جذباتی قوم ؛جذباتی باتیں۔

نوجوان نسل کسطرح سے بے راہ روی کا شکار ہوچکی ہےاسکااندازہ اسی وقت ہوپائےگا جب ہم نوجوانوں کے حلقوں کو قریب سے دیکھیںگےاورنوجوانوں حرکتیں ، انکی سوچ ، انکے افکار اورانکے سرگرمیوں پر نگاہ ڈالیںگے تو ملت اسلامیہ کا بیشتر طبقہ سوائے جذباتی باتوں کے عملی طور پر کچھ کرنے کی لائق نہیں ہے۔ ہمارے درمیان کچھ ایسے مقررین ہیں جو سیاسی اور ملی فلاح وبہبودی کیلئے کام کرنے والی تنظیموں سے جڑے ہوئے ہیں ۔ ان لوگوں کے سامنے بھی کئی ملی وسماجی مسائل موجود ہیں مگر یہ لوگ ان مسائل پر امت کو متوجہ کرانے کے بجائے انہیں جذباتی بناتے ہوئے اپنے مفادات کی تکمیل کررہے ہیں۔ جس قوم کے نوجوان نشہ خوری، بدکاری، جوئے بازی، تعلیم سے دور، روزگار سے محروم، اخلاقیات سے نابلدہوں ان نوجوانوں کو ہم مودی کو گالیاں دے کر، حکومت کو طعنے مار کر ، حکومت کے خلاف بھڑکاکر سوائے تالیاں بٹورنے کے اورکچھ نہیں کرسکتے۔ آج تقریر میں تالیوں کی ضرورت نہیں تقریر سے ماضی، حال اورمستقبل کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ جو ہمارے مقررین پورا نہیں کرپارہے ہیں۔کم سن عمر میں نوجوانوں کے دماغ خالی ہوتے ہیں، جسطرح سے سفید کاغذ ہوتا ہے اسی طرح سے کم سن اورنوجوانوں کا دماغ خالی رہتا ہے۔ اس پر جس رنگ کی سیاہی ڈالے جائے وہی رنگ کاغذ پر دیکھائی دیتا ہےایسے میں نوجوانوں کے دلوں ودماغ پر ہم دہشت، وحشت، فسطائیت، جیسے الفاظ کو باربار چھاپنے کی کوشش کریںگے، اسی طرح انکے دماغوں میں نقوش بیٹھیںگے۔ آج نوجوان نسل کو مودی کہاں ہے؟ کیا کررہا ہے؟یوگی کہاں ہے؟ کیا کررہا ہے ؟یہ بتانے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی درس دینے کی ضرورت ہے کہ کسطرح سے مسلمان اپنے نقشہِ حیات کو بدل کر ایک تاریخ رقم کرسکتے ہیں۔ دراصل مسلمانوں نے آج تک اپنے حقیقی دشمن کی شناخت نہیں کی ، مسلمانوں کے نزدیک انکا حقیقی دشمن سنگ پریوار سے جڑا ہوا کوئی لیڈر ہے۔ لیکن حقیقی لیڈرتووہ فکر ہے جو سنگ پریوار میں دیکھائی دیتی ہے۔ ہمیں شخصیت سے نہیں فکر سے لڑنا ہےاوراس فکر کا حل تعلیم میں دیکھائی دیتا ہےاوراس فکر کو ہم عمل سے ختم کرسکتے ہیں۔ جذباتی تقریروں سے امت کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، بلکہ زندگی گذارنے کے طریقے کو بدل کر مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ عام طور پر دیکھاگیا ہے کہ نوجوان نسلوں کی صحیح رہنمائی نہ ہونے کے سبب وہ بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو جب تک تعلیم سے آراستہ نہیں کیا جاتا اورجب تک انہیں تربیت نہیں دی جاتی ، اس وقت تک امت کے مسائل یوںہی برقراررہیںگے۔ بہت سے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ شعلہ بیانی، جذباتی تقریریں سننے کے بعد نوجوانوں کی فکر بدل جاتی ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان تقریروںسے دودھ میں اُبال ضرور آتا ہے ، لیکن چند پانی کے چھینٹے مارنے سے یہ اُبال کمزور پڑجاتا ہے۔ اس لئے دودھ کو ہلکی آنچ پر ہی پکائیںتب ہی وہ گرم ہوتا ہے اُبلتا نہیں ہے اورخراب بھی نہیں ہوتا۔ ہم جوشیلے وجذباتی تقریروں کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ہمیں ان تقریروں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو جوشیلے بھی ہوں ، باحکمت والے بھی ہوںاور نوجوانوں کی رہنمائی بھی کرتے ہوں۔


 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.