تحریر: روبینہ شاہین، لاہور
اربوں کھربوں سال سے بنی اس دنیا میں وقت کی لہریں یوں ہی گزرتی رہی ہیں
اور گزرتی جائیں گی۔ انسان بھی آتے ہیں اور لہروں کی طرح گزر جاتے ہیں لیکن
ہمیشہ وہ انسان دنیا اور دلوں میں گھر بناتے ہیں جو اس دنیا میں کچھ کر
جاتے ہیں۔ وہ چلے بھی جائیں لیکن دنیا انہیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔کبھی لفظوں
میں کبھی یادوں میں اور کبھی مزاروں کی شکل میں، اور بزرگ برصغیر پاک و ہند
میں بے شمار صوفی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے برصغیر کی اس سرزمین میں اسلام
پھیلانے کیلئے آخری سانس تک بے شمار کوششیں کیں۔ وہ ساری کوششیں چاہے ان کی
زندگی میں پوری نہ ہو سکیں لیکن ان کی تعلیمات اور کردار روشن ستاروں کی
طرح اس دنیا میں قائم رہے۔ ان کی قبروں پر آج بھی لوگوں کا ہجوم رہتا ہے
اور انہیں ایصال ثواب کرتا ہے۔ ان صوفیاء کرام نے جہالت ختم کرنے کیلئے اس
سرزمین پر بے شمار کوششیں کیں، مشکلات برداشت کیں اور قربانیاں دیں جو
لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ و جاوید ہیں۔
انہی ناموں میں ایک نام حضرت بابا بلھے شاہ کا ہے۔ قصور شہر کا نام اور
بابا بلھے شاہ کا نام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں جہاں قصور کا نام لیا جائے
وہاں بابا بلھے شاہ کا نام بھی ساتھ ہی لیا جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے ہمارا
قصور جانے کا اتفاق ہوا، دل میں بہت شوق تھا کہ بابا بلھے شاہ کا مزار
دیکھیں۔ لاہور سے 28کلومیٹر دور قصور کا چھوٹا سا شہر ہے۔ قصور پہنچ کر چار
پانچ کلومیٹر دائیں جانب ایک چھوٹا سا پسماندہ گاؤں ہے جو آج بھی اتنا ہی
پسماندہ ہے جتنا کہ بابا بلھے شاہ کے زمانے میں ہو گا۔ آج بھی سائیڈوں پر
بنے ہوئے بنوں پر لوگ بے کار بیٹھے رہتے ہیں۔ کچے پکے راستوں اور کھیتوں کے
درمیان سے گزرتے ہوئے ہم مزار شریف کے پاس پہنچے۔ مزار کے آس پاس ایک چھوٹا
سا شہر آباد ہے جہاں زیادہ مچھلی اور فالودے کی دکانیں موجود ہیں۔ کار
پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے کچی جگہوں کو پار کرتے ہوئے ہم نے مزار کا رخ
کیا۔ ان کچی جگہوں پر زیادہ قبریں ہی بنی ہوئیں تھیں۔
ایک لمبی قطار کے ساتھ چلتے ہوئے ہم مزار کے احاطے میں داخل ہوئے۔ وہاں سے
وضو کیا اور مزار کے اندر کا رخ کیا۔ بے شمار رش اور چاہنے والے روزانہ
سیکڑوں کے حساب سے حاضری دینے آتے جاتے رہتے ہیں۔ مزار کے ایک طرف ایک کمرہ
تعمیر ہے جہاں ہر وقت قوالی کا انتظام ہے جو موسیقی بابا بلھے شاہ کی زندگی
کا حصہ تھی۔ وہ آج بھی وہاں پر اسی طرز پر چلتی رہتی ہے۔
نہ کر بندیا میری میری نہ تیری نہ میری
تو ایں خاک دی ڈھیری
کوٹھیاں بنگلے سب ٹر جانے
جدوں لیکھاں نے اکھ پھیری
پنجابی صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کو بخاری سید بھی کہتے ہیں۔ ان کا نام
عبداﷲ شاہ تھا، ان کے والد کا نام شاہ محمد درویش تھا جو مسجد کے امام
تھے۔بابا بلھے شاہ کی پیدائش اوچ شریف میں ہوئی۔ ان کے والد بچوں کو قرآن
پاک پڑھاتے تھے۔ بابا بلھے شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔
قرآن، حدیث اور منطق کی تعلیم قصور سے حاصل کی۔ گلستان استاد بھی پڑھی۔
دنیا کے علم حاصل کرکے بھی ان کا دل مطمئن نہ ہوا۔ بابا بلھے شاہ حافظ غلام
مرتضیٰ کے شاگرد بن گئے اور ان سے عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم بھی حاصل
کی۔ وارث شاہ نے بھی حافظ غلام مرتضیٰ سے تعلیم حاصل کی۔ حافظ غلام مرتضیٰ
کہا کرتے تھے۔
مجھے دو ایسے عجیب شاگرد ملے ہیں ایک بلھے شاہ ہے جو تصوف کی تعلیم حاصل
کرے اس نے ایک ہاتھ میں سارنگی پکڑ لی اور دوسرا وارث شاہ جو عالم دین بن
کر تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہیرا رانجھے کے گیت گانے لگا۔
بابا بلھے شاہ اپنی شاعری میں نہ صرف مذہبی ضابطوں پر تنقید کرتے بلکہ ترک
دنیا کو بھی بھرپور انداز میں مذمت کرتے اور محض علم جمع کرنے کو وبال جان
