علامہ عبدالستارعاصم پیشے کے اعتبار سے ایک اشاعتی
ادارے کے مالک ہیں انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے دو قابل ذکر
کتابیں شائع کرکے مجھے بھجوائیں ۔ان میں سے ایک کتاب ڈاکٹر عبدالقدیر خان
کی "خود نوشت" تھی تو دوسری کتاب جبار مرزا کی" پاکستان کا آخری بڑا آدمی"
تھی ۔یہ دونوں کتابیں اپنے دامن میں بیشمار انکشافات اور خفیہ راز چھپائے
ہوئے تھیں ۔میں نے دونوں کتابیں نہ صرف پڑھیں بلکہ نوائے وقت کے ادارتی
صفحے پران پر تبصرہ بھی کیا ۔جس وقت میں یہ کتابیں پڑھ رہا تھا میرا دل خون
کے آنسو رورہا تھا کہ باوقار قومیں اپنے ہیروز کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہیں
لیکن ہمارے ملک میں جس عظیم شخص( ڈاکٹر عبدالقدیرخان) نے جدید ترین ٹیکنالو
جی سے آراستہ ایٹم بم اورایٹم لیجانے والا طاقتور غوری میزائل کوڑیوں کے
مول بناکر پاکستان کے دفاع کو نا قابل تسخیر بنایا ، بطور خاص پرویز مشرف
کے دور میں اس ہیرو کو زیرو بنانے کے لیے ہر سطح پر ہر ممکن کوششیں کی گئیں
۔حتی کہ مشرف کے بعدبھی برسراقتدار آنے والے حکمرانوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر
خان کے کوئی آسانی پیدا نہیں کی بلکہ ان کی زندگی کو لمحہ لمحہ اجیرن بنائے
رکھا ۔جس سے انہیں پروسٹیٹ کے کینسر کا مرض بھی لاحق ہوگیا جبکہ سی آئی اے
اور بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ امریکی ایجنسیوں نے الگ ناک میں دم کیے
رکھا ۔اگر یہ کہا جائے توغلط نہ ہوگاکہ مشرف دور کے بعد بھی ڈاکٹر خان کو
کسی نے سکھ کا سانس نہیں لینے دیا ۔اس اعتبار سے میری نظر میں موجودہ اور
ماضی کے تمام حکمران مجرم قرار پاتے ہیں۔جنہوں نے ہیرو کو زیرہ بنانے کے
لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے رکھا۔جبارمرزاجیسے دلیر اور بہادر لکھاری کو
خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی جنہوں ڈاکٹر خان سے دوستی کا حق ادا
کردیا وہ کسی لالچ اور دباؤ سے خوفزدہ نہیں ہوئے بلکہ آج بھی وہ ڈاکٹرخان
کی بطور ایٹمی ہیرو پارسائی کے سب سے بڑے محافظ اور گواہ بن کر پورے قد سے
کھڑے ہیں ۔
مورخہ 5دسمبر 2021ء بروز اتوارکی صبح نماز استغفار اور نماز تہجد پڑھنے کے
بعد میں نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد گیا وہاں سے واپسی کے بعد نماز
اشراق کے نوافل ادا کرنے کے بعد باوضو حالت میں ہی سو گیا ،نیند کی حالت
میں ہی ایک خواب شروع ہوا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ میں کسی ایسی جگہ پر
موجود تھا جسے دیکھ کر جنت کا گمان ہوتا تھا۔ وہاں ہر طرف پھول ،پودے اور
انسانی استعمال کی ہر چیز وافر تعداد میں موجود تھی ۔ بھنے ہوئے گوشت کی
بڑی بڑی ڈشیں حتی کہ ،کھانے پینے کی ہر وہ چیز موجود تھی جسے ہم دنیا میں
کھانے کی تمنا رکھتے ہیں لیکن کھا نہیں سکتے۔ میں نے بھی ڈرتے ڈرتے وہاں
رکھی ہوئی برفی کھائی جو بہت ہی لذیز تھی۔ ابھی حیران کن واقعات کا سلسلہ
جاری تھا کہ محسن پاکستان اورعظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹرعبدالقدیر خان کی
آمد کا اعلان ہوا۔چند ہی لمحوں وہ تشریف لے آئے اور ایک بلند جگہ پر بیٹھ
گئے، لوگ ان سے جوق در جوق مصافحہ کررہے تھے ۔جب مجھے ڈاکٹر عبدالقدیرخان
دکھائی دیئے تو میں بھی ان سے ملنے کے لیے آگے بڑھا ایک شخص نے مجھے آگے
جانے سے روکا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ڈاکٹرخان کو کیسے ملا جائے۔اسی
اثنا میں ڈاکٹر خان نے اشارہ کرکے مجھے بلالیا ۔اس خصوصی محبت پر وہاں پر
موجود سب لوگ حیران تھے،ڈاکٹر خان نے مجھے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے کہااور
فرمایا تم نے میری کتابوں پر کمال تبصرہ کیاہے،میں نے کہا جی جو کچھ مجھ سے
ہوسکا، وہ میں نے کردیا ۔پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا تم کتابیں بھی لکھتے
ہو، میں نے کہا جی میں نے 35کتابیں لکھی ہیں ۔جن میں افواج پاکستان کے
شہداء کے حوالے سے دس کتابیں بھی شامل ہیں ۔ میری بات سننے کے بعد ڈاکٹر
عبدالقدیرخان نے فرمایا جبارمرزا صاحب نے تو مجھے آپ کے بارے میں نہیں
بتایا ۔میں نے کہا سر وہ شاہد بھول گئے ہونگے ۔انہوں نے پھر فرمایا۔ اپنی
کتابیں لاکریہاں بھی رکھو۔اس کے بعد منظر بدل گیا اور دن کے ساڑھے نو بجے
میں نیند سے بیدار ہوگیا لِیکن جنت کی سیر کرنے کے ساتھ ساتھ محسن پاکستان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ملاقات کے خوشگوار تاثر نے مجھے حقیقی معنو ں میں
خوش کردیا۔ میں فوری طورپر کپمیوٹر پربیٹھا اور بھولنے سے پہلے خواب کو
کاغذ پر منتقل کرلیا۔اس خواب کے بعد مجھے پختہ یقین ہوگیا ہے کہ محسن
پاکستان اورمایہ ناز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اﷲ تعالی کے فضل
وکرم سے جنت الفردوس میں ہیں ۔ |