ایف ٹین کے پارک میں چلتا ہوا نوجوان اپنے کتوں کے ٹولی
کے ساتھ بڑی شان سے انٹری مارتا ہےہربندہ اس کی طرف بڑی حیرانی اور عجیب
نظروں سے دیکھتا ہیں جبکہ وہ کتوں کے ساتھ بڑی شان اور اسٹائیل سے آتا ہوا
ہیرو کی طرح ان کے سامنے سے گزرتا ہوا جاتا ہے
۔ یہ ہیرو ملک اعوان صاحب ہے
جن کو رنگ برنگ نئے نئے قیمتی نسل کے کتوں کا شوق ہیں۔ ایک تو خوبصورت
نوجوان پھر ساتھ قیمتی کتے اور ساتھ نوکر بھاگتے ہوئیں ان کی شان آن بان کو
دیکھ کر لوگ متوجہ ہوتے ہیں ۔۔۔۔ ملک اعوان صاحب کو لوگ کتوں والے ملک صاحب
سے جانتے ہیں ؟
عجیب سی شہرت ہے لیکن امیروں کی یہ شہرت بھی سٹائل۔۔۔ ملک اعوان ایف ٹین کے
پارک سے گزرتے ہیں تو ہر بندہ یا بندی ان کو دیکھتے اپنے اپنے الفاظوں میں
تعریف کرتے
دوسری جانب یشماعلی اکثر اس پارک میں شام کو اپنی فیملی کے کسی ممبر یا
کزنوں کے ساتھ واک کرنے آتی ہے۔ یہ رومانیہ سے چھٹی گزارنے اکثر پاکستان
آتی ہے اور اردو کلچر رسم ورواج سیکھتی بھی ہیں تاکہ ان کو پاکستان کا پتا
چلے۔
ایک شام واک کرتے کرتےیشماعلی نے کہاکہ میرا موڈ آئس کریم کھانے کو ہے اور
کون کھائےگا؟۔۔۔۔ کسی کا بھی موڈ نہیں تھا مگریشما نے کون آئس کریم لی اور
ہاتھ میں پکڑے واک کرتے مدہم سی چل رہی ہوتی ہے ۔سامنے اچانک ایک کتا آکر
بھونکتا ہے وہ ڈر کے مارے بینچ پر چڑھ جاتی ہے کتا اس کے پیچے مسلسل
بھونکتا ہے ۔ اس کے ہاتھ سے آئس کریم گر جاتی ہے اور کتا کھانے لگ جاتا ہے
وہ حیران سی بنچ سے دیکھ رہی ہے ۔ اسے یکدم غصہ آجاتاہے اور کتے سے کہنا
شروع کرتی ہے کہ تمیں تمھارے مالک نے یہ سکھایا ہے؟ کہ کیسے لوگوں کے پیچھے
بھونک کر ان سے کھانے کی چیزیں اور خاص کر آئس کریم حاصل کرو۔ ہجوم میں
اضافہ ہوتا ہیں اتنےمیں ملک صاحب آجاتے ہیں۔ وہ بھیڑ سے ہوتا ہوا قریب
آجاتا ہے تو کتے کو آئس کریم کھاتے ہوئے اور یشماکو بینچ پر کتے کوجھاڑ
پلاتے ہوئے دیکھ کرحالات سےباخبر ہوجاتا ہے اور خودکو کمپوزکرلیتا ہے۔ یشما
غصےمیں کہتی ہے کدھر ہے اس کتے کامالک جس نے کتے کو تہذیب نہیں سکھایا؟ملک
اعوان جو کہ اونچاسننے کا عادی نہیں لیکن یشما علی کو مدہم آواز میں کہتا
ہے کہ مالک حاضر ہے
محترمہ
ملک اعوان جو کہ اونچاسننے کا عادی نہیں تھا لیکن یشما علی کو مدہم آواز
میں کہتا ہے کہ مالک حاضر ہے محترمہ
مجھے افسوس ہے کہ میرے کتے نے ایسا کیا
کبھی زندگی میں ایسا ہوا نہیں مجھے افسوس ہے
یشماعلی۔۔۔۔۔۔ پینچ میں کھڑی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی او تو آپ
ہے۔۔۔
کیا مطلب میں نے اس کو اپنے پیچھے لگایا ہے
ملک صاحب ۔۔۔۔۔نہیں نہیں میں خود حیران ہوں؟
یشما علی ۔۔۔۔۔۔بچارے کو کبھی آئسکریم کھلائی نہیں ہوگی
روز ایک جیسا کھانا کھا کھا کر تنگ آگیا ہوگا ۔
ویسے بھی بہت سے بابا اپنے بچوں کو پارک لاتے تو ہیں مگر بچوں کو آئسکریم
نہیں کھلاتے کنجوس ہوتے ہیں
اور بچارے بچے روکر یا ڈر کر چپ رہتے ہیں،
آپ نے اس کو کبھی کھلایا ہی نہیں ہوگا
ملک اعوان صاحب کے چہرے میں ہلکی مسکراہٹ سی آتی ہے
محترمہ ان کے کھانے الگ ہوتے ہیں ،
او او بس کردے پر میں آپنے ٹومی کو اور مانو کو سب کچھ کھلاتی ہوں
اور پینج سے اتر کر ۔۔۔۔عجیب انداز سے کنجوس کہہ کر چل دیتی
ملک اعوان صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ اور حیران کن ہنسی اسے دور تک دیکھتا
رہتا ہے
ملازم ۔۔۔صاحب
ملک صاحب او سن اللہ دیتا او کڑی دا پیچا کر کیڑے کار ہے جیدی مینو ساری
ریپورٹ چاہئے
ملازم ۔۔۔تسی فکر نہ کروسائیں
مالک صاحب او بات سن خاموشی راز سے
ملازم ۔۔۔ہاں سائیں ہاں
اللہ دیتا بھاگتے ہوئے
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
ملک صاحب رات میں ڈرارئینگ روم میں بیٹھے ؛سامنے ٹی وی چل رہا ہوتا ہے
ملازم ۔۔۔۔۔اللہ دیتا۔۔۔سائیں کام ہوگیا
او کڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باہر ملک سے آئی ہے
یہ ایڈریس ہے جہاں رکی ہے
آپ کا ا حکم چایئے ؟
ملک صاحب اسے غصے میں دیکھتے ہے اور
پرچی لے کر کہتا جا
پھر ایڈریس پر نظر ڈالتا ہے اور چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے ہمممممم تو آپ باہر
کی بلبل ہے یشما علی
ملک اعوان صاحب موبایل پر کچھ آڈر دیتے ہے
یہاں یشما علی کے انکل ملازمہ کو کہتے ہے بی بی کو مرے پاس فورا بھیجئے
ملازمہ فورا جاتی ہے ان کے کمرے میں دستک دیتی ہے
یشما علی۔۔۔۔۔۔۔ آجاوں
ملازمہ ۔۔۔۔۔۔بی بی صاحب بلوا رہے ہے
یشما علی ۔۔۔۔حیرانی سے دیکھتے ہوئے اس وقت
یشما علی اٹھتی ہے اور چل دیتی ہے
اسلام علیکم انکل َ۔۔
انکل ۔۔۔۔۔اس کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ وعلیکم اسلام
یہ ملک اعوان صاحب کون ہے ؟
یشما علی