قرار دیتے ہیں۔ علم بغیر عمل کے بے کار ہے۔ بابا بلھے شاہ کے دور میں مغلیہ
سلطنت داخلی اور خارجی مسائل کا شکار تھی، معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا
تھا، انسان بے بس ہو چکا تھا۔لوگ ایک خدا کی عبادت کرنے کی بجائے توہمات
میں الجھے ہوئے تھے لیکن بابا بلھے شاہ کو اﷲ کی طرف سے یہ خوبی عطا تھی کہ
وہ انسان کو تصویر کا دوسرا رخ سمجھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ انہوں
نے انسانوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اے ابن آدم تو کچھ بھی نہیں تیری
کوئی شناخت نہیں تو مٹی کی ڈھیری ہے بس وہ ایک درویش آدمی تھے۔ یہ درویشی
صفت ساری عمر ان کے ساتھ رہی۔ وہ موسیقیت روحانیت اور انسانیت سے مزین تھے،
ہر وقت انک ے اندر رقص و موسیقیت کی شعائیں پھوٹتی رہتی تھیں۔اسی لیے وہ
باغی کہلائے۔ یہ صوفی سلسلے کی ایسی کڑی ہے جو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہے۔ ان
کا درس محبت، عشق اور آزادی تھا۔ اس لیے وہ علامتی صوفی کہلانے لگے۔ ایسی
ہستیاں بے مثال ہوتی ہیں۔ ایسی ہستیاں دلوں میں زندہ رہتی ہیں، کبھی مرتی
نہیں۔ بابا بلھے شاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کے چشم دید گواہ ہیں۔ اس لیے
مفتی ان کے خلاف تھے۔ انہیں کافر کہہ رہے تھے۔ مغل سکھوں کا قتل عام کر رہے
تھے اور سکھ مغلوں کو مار رہے تھے۔ بلھے شاہ نے صوفیانہ شاعری کے ذریعے
اورنگ زیب عالمگیر کی حکمرانی کو چیلنج کیا۔ مفتیوں نے فتوے دیئے کہ ان کی
شاعری کافرانہ ہے اس لیے ان کو ملک بدر کر دیا جائے۔ بلھے شاہ کا انسانیت
سے بھرپور کلام اپنے جوبن پر تھا۔ اس وقت بلھے شاہ قصور کو خیرباد کہہ کر
لاہور آ گئے۔ عوام کو محبت اور انسانیت کا درس دینا شروع کیا۔
اب ایک طرف اس دور کے انتہاپسند تھے، دوسری طرف ان کے تصوف کا راستہ تھا جس
سے حکمران خوفزدہ تھے۔ ان وجوہات کی بناء پر بابا بلھے شاہ نے لاہور کے بعد
گوالیار کا رخ کیا وہاں انہوں نے رقص، سنگیت ، راگ رنگ کی تربیت حاصل کی جس
سے اپنے مرشد کو منایا۔
کنجر بن کے میری عزت نہ گھٹی
مینوں نچ کے یار مناون دے
اس کا مطلب یہ تھا کہ کوئی کم تر نہیں ہوتا ناچنے گانے والوں کو کم تر نہیں
سمجھنا چاہیے کیونکہ سازوں کی وجہ سے ان سے نفرت کی جاتی ہے۔ بابا بلھے شاہ
ان سب کی آواز بن گئے۔ اس وقت کے مختار نے فتوے دیئے کہ یہ بندہ گستاخ ہے
اور کافرانہ شعر کہتا ہے۔ اس لیے اسے سخت ترین سزا دی جائے۔ بابا بلھے شاہ
پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ایک بندہ شہر شہر گھوم رہا ہے، رقص کر رہا ہے
اور کہہ رہا ہے۔
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
ایسے شخص کو کیسے ریاست اور اس کے حلقے بے باکی سے زندہ رہنے دیتے۔ یہ سچ
کی ریاستوں کے ٹھیکیداروں کیلئے خطرناک تھا۔ اس لیے لوگوں کو یہ سمجھ آ رہا
تھا کہ یہ درویش مختلف بات کر رہا ہے۔ مفتیوں کو چیلنج کر رہا ہے، عشق ان
کی طاقت تھی۔ ان کو مارنا مشکل تھا۔ بابا بلھے شاہ کا انتقال 1757 عیسوی
میں قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔ ان کے عقیدت مند آج بھی ان کے مزار پر
ہر سال ان کی صوفیانہ شاعری گا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔مزار کے
احاطے میں ایک طرف شیشے کے کیس میں بابا بلھے شاہ کا عمامہ شریف اور ستار
بھی موجود ہے۔ ایک حصے میں ان کے کلام کو گا کر سنایا جاتا ہے اور لوگ بڑے
اشتیاق سے سنتے ہیں۔ سارا دن لوگوں کے ہجوم آتے جاتے رہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے
کہ اﷲ کے نیک بندوں کیلئے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی وہ اس دنیا کے دلوں
میں زندہ رہتے ہیں وہ کبھی بھی نہیں مرتے۔ قصوری میتھی ایک خاص سوغات ہے جو
ان کے مزار پر لوگ کثرت سے خریدتے ہیں۔ ہم نے بھی فاتحہ خوانی کی اور سارا
دن قصور میں گزارا اور یہ دن ہماری زندگی کا ایک بہت اہم اور یادگار دن تھا
کہ ہم نے ایک صوفی شاعر کے مزار پر حاضری دی۔
|