محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں

یکم اپریل 1936کوبھارت کی نوابی ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک پشتون گھرانے سے تھا، گیارہ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ قائداعظمؒ کی آواز کے ساتھ آواز ملاتے ہوئے ہجرت کرتے ہوئے پاکستان پہنچے

ملک و ملت سے محبت، اپنے پیشہ کو خوش اسلوبی سے نبھانے والے کو محسن کہتے ہیں،جان چلی جائے لیکن ملک وملت پر کوئی آنچ نہ آئے، اور تمام زندگی اسی کے نام کر دے محسن کے معنی میں آتاہے، یوں تو بہت سے محسن ہیں، محسن کی تعریف ہر ایک کے پاس اپنی اپنی ہو سکتی ہے، کسی کا کوئی سیاستدان محسن تو کسی کا افسرشاہی میں محسن لیکن بات ہو رہی ہے تو پوری قوم ہی نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی تمام قوم کے محسن جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب مرحوم کی، جن کے قول و فعل، ملک و ملت سے حب الوطنی عملی طور پر ملتی ہے، میرا تو یقین ہے اگر ان کا پوسٹ ماٹم کیا جاتا ہے تو عین ممکن ہے ان کے جمے ہوئے خون پر پاکستان لکھا ہوا ملتا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں صاحب یکم اپریل 1936کوبھارت کی نوابی ریاست بھوپال میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق ایک پشتون گھرانے سے تھا، گیارہ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ قائداعظمؒ کی آواز کے ساتھ آواز ملاتے ہوئے ہجرت کرتے ہوئے پاکستان پہنچے اور پاکستان کے ہی ہوگئے، بھوپال ریاست (کھوکھرا پار) سے ہوتے ہوئے اپنے خاندان کے ساتھ سر پر سامان اٹھاے پاکستان آجاتے ہیں، انہوں نے ابتدائی تعلیم وہاں (بھارت ریاست بھوپال) سے ہی حاصل کی۔1960ء میں کراچی یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری(میٹلرجی) حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے برلن (جرمنی) چلے گئے اور وہاں کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف دیلفٹ سے ماسٹرز آف سائنس اور پھر بیلجیم کی یونیورسٹی آف لوؤن سے ڈاکٹریٹ آف میٹلرجیکل انجینئرنگ میں اپنی تعلیم مکمل کی یعنی پی ایچ ڈی۔ پھر انہیں ایمسٹرڈیم میں فزیکل ڈائنا مکس ریسرچ لیبارٹری میں کام کرنے کا موقع ملا۔ دوران ریسرچ ان کو علم ہو گیا، جانکاری ہوئی، ایٹم کو مزید توڑا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے کتنی قوت درکار ہے، اس پر انہوں نے کام کیااور فارمولا تیار کرنے میں کامیاب ہو ئے، محب وطن، خاندانی خون تھا، انہوں نے کسی بھی طور پر اس وقت کی حکومت(ذوالفقار علی بھٹو) سے رابطہ کرکے اپنی ریسرچ کے بارے بتایا اور منوایا، اور پاکستان تشریف لائے، 1976ء میں انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کا حصہ بن گئے، پھر1981میں جنرل ضیاء الحق شہید نے اپنے دور حکومت میں اس لیبارٹری کا نام تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خاں ریسرچ لیبارٹری رکھ دیا گیا، یہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے لیے حکومتی سطح پر ان کی زندگی بہت بڑا اعزاز تھا،ڈاکٹر صاحب مشن میں یعنی ایٹم بم تیار کرنے میں شب و روز جتے رہے اور آخر الحمد للہ ایک دن ایسا آیا کہ ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گئے اور پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا اور پاکستان بین الاقوامی سطح پر ناقابل تسخیر بن گیا۔ تکنیکی اعتبار سے چیک کرنے کے بعد حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ ہم اس قابل ہیں کہ ایٹمی دھماکہ کر سکتے ہیں اور دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ اب وہ پاکستان نہیں رہا جسے ہر کُتا بلا بُری نظر سے دیکھتا رہا ہے، مزید یہ کہ ڈاکٹر صاحب اور ان کی ٹیم کی شبانہ محنت ایٹم بم سے چلتی ہوئی ایٹم بم وارہیڈ لے جانے اور دور تک مارکرنے والے میزائل بھی تیار کیے جا چکے ہیں، جو جہاز کے ساتھ ساتھ گراؤنڈ سے بھی فائر کیے جا سکتے ہیں۔، لیکن وقت اور انٹرنیشنل حالات کو دیکھتے ہوئے خاموشی اختیارکرنا ضروری تھی، لیکن یہودی لابی کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ہرممکن طور پر کوشش کی کہ ایٹم بم پراجیکٹ کو رول بیک کیا جائے یا اس پراجیکٹ کو ان کے حوالے کر دیا جائے، پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں لگا دی جائیں۔ الحمد للہ ہم سرخرو ٹھہرے، زندگی کی منزلیں طے ہوتی رہیں، جوانی سے بڑھاپے کیطرف قدم رکھا، ڈاکٹر صاحب کچھ عرصہ علیل رہنے کے بعد سرخرو ہوکر ملک و قوم سے محبت کا پیکر تا قیامت ایک بہت بڑا احسان کرکے اپنے مالک حقیقی سے 10اکتوبر2021کو جا ملے۔ ان کی وفات پر ہر محب پاکستانی کی آنکھ اشکبار تھی سوائے یہودی لابی اور منافق لوگوں کے۔ ڈاکٹر کو قومی جذبے اور پورے پروٹوکول کے ساتھ سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کر، گارڈ آف آرنر پیش کیا گیا۔ ان کی نماز جنازہ فیصل مسجد اسلام آباد میں اد ا کی گئی اور ملحْہ قبرستان میں سپرد خاک کر دیاگیا۔۔ ملک بھر میں ان کے لیے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی، یہ وہ محبت تھی جسے وہ سمیٹ کر ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ محبت حب الوطنی اور کردار پرہی ملتی ہے اور تاقیامت دلوں میں رہے گی۔ اللہ کریم ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے فوراً بعد بہت چوہے بلیاں اپنے بلوں سے باہر نکل آئیں، ڈاکٹر صاحب کی وفات کو موقع غنیمت سمجھتے ہوئے طرح طرح کے بیانات سامنے آنے لگے، ایٹمی ٹیکنالوجی کے چوری ہونے یا کسی دوسرے ملک میں منتقل کرنے پر طرح طرح کی بیان بازی منظر عام پر آئی، جسے پڑھ اور سن کر دشمن بڑا خوش ہو رہا ہے۔ اے کیوخاں ریسرچ لیبارٹری میں کوئی بھی کام ڈاکٹر صاحب کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا تھا، لیکن مختار کل نہیں تھے، ایک خاص سیکورٹی کا انتظام تھا جس کی نگرانی ایک تجربہ کار بریگیڈئیر صاحب کی ذمہ داری تھی، لہذا اکیلے ڈاکٹر صاحب ذمہ دار نہیں تھے(جنرل ریٹائر شعیب دفاعی تجزیہ نگار)، تو پھر یہ سب کیسے ہوا، ہر ملک اپنے نظام کو بہتر طور پرچلانے اور بین الاقوامی سطح پراپنا وجود قائم رکھنے کے لیے ٹاپ سیکرٹ پلان بھی رکھتا ہے۔لہذا جب امریکہ کو علم ہوا کہ پاکستان سے ایٹمی ٹیکنالوجی چوری ہوئی ہے تو اسے تکلیف ہونا ضروری تھا کیونکہ وہ کب چاہتا تھا کہ کوئی اور ملک ایٹمی صلاحیت کے قابل ہو، لہذا اس ایٹمی ٹیکنالوجی کے پیچھے صرف ایک ڈاکٹر صاحب نہیں ہو سکتے، اس میں کچھ حکومتی سطح کے بھی لوگ شامل ہو نگے، جب یہ راز فاش ہوا تو پھر پاکستان ہی کی ذمہ داری تھی کہ کس طرح ان پر خطر حالات سے نکلنا ہے، اس کے لیے کیا کیا فیصلہ جات ہوئے یہ وقتی حکومت کی عقل و فہم پر منحصر ہوتا ہے،ایسے معاملات میں جب ملک کا نام سامنے آجائے تو ایسے بھنور سے نکلنے کا رستہ تلاش کیا جاتا ہے، اس صورت حال کو بھی محسن پاکستان، محب وطن ڈاکٹر صاحب نے خوش اسلوبی سے سر انجام دیا، جان کی پرواہ کئے بغیر اس کا بھی ذمہ اپنے سر لے لیا،اس وقت کی حکومت کے خلاف اور چند منافق لوگ اس ٹوہ میں تھے کہ موقع ملے کسی طرح حکومت وقت کے خلاف قوم میں نفرت پھیلائی جائے لہذا انہوں نے دشمن کے ساتھ مل اس صورت حال کو غنیمت جانا اور ہر ممکن طور پر ڈاکٹر صاحب سے ملاقاتیں کیں اور کسی نہ کسی طرح ان کے جذبات سے کھیل کر ان کو متضاد انٹرویو دینے پر مجبور کرتے رہے اس لیے ان کے کچھ انٹرویوز ایسے بھی ہیں۔ پھر ان لوگوں نے ڈاکٹر صاحب کے سر پرکوئی دست شفقت یا پدری نہیں رکھا بلکہ ان کے انٹرویوز کی بنیاد پر بے پناہ شورو گوگا کیا جس سے دشمن کو تقویت ملی،پھر ڈاکٹر صاحب کو امریکہ کے ہاتھ دینا، بیچنا، بلیک میل کرنا سے نظر بند رکھنے تک اور کئی طرح طرح کے بیان خاص طور پر یوٹیوبرز نے اپنے ویورز بڑھانے اور چینل کو پروموٹ کرنے کے لیے ہوشے ہتکھنڈے استعمال کیئے جس سے نئی جنریشن میں عجیب سی کیفیت پیدا ہوگئی، جوکہ ہمیں بطور پاکستانی ایسا نہیں کرنا چاہے تھا اور نہ ہی آئندہ کرنے کی ضرورت ہے، واضح کر دوں بہت سے ایسے راز ہوتے ہیں کہ ایک عام آدمی کی سوچ و فراست وہاں تک کام نہیں کرتی تو وہ ہر سنی سنائی بات کو سچ سمجھ بیٹھتا ہے، ذرا سوچیں اور بٖغور اپنا جائزہ لیں کہ ہم نے ملک عزیز وطن پاکستان کے لیے کونسا مثبت قدم اٹھایا جسے پوری قوم تو نہیں کم از کم محلے کے چند لوگ کچھ عرصہ تک یاد رکھیں۔ اگر نہیں تو پھر ہم محبت وطن ہونے کا دعوی نہیں کر سکتے۔ ڈاکٹر صاحب کو تو میں محب وطن کے ساتھ ساتھ وقت کا ولی بھی کہتاہوں۔ آخر میں یہی ہے کہ بس ڈاکٹر صاحب کے لیے دعا گورہیں، اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں صحیح معنوں میں سچے اور محب وطن قوم بننے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 154877 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More