سیاست اور انسانیت

انسانیت کاروناہم سب روتے ہیں لیکن اگرسچ پوچھیں توہماری سیاست اورانسانیت آج بھی ایک دوسرے سے دوربہت دورہے۔سومیں سے پانچ دس کانہیں کہہ سکتے ویسے ہمارے سیاسیوں کی اکثریت کایہ حال ہے کہ سیاسی جامہ پہننے کے بعدان بے چاروں کوپھرانسانیت کاکوئی اتہ ہوتاہے اورنہ ہی کوئی پتہ۔ ہمارے ایک ٹیچرتھے مولانامحمدعلی صاحب وہ اکثرکہاکرتے تھے کہ سیاست کی وادی میں نکلنے والے اکثرسیاستدان پھرانسانیت کاراستہ بھی بھول جاتے ہیں۔ہمارے گاؤں اورعلاقے میں پہلے یہ ہوتاتھاکہ اڑوس پڑوس میں اگرخدانخواستہ کوئی ماتم اورفوتگی ہوتی توپھرپوراگاؤں اورعلاقہ اس طرح سوگ میں ڈوب جاتاکہ تین چاردن تک کوئی اپناہویا بیگانہ اس سوگ سے باہر نکلنے کاراستہ نہ پاتااورایساصرف ہمارے گاؤں اورعلاقے میں نہیں بلکہ غالباًضلع بٹگرام کے تمام گاؤں،دیہات اورعلاقوں میں ہوتاتھالیکن جب سے سیاست کی یہ وباء گھرگھرتک پھیلی ہے تب سے بیگانے توبیگانے اب اپنے بھی کسی کواپنے دکھائی نہیں دیتے۔خیبرپختونخوامیں میرے آبائی ضلع بٹگرام سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابق امیدوارمولانارشیداحمدسیاسی برادری سے تعلق رکھتے تھے۔اس ملک میں کسی کازوراوردبدبہ ہویانہ۔؟لیکن برادریوں کے زوراوردبدبے کاغلغلہ آج بھی ہرجگہ ضرورہے۔صحافی برادری،ٹیچربرادری،ڈاکٹربرادری،تاجربرادری،سیاسی برادری۔اپنے ایک ایک برادرکے لئے ان برادریوں کاکام اورکرداربھی ہم نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھاہے۔ ایک ٹیچرکی بے ادبی ہوتوسارے کے سارے سکول بندکردیئے جاتے ہیں۔ایک ڈاکٹرکامسئلہ ہوتوسب ہسپتالوں کوہڑتال گاہ بنادیاجاتاہے۔کوئی تاجراگرکسی کے ہتھے چڑھ جائے توسارے شٹرڈاؤن کردیئے جاتے ہیں ۔صحافی اپنے ایک بھائی کیلئے قلم چھوڑدیتے ہیں اوراگرکسی سیاستدان کی عزت پرکہیں کوئی حرف آئے توسارے سیاستدان واک اورناک آؤٹ شروع کردیتے ہیں۔برادریوں کے اس مثالی اتحاداوراتفاق پرہمیں ہمیشہ نازرہالیکن مولانارشیداحمدکی اچانک وفات پراس کی سیاسی برادری نے جوکچھ کیاواﷲ اس پرتاقیامت ہرعام وخاص کوافسوس رہے گا۔مولانارشیداحمدنے اپنی زندگی میں نہ صرف بٹگرام بلکہ اس ملک وقوم کے لئے بے پناہ خدمات سرانجام دیں۔جوکام منتخب ایم این ایز اورایم پی ایزنہ کراسکے وہ کام بھی مولانارشیداحمدنے کئے۔مولانارشیداحمدکی وفات پرچاہئیے تویہ تھاکہ بٹگرام کے تمام سیاستدان اپنے بھائی اورعوام کے حقیقی خادم کی وفات پراپنی تمام ترسیاسی سرگرمیاں منسوخ یاملتوی کرکے عوام کے ساتھ دکھ،درد،غم اورسوگ میں شامل ہوتے مگرافسوس بٹگرام سے تعلق رکھنے والے حکمران جماعت تحریک انصاف کے ممبران قومی وصوبائی اسمبلی نے وہی کچھ کیاجوان کے وزیراعظم اورکپتان پچھلے تین سال سے اس ملک میں کررہے ہیں۔مولانارشیداحمدکی وفات کے اگلے دن میوزک کے سائے میں بٹگرام کے اندرحکمران جماعت تحریک انصاف کاوزیراعلیٰ کیلئے جلسہ یہ مولاناکی جدائی سے لگنے والے زخموں پرنمک پاشی سے ہرگزکم نہ تھا۔عوام ایک طرف اپنے محبوب قائداورعوامی خادم کی اچانک جدائی پرآنسوبہارہے ہوں،اپنوں اوربیگانوں کی سسکیاں ابھی جاری ہوں ۔دوسری طرف میوزک کی تاپ پرجشن ہو،تالیاں ہوں اورنعرے ہوں۔آپ خوداندازہ لگائیں سوگ میں ڈوبنے والوں پراس دن کیاگزری ہوگی۔؟مولانارشیداحمدتوچلے گئے تھے کسی کے چاہنے اورنہ چاہنے سے بھی وہ واپس نہیں آسکتے تھے لیکن یہ جلسہ ۔؟یہ توبعدمیں بھی ہوسکتاتھا۔یہ جشن ہفتہ دس دن بعدبھی تومنایاجاسکتاتھا۔