکستان گلگت نے میری علمی و قلمی خدمات کے اعتراف میں سرٹیفکیٹ
عطا کیا.اسٹیشن ڈائریکٹر نے انتہائی محبت کیساتھ، یخ موسم میں لب دوز وسوز
چائے پلاتے ہوئے یہ سرٹیفکیٹ عطا کیا. جیتے رہیو سر 💞
باتوں باتوں میں اسٹیشن ڈائریکٹر جاوید باوجوہ صاحب نے کہا
"حقانی صاحب آپ نے ڈرامے کیوں نہیں لکھے؟."
عرض کیا آپ کے احباب(پروڈیوسرز، ڈاکٹر شیر دل، خورشید، واجد، اسماعیل) نے
مجھے ڈرامے پر لگایا ہی نہیں تو کیسے لکھتا.
باجوہ صاحب نے کہا:
"ڈاکٹر شیر دل صاحب! ان کو ڈرامے لکھنے کا کہا کریں. یہ بڑے ڈرامہ باز ہیں
اچھا لکھیں گے". (ہنستے ہوئے).
شاید اس بہانے ڈرامے لکھنے بیٹھ جاؤں . اگر ڈرامہ باز ڈرامہ لکھے تو کیا
خوب لکھ سکتا ہوگا.
بہر صورت! باوجوہ صاحب آپ اور آپ کی ٹیم کا بہت بہت شکریہ، بلکہ پرانے تمام
ڈائریکٹرز، پروگرام منیجرز، پروڈیوسرز اور متعلقہ تمام احباب کا شکریہ، آپ
مجھے نہ بلاتے، توقیر نہ کرتے، اسائنمنٹ نہ دیتے تو یقینا میں اتنا کچھ نہ
لکھ پاتا اور نہ پڑھ پاتا.
آپ حضرات کی محبتوں کی وجہ سے ریڈیو پاکستان کے لیے لکھے گئے تمام
سکرپٹس/تحریریں ، معمولی ایڈیٹنگ کیساتھ اخبار و ویب سائٹس کا آرٹیکل بھی
بنایا اور ریڈیو کے شکریہ کیساتھ شائع کیا.اور فیس بک اور واٹس ایپ کے
ذریعے بھی ان تحریروں کو لاکھوں احباب تک پہنچایا.سچ یہ ہے کہ میری سینکڑوں
تحریروں کا سبب ریڈیو پاکستان بنا ہے. یہ ادارہ میرا محسن ہے. ریڈیو
پاکستان آپ کا بہت شکریہ.
آج بھی لوگ دیہاتوں، پہاڑی علاقوں اور جنگی محاذوں سے فون کرکے بتلاتے ہیں
کہ ہم نے آپ کی تقریر سنی، پروگرام اچھا لگا. آپ کی گفتگو اچھی تھی. یہ سب
ریڈیو کا فیض ہے جس نے ذرے کو وجود دیا اور نام بھی.
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان قلمی کاوشوں کو قبول فرمائے.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|