مقبوضہ کشمیر میں معذوروں کی تعداد میں اضافے کا سبب بھارتی تشدد

 پاکستان سمیت دنیا بھر میں3دسمبر کو معذور افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے ذریعے 1992سے اس کو منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد معاشرے کے تمام شعبوں میں معذور افراد سے اظہار یکجہتی کرنا، ان کے حقوق اور فلاح و بہبود کو فروغ دینا ہے تاکہ وہ کسی بھی طرح کے احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوں ،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا میں اس وقت چھ سو ملین افراد معذور ہیں یعنی دنیا میں ہر دس میں ایک شخص معذور ہے، ہم بطور مسلمان خوش قسمت ہیں کہ ہمارے دین کی تعلیمات میں انسانیت کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھا گیا ہے، وطن عزیز پاکستان میں معذور افراد کے لیے گزشتہ چار دہائیوں سے حکومتوں نے مختلف اقدامات کیے ہیں لیکن ابھی بھی مزیدکام کی گنجائش باقی ہے ، دنیا بھر میں معذورافراد کی کامیابیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر ان کو حقوق دئیے جائیں تو کسی بھی طور یہ افراد نارمل لوگوں سے کم نہیں ہیں ، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں کل آبادی کا تقریباً دس فیصد معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح سات فیصد ہے،دفاتر اور پبلک مقامات پر سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ معذور افراد کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے لئے مناسب سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں موجودہ حکومت جو کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لے کر برسر اقتدار آئی ہے کو فوری طور پر معذور افراد کے لئے کاغذی کاروائیاں چھوڑ کر عملی اقدامات کرنا ہونگے، سانچ کے قارئین کرام !ساوتھ ایشین وائر کے مطابق جموں و کشمیر میں معذور افراد کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق جموں وکشمیر میں بھارتی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہزاروں کشمیری زندگی بھر کیلئے معذور ہو چکے ہیں۔ علاقے میں مظاہرین پر صرف پیلٹ فائرنگ کے باعث 200افراد بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔بھارتی فوجی کشمیریوں کو اپاہج بنانے کیلئے انتہائی سفاکانہ ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جن میں گولیوں ،پیلٹ چھروں ، اور آنسو کے گولوں کی فائرنگ شامل ہے۔ اسکے علاوہ وحشیانہ مارپیٹ ، بجلی کے جھٹکے، گرم چیزوں سے جلانا اور تفتیشی مراکز میں الٹا لٹکانا بھی شامل ہیں جبکہ محکوم کشمیریوں کے خلاف کھلونانما بموں اور بارودی سرنگوں کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔بھارت کی طرف سے مہلک پیلٹ چھروں کا استعمال شروع کیے جانے کے بعد سے معذوں ہونے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اس وقت تین ہزار سے زائد کشمیری اپنی ایک یا دونوں آنکھوں کی بصارت کھونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔دنیا بھر میں جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے مختلف ممالک کی سرکاروں اور سماجی تنظیموں نے سہولیات مہیا کررکھی ہیں، کشمیر میں ان افراد کی فلاح و بہبود کا عام طور پر فقدان پایا جاتا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق کشمیر میں جسمانی طور سے معذور افراد کی شکایت ہے کہ کشمیر میں سماجی اور سرکاری سطح پر انکی بہبود کے لیے فقط دعوے کئے جاتے ہیں اور عملی طور ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔سرحدی ضلع پونچھ میں اس طبقہ کو حکام کی طرف سے بے حسی کا سامناہے اور معذوری ان کیلئے بے رحم ثابت ہورہی ہے۔ اڑائی ، پرالکوٹ اورحد متارکہ کے معذوروں سمیت پونچھ میں 30ہزار سے زائد افراد جسمانی طور پر معذورہیں جن کو اپنی زندگی گزارنے میں سخت مشکلات کاسامناکرناپڑ رہا ہے۔ اگرچہ حکومت کی طرف سے معذوروں کے نام پر کئی سکیمیں شروع کی گئی ہیں لیکن پونچھ کے ان جسمانی طور پرمعذورافراد کو ان سے کوئی فائدہ نہیں مل پارہا۔پونچھ ایک سرحدی ضلع ہے جہاں مائن بلاسٹ سے بھی سینکڑوں افراد زخمی ہوکر زندگی بھر کیلئے معذور بنے ہوئے ہیں۔اسی طرح سے منڈی کے پرالکوٹ علاقے میں ایک ہی خاندان کے 16افراد قوت گویائی اور قوت سماعت سے محروم ہیں۔اس علاقہ کی کل آبادی 139نفوس پر مشتمل ہے جس میں ایک بٹ خاندان کے 16افراد نہ ہی بول پاتے ہیں اور نہ ہی کسی کی بات سن سکتے ہیں جو اپنی بات اشاروں کے ذریعہ دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ساؤتھ ایشن وائر کی رپورٹ کے مطابق سال2011 کی مردم شماری کے مطابق اگرچہ جموں کشمیر میں جسمانی طور پر کمزور افراد کی تعداد 6لاکھ ہے تاہم غیرسرکاری اداروں کے جائزے کے مطابق یہ تعداد اب 8 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے٭
 

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 87 Articles with 60084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.