سوات کی اس جنت نظر وادی تک جانے کے لیےبذریعہ بس پنڈی کے
بس اڈے سے سفر شروع ہوتا ہے۔پشاور روڈ پر سفر کے دوران ٹیکسلا آتا ہے۔
یہاں تیسری صدی قبل مسیح کے بدھ مت کے آثار ملتے ہیں۔ تیسری صدی قبل مسیح
میں بدھ مت کا غلبہ ہوا، جب کہ اس سے قبل چھٹی صدی قبل مسیح میں یہاں
ایرانی اور یونانی تہذیب کے اثرات غالب رہے۔ فن مجسمہ سازی کے حوالے
سےگندھارا کی علیحدہ پہچان ہے، یہاں ہر طرف چھوٹے بڑے مجسمے، اسٹوپا پائے
جاتے ہیں اور دنیا بھر سے بدھ مت اور ہندو دھرم کے ماننے والے سیاح ان کی
زیارت کے لیے آتے ہیں ۔یونان کےقدیم آثار کے ماہرین کے مطابق ، گندھارا
میں مجسمہ سازی کویونانی سنگ تراشوں نے فروغ دیا تھا اور مہاتما بدھ کا
مجسمہ دراصل یونانی دیوتا اپالو کے مجسمے کی نقل ہے۔ چینی بدھ بھکشو فاہیان
، جس نے پاکستان کے شمالی علاقوں کی طویل عرصے تک سیاحت کی، اپنی سوانح
عمری میں رقم طراز ہے کہ اس شہر میں بدھ تہذیب کا غلبہ رہا ہے اور مہاتما
بدھ نے ٹیکسلا کے شہر میں تین جنم لئے تھے۔ ٹیکسلا شہرکے بعد مانسہرہ کا
مقام آتا ہے۔ اس کے بعد اٹک خورد ہے جہاں بہرام بادشاہ نے ایک بارہ دری
تعمیر کروائی تھی جس کی عظیم الشان عمارت آج بھی موجود ہے۔ یہاں اٹک کا پر
ہیبت قلعہ بھی واقع ہے اس کے بعد کنڈ کا قصبہ آتا ہے۔ کنڈسے آگے نوشہرہ
شہر ہےجس کے بعد پشاور جانےوالی سڑک کا پل عبور کرنے کے بعد رسالپور کا
علاقے آتا ہے۔ اس کے بعد رشکی کا مقام ہے جہاں غیرملکی اشیاء کی فروخت کا
ایک بڑا بازار ہے۔ وہاں سے مردان اورگوجر گڑھی کے بعدتخت بائی تک سڑک
انتہائی شکستہ حالت میں ہے۔ تخت بائی کی پہاڑی پر بدھ مت کادو ہزار سال
پرانا ایک بڑا مندر تھا جس کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔ ۔ تخت بائی سے
گزرنے کے بعد بے شمار چھوٹے بڑےقصبات آتے ہیں جن میں حکیم آباد، قیصر
آباد، شیرگڑھ ، جان خان کلے اور حاجی غالہ کلے قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد
درگئی کا علاقہ آتا ہے۔ یہاں سے آگے چلنے کے بعد مالا کنڈ کا درہ شروع
ہوتا ہے اور سڑک خشک پہاڑی چٹانوں پر اوپر کی جانب اٹھنے لگتی ہے۔ مالاکنڈ
کی چڑھائی پر ایک بازار آتا ہے جس کے ساتھ بلندی پر انگریزوں کے دور میں
تعمیر کردہ ایک قلعہ ہے۔ اس کے بعد نشیب کی جانب سفر شروع ہوتا ہے۔ یہ سڑک
وادی سوات کی جانب جاتی ہے۔ اس مقام سےایک سیدھی سڑک وادی دیر اور چترال کی
جانب جاتی ہے۔ مالاکنڈ کی پہاڑیوں سے اترائی کے بعد بٹ خیلہ کا قصبہ آتا
ہے۔ یہ ایک گھنی آبادی والا شہر ہے جہاں زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہیں۔
آبادی ختم ہونے کے بعد کھیت اور باغات کے ساتھ ایک پہاڑی پر چرچل کی چوکی
