ملک میں ایک مرتبہ پھر آڈیو اور ویڈیولیکس کا کھیل شروع
ہو گیاہے۔ صحافی احمد نورانی کی جانب سے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثا ر کی
آڈیو منظر عام پر لانے کے بعد یہ کھیل انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کرتا
جا رہا ہے ۔آخر وطن عزیز میں یہ کھیل کب تک چلتا رہے گا ۔افسو س کی بات ہے
کہ ہماری سیاست کا یہ رخ انتہائی شرمناک ہے۔ اس طرح کی بلیک میلنگ جمہوری
اقدار بالخصوص شرافت کی سیاست کے لئے نیک شگون بالکل نہیں ہے۔ آڈیوز اور
وڈیوز کو سہارا بنا کر اپنے آپ کو پارسا اور فریق مخالف کو جھوٹا ثابت کرنے
کا یہ کھیل ٹیکنالوجی کے جدید دور میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ البتہ اس
قیامت خیز مہنگائی میں لوگوں کو چند دن اس تماشے سے لطف اٹھانے کا موقع
ضرور مل جائے گا۔آڈیو لیکس کے اس کھیل کی باز گشت آج میڈیا کی زنیت بنا ہو
اہے ۔ چند دن قبل سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی آڈیومنظر
عام پر آئی اور دو روز بعد ہی مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کی آڈیو
بھی ہم نے سنی جس میں وہ اپنے میڈیا سیل کو ہدایات دے دہی ہیں کہ کس کس ٹی
وی چینلز کو اشتہارات نہیں دینے ۔ چند ماہ قبل ن لیگ کے سینئر رہنماء و
سابق گورنر محمد سندھ محمد زیبر کی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی ۔ اس سے قبل
بھی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک مرحوم کی ایک آڈیو منظر عام پر آ چکی ہے
اور اس ویڈیو کے بعد وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ سیاسی جماعتیں عرصہ
دراز سے اس قسم کا کھیل کھیل رہی ہیں ۔ اگر ہم ماضی پر نظر ڈالیں تو اس قسم
کا کھیل ماضی میں بھی بہت کھیلا گیا لیکن اس کا نتیجہ جمہوریت کے خلاف ہی
گیا ۔ 90 کی دہائی میں سیاست دانوں کو سزا دینے کے لئے ججز کو استعمال کیا
جاتا رہا۔ آج کے زیرعتاب شریف خاندان نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو سزا
دلوانے کے لئے جسٹس قیوم کو اپروچ کیا تھا۔ اس حوالے سے سیف الرحمن اور جج
ملک قیوم کی آڈیو ٹیپ تاریخ کے اوراق میں بطور ثبوت درج ہے۔اگر ہم اور
پیچھے چلے جائیں تو جناب ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل نے عدلیہ کے منہ
پر سیاہی مل رکھی ہے جسے مٹانا بہت ہی مشکل ہے۔ لیکن ان تمام ویڈیو ز اور
آڈیوز کا مقصدصرف سیاست دانوں اور ججز کو بدنام کرنا ہی مقصود ہے اور اپنے
مقاصدکے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے ۔دوسری طرف اب پاکستان میں جمہوریت کا جو
حال ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے۔ چند سیاسی جماعتوں اور غیر جمہوری قوتوں
کے گٹھ جوڑ نے جمہوریت کے پودے کو تناور درخت بننے ہی نہیں دیا۔ کہا جاتا
تھا کہ بدترین جمہوریت آمرانہ نظام حکومت سے بدرجہا بہتر ہوتی ہے۔ مگر اس
وقت ملک میں جو جمہوری ڈھانچہ قائم ہے اس نے آمریت کو بھی بہت پیچھے چھوڑ
دیا ہے۔نیب جیسا ادارہ جسے بلا امتیاز ہر شخص جس کے ہاتھ کرپشن میں لتھڑے
ہوئے ہیں کا کڑا احتساب کرنا چاہیے۔ مگر موجودہ حکومت اسے اپوزیشن راہنماوں
کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ تین سالوں کے درمیان چینی، گندم، پٹرولیم اور
دیگر شعبوں میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی اور سونے پر سہاگہ کرپشن کی بہتی
ہوئی گنگا میں حکومتی ارکان نے ہاتھ رنگے۔ مگر نیب نے بوجوہ ان سے چشم پوشی
اختیار کر رکھی ہے۔ بدقسمتی سے نیب کے متنازعہ کردار نے احتساب کے بیانیے
کو بہت ٹھیس پہنچائی ہے۔اگر آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ بنانا مقصود ہے
اور اگر ہم ملک کا وقار بحال کرنا چاہتے ہیں تو تمام اداروں کو اپنی حدود
میں رہنا ہو گا۔ غیر جمہوری قوتوں کو کندھا فراہم کرنے سے اجتناب برتنا ہو
گا۔ پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہو گا۔ یعنی تمام فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے طے
کرنا پڑیں گے۔ اور ذاتی مفادات اور عناد کو پس پشت ڈال کر صرف ملک کی ترقی
کے لئے کام کرنا ہو گا۔ سب سے اہم بات یہ ہے بڑے عہدوں پر فائز شخصیات کے
اختیارات کا ازسر نو جائزہ لے کر ان میں توازن پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے
تاکہ ان میں سے کوئی اپنے جامے سے باہر نہ نکل سکے۔سابق چیف جسٹس ثاقب نثار
کی آڈیو لیک کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہاس آڈیو
کی فرانز ک کرائی جا چکی ہے جس میں اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ یہ
اوریجنل آڈیو ہے ۔ان کے بقول گیریٹ ڈسکوری نامی جس فرم سے انہوں نے اس آڈیو
کا فرانزک کرایا ان کے پاس ماہرین کی ٹیم ہے جس کے پاس امریکی عدالتوں کے
سامنے شواہد پیش کرنے ان کا تجزیہ کرنے اور عدالتی گواہی دینے کا طویل
تجربہ ہے جبکہ دوسری جانب سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس آڈیو کو جعلی
قرار دے چکے ہیں ۔ حکومت کی جانب سے مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز اور
دیگر رہنماؤں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ بھی دے دیا گیا ہے
۔ اب دیکھنا ہے کہ وطن عزیز میں یہ آڈیو اور ویڈیولیکس کا کھیل کب تک جاری
رہے گا ۔
|