یہ تالیاں یہ بھی پندرہ بیس دن بعدکارکنوں اورسیاسی کرایہ داروں ودیہاڑی داروں کے ذریعے ماری جاسکتی تھیں۔یہ نعرے بھی تو بعدمیں لگائے جاسکتے تھے۔لیکن۔افسوس سیاست کرنے والے اس دن غالباًانسانیت ہی بھول گئے تھے۔جولوگ انسانیت بھول جائیں وہاں پھراپنوں کی میتوں پر آنسونہیں اس طرح جشن منائے جاتے ہیں۔مولانارشیداحمدہمارے نہیں ان سیاسیوں کی برادری کے بندے تھے لیکن انہوں نے اس کی وفات کے بعدجوکچھ کیا۔واﷲ اس پرہمارے دل آج بھی دکھ رہے ہیں۔بٹگرام میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکاجلسہ اگرتین چارروزبعدکرادیاجاتاتواس سے کبھی آسمان نے نہیں گرناتھالیکن مولانارشیدکی وفات کے فوری بعداس جلسے کوکرانے سے لوگوں کے جودل پھٹے ہیں وہ اب کبھی نہ بھریں گے اورنہ جڑیں گے۔ مولانامرحوم نے ساری زندگی جے یوآئی کے پرچم کوتھامے رکھا۔ملک اوربیرون ملک وہ جمعیت کے پیغام کوپھیلانے میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔مرحوم کامولانافضل الرحمن کے قریبی ساتھیوں میں شمارہوتاتھا۔وہ نمودونمائش کے قائل نہیں تھے اس لئے دنیاکی نظروں سے ہمیشہ دوریااوجھل رہے۔جتناوقت انہوں نے مولانااورمولاناکی پارٹی کے ساتھ گزارااتنااگروہ امریکہ میں رہنے والے کسی انسان کے ساتھ گزارتے تووہ بھی مرحوم کے جنازے کوکندھادینے کے لئے سات سمندرلازمی پارکرتے مگرخوانین بٹگرام کے ساتھ اپنی پارٹی نے بھی غم کی اس گھڑی میں کچھ اچھانہیں کیا۔مولانافضل الرحمن کواپنے اس جانثارساتھی اورمجاہدکے جنازے میں شرکت کی توفیق تک نصیب نہ ہوسکی۔ہم نعیم الحق کے جنازے میں شرکت نہ کرنے پروزیراعظم عمران خان کی بے حسی اورسنگدلی کارونارورہے تھے لیکن لگتاہے کہ عمران خان کے علاوہ بھی میدان سیاست میں بے حسوں اورسنگدلوں کی کوئی کمی نہیں ۔سیاسی کارکن ایک قائداورپارٹی کے لئے اپنی زندگی تک داؤپرلگادیتاہے۔پارٹی کی رکنیت سازی اورالیکشن مہم کے لئے ننگے پاؤں دوڑدھوپ اوربینرزوسٹکرزلگانے کے لئے راتوں کواٹھنا،بیابان راستوں اورچٹیل میدانوں میں چلنا،بیگانوں کے ساتھ اپنوں کی دشمنیاں اورخفگیاں مول لینا۔نہ جانے اس جیسے اورکتنے عذاب ہیں جوایک سیاسی کارکن نہیں سہتا۔؟لیکن وہی کارکن جب ننگے پاؤں اورپھٹے پرانے کپڑوں میں ابدی نیندسوجاتاہے توپھرنہ کپتان کے پاس اس کے دیدارکرنے کے لئے ٹائم ہوتاہے اورنہ ہی مولاناکے پاس اس کے جنازے کوکندھادینے کے لئے وقت۔؟ہائے افسوس۔یہ غریبوں کی قسمت ہے یاہمارے ان سیاسیوں کی انسانیت۔؟ایک سیاسی کارکن اورجانثارساتھی کے آخری دیدارسے بڑھ کراورمصروفیت اورسیاست کیاہوسکتی ہے۔؟اس طرح کی بے حسی اورسنگدلی کاجب بھی گلہ اورشکوہ کیاجائے توجواب آتاہے کہ قائدمحترم اوربادشاہ سلامت کی مصروفیات کچھ زیادہ تھیں ویسے بھی جنازہ فرض کفایہ ہے کوئی فرض نہیں۔میں سیاست کے ان دیوتاؤں سے سوال کرتاہوں کہ کسی پارٹی اورجماعت کے لئے ایک غریب کااپناسب کچھ داؤپرلگاناکیایہ فرض ہے۔؟اگریہ فرض ہے توپھرتن ،من اوردھن پارٹی کے لئے قربان کرنے والے سیاسی کارکن کاآخری دیداربھی بادشاہ سلامت اورقائدمحترم پرفرض ہی نہیں ڈبل اورٹرپل فرض ہے۔کارکن قربانیاں دیں ،مارکھائیں،زندگیاں داؤپرلگائیں اورقائدین محترم ساری زندگی عیش وعشرت کرکے پھراس کاآخری دیداربھی نہ کریں یہ سیاست توہے مگرانسانیت نہیں۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 210 Articles with 133285 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.