ہے۔ یہاں سےگزرنے کے بعد سوات کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ سفید پھولوں کے باغات
کے درمیان تھانہ کا علاقہ ہے جہاں ایک چھوٹی سی ندی بہہ رہی ہے۔ اس سڑک پر
وسیع و عریض اور گھنے باغات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہاںکے درختوں، مکانات
کی چھتوں، پہاڑی راستوں پر، ہر جانب جنگلی گلاب کے پھول کھلے ہوئے نظر آتے
ہیں۔ یہاں ایک خوب صورت قبرستان آتا ہے جس کے ساتھ سیبوں کے باغات ہیں۔ اس
کے بعد بری کوٹ کاقصبہ آتا ہے ، جس کے بعدبرف پوش پہاڑیوں کا سلسلہ شروع
ہوتا ہے۔اس کے بعداودے گرام کا قصبہ ہے، اس کا شمار بھی تاریخی مقامات میں
ہوتا ہے۔بعض سیاح یہاں کچھ دیر آرام کرتے ہیں ، اس کے بعد مینگورہ پہنچتے
ہیں۔ مینگورہ کا شمارجدیدشہر وں میں ہوتاہے، یہاں سابق والی سوات کی کوٹھی
بھی ہے۔ یہاں چمکتی دمکتی سڑکوں پر ٹریفک کا ہجوم رہتا ہے۔یہاں شہری
سہولتوں سے آراستہ کئی ہوٹل ہیں، جہاں سوات کی سیر کے لیے آنے والے لوگ
قیام کرتے ہیں۔ مینگورہ سے مرغزارکی وادی تک جانے کے لئے ویگنیں چلتی ہیں
جو بیس سے تیس روپے میںکوہ ایلم پرپندرہ کلومیٹر کا سفر طے کرکے مرغزار کی
،خوب صورت وادی میں اتارتی ہیں۔ مینگورہ کی آبادی ختم ہونے کے بعد اونچے
نیچے راستے شروع ہوتے ہیں۔ درمیان میں چھوٹے چھوٹے گائوںآتے ہیں۔ آدھے
گھنٹے کے سفر کے بعد 9300 فٹ کی بلندی پر ایلم پہاڑ کی چوٹی پر ایک چبوترہ
بنا ہوا ہے جسے رام تخت کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں روایت ہےکہ بن باس کے
دوران اس چبوترے کو رام چندر جی نے تعمیر کرایا تھا۔ ہندومت میں اسے ایک
متبرک مقام کا درجہ حاصل ہے اور دنیا کے گوشے گوشےسے ہندویا تری اس کی
زیارت کے لئے آتے ہیں، پاکستان بننے سے قبل یہاں ایک میلہ بھی لگتا تھا،
جو بعد میں ختم کردیا گیا۔
وادی مرغزار ایلم کے قصبے میں جانے کا صدر دروازہ بھی ہے جو سوات کے علاقے
کی جنوبی سمت میںواقع ہے۔ یہ پرکشش علاقہ سرسبز چراگاہوں اور سرد فضا اور
پہاڑی مقامات کی وجہ سے سیاحوں اور ٹریکر حضرات کے لیے باعث کشش ہے۔ ٹریکنگ
کے شائقین شاندلا اور کڈونا کے ٹریکنگ کے مقامات سے ہوتے ہوئے وادی مرغزار
میںپہنچتے ہیں۔ یہاں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے ہمہ قسم کا فطری ماحول موجود
ہے ،خنک ہوائیں ،دل میں اتر جانے والے حسین مناظر اور جنگلی حیات ان میں
قابل ذکر ہے۔ وادی کے بلند ترین پہاڑی مقام کو جگیانو سار کے نام سے پکارا
جاتا ہے ۔جگیانور سار ایک گمنام علاقہ تھا اسے اس وقت شہرت حاصل ہوئی جب
ایک ہندو شہزادہ رام چندراجی کو ان کے والدنے 14سال کے لئے ہندوستان سےجلا
وطن کر دیا تھا۔ وہ سوات پگئے تھے اور انہوں نے اپنی جلاوطنی کے چار سال
اپنی دھرم پتنی سیتااور سالے لکشمی کے ہمراہ ایلم پہاڑ کی چوٹی پر گزارے
تھے۔ مرغزار کی وادی میں مختلف مقامات پر مقامی لوگوں نے خیموں اور
جھونپڑیوں میں چھوٹے چھوٹے ریستوران بنا لئے ہیں جہاں تفریح کی غرض سے آنے
والے لوگ چائے کے ساتھ پکوڑے، سموسے، چپلی کباب ،ڈبل روٹی ، دیسی مکھن اور
دہی نوش کرتے ہیں ۔ ان اشیا کی قیمتیں بھی انتہائی مناسب ہیں۔
پرسکون ماحول خنک فضا اور سر سبز و شاداب اور مناظر قدرت سے مزین سرزمین
نے، سوات کے حاکم میاں عبدالو دود کو اتنا متاثر کیا کہ انہوں نے 1935میں
یہاں گرمیوں کا موسم گزارنے کے لئے ایک گرمائی دارالخلافہ کی تعمیر شروع
کرائی۔ اس مقصد کے لئے انہوںنے آگرہ سے سنگ مر مر منگوایا جب کہ کانسی کی
دھات بلجیم ، دیگر خام مال راجستھان اور معمار و کاریگر ترکی سے منگوائے
گئے، جنہوں نے مذکورہ محل کی تعمیر کے لئے جگہ کا انتخاب کیا۔ اس کے بعد
مذکورہ محل کا ڈیزائن تیار کیا گیا اور والی سوات کی منظوری کے بعد اس کی
تعمیر شروع ہوئی۔ 6 سال تک اس پر کام ہونے کے بعد1941ء میں مرغزار کی وادی
کے سینے پر ایک ایسا د لکش عجوبہ معرض وجود میں آیا جو ہرے بھرے درختوں،
سرسبز میدان، برف سے ڈھکے ہوئے بلندو بالا سفید پہاڑوں ،جھرنوں آب شار اور
شفاف پانی کی ندی کے ساتھ پریوں کا محل معلوم ہوتا تھا۔ ابتدا میں اس کا
نام سواتی تاج محل رکھا گیا۔ اس کے بعد اسے تبدیل کر کے موتی محل کردیاگیا
۔کچھ عرصے بعد یہ سفید محل یا وائٹ پیلس کے نام معروف ہوا۔دنیا کے مختلف
ممالک سے جانور اور پرندے درخت اور پھول ،پودے منگواکر خوب صورت باغ لگایا
گیاجس کے ساتھ ایک چھوٹا سا چڑیا گھربنایا گیا۔ سفید محل کا خطاب اس کی
سفید جگمگاتی عمارت کی وجہ سے دیا گیا۔ یہ محل سوا ت کے آخری حکمراں میاں
گل جہاں زیب تک سوات کے حکمرانوںکی گرمائی رہائش گاہ رہی ،جہاں وہ اپنا
دربار منعقد کیا کرتے تھے اور امور مملکت نمٹاتے تھے۔ سوات کی ریاست کے
پاکستان میں انضمام کے بعد یہ ایک سیاحتی مقام بنا دیا گیا۔مغزار کی جنت
نظر وادی میں واقع، اس محل میں خوب صورت نقش و نگار سے سجائے ہوئے چوبیس
وسیع و عریض کمرے ہیں جن کے ساتھ دو بڑے کانفرنس ہال بھی ہیں جن میں والی
ریاست میاں عبدالو دود اپنا دربار لگاتے تھے اور ریاستی کابینہ کے اجلاس کی
صدارت کرتے تھے۔ یہاں پر ایک شاہی ایوان بھی ہے جہاں بیٹھ کر بادشاہ سلامت
خوب صورت پائیں باغ اور سر سبز لان کا نظارہ کیا کرتے تھے۔دائیں ہاتھ پر
ایک دالان بنا ہوا ہے ، جس میں سنگ مر مر سے بنے ہوئے تخت اور ایوان لگے
ہوئے ہیں۔ ان پر بیٹھ کر وہ ندی کے شفاف پانی کے بہنے کا نظارہ جکرتے تھے۔
بائیں جانب چھ کمروں پر مشتمل ایک سرکاری بلاک بنا ہوا ہے۔ جن میں ریاست کے
وزراء اور حکومتی مشیر قیام پذیر ہوتےتھے۔ محل کے بالائی حصے میں شہزادوں
کا رہائشی بلاک ہے جو آٹھ کمروں پر مشتمل ہے یہ چاروں اطراف سے گھنے
درختوں میں گھرا ہوا ہے۔ مزید سیڑھیاں چڑھ کراوپر کی جانب جانے کے بعد بارہ
کمروں پر مشتمل ایک اور بلاک آتا ہے جس میں ریاست کی ملکہ ، شہزادیاںاور
ان کی کنیزوں کی رہائش گاہیں تھیں۔ اس محل کو دیکھنے کے لیے سیاح خاص طور
سے وادی مرغزار آتے ہیں۔
مرغزار کی وادی کو خالق کائنات نے فطری حسن ، دل کشی، سرسبز چراگاہوں ، ذہن
پر سحر طاری کرنے والے مسحور کن مناظر، خواب ناک ماحول، حسین فضا اور خوش
گوار موسم سے مالا مال کیا ہوا ہے ۔ہرے بھرے درختوں اور گھاس سے مزین
پہاڑوں پرسیڑھیوں کی صورت میںتہہ در تہہ کچے مکانات کی بستیاں ہر جانب
پھیلی ہوئی ہیں ۔ اس کا شمار افسانوی کہانیوں پر محیط بستیوں والے قصبےمیں
ہوتا ہے جب کہ ہندومت کے نزدیک یہ ایک متبرک اور روحانی مقام ہے ۔ پوری
وادی چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی جن پر سرسبز وشاداب چراگاہیں ہیں ۔
پہاڑوں سے آنے والی خنک ہوا کے جھونکے موسم گرما میں بھی وادی کے موسم کو
معتدل رکھتے ہیں ۔یہ وادی مرحوم والی سوات کی ذاتی جاگیر تھی اس لئے اس کے
خوب صورت محل وقوع اور صحت افزا ماحول کی مناسبت سے انہوں نےاس کا نام وادی
مرغزار تجویز کیا ۔ اگرچہ یہ ایک انتہائی تنگ سی وادی ہے جو چاروں جانب سے
فلک بوس پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے ۔ اس میں میدانی علاقے کم ہیں اور پہاڑوں
پر سیڑھیوں کی شکل میں مکانات اور لکڑی کی عمارتیں بنی ہوئی ہیں ۔ لہلہاتے
کھلیانوں، موسیقی بکھیرتے ہوئے جھرنوں، پر شور پہاڑی ندیوں نالوں، چہچہاتے
خوش رنگ پرندوں کی وجہ سے یہ وادی تفریح کی غرض سے آنے والے سیاحوں کے دل
ودماغ کو مسخر کرلیتی ہے ۔ 1961میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم نے سوات
کادورہ کیاتھا اور اس دوران تین دن تک وہ اس وادی میں رہیں اور ان کا قیام
سفید محل میں رہا تھا ۔ مذکورہ محل اب ایک ہوٹل میں تبدیل ہوگیا ہے ۔اس کے
نواح میں ایک خوب صورت بازار ہے، جس میں سوات کے روایتی کڑھائی والے
ملبوسات،کھڈی سے بنے ہوئے کپڑے ، قالین، قیمتی پتھروں، نوادرات اور گھریلو
دستکاری کی دکانیں ہیں ۔ سیاح اس بازار میں سوات کے مخصوص پیراہن اور
نواردات میں دل چسپی لیتے ہیں اور اپنے عزیز واقارب کو بطور تحائف دینے کے
لئے ان کی خریداری کرتے ہیں ۔2010کے تباہ کن سیلاب نے وادی مرغزار کے حسن
کو بھی متاثر کیاتھاجب کہ اس کی سڑکیں پانی میں بہہ گئی تھیں۔ مقامی آبادی
نے اپنی مدد آپ کے تحت ان سڑکوں کو تعمیر کیا لیکن وہ ابھی بھی مخدوش حالت
میں ہیں ، جنہیں حکومتی توجہ کی ضرورت ہے۔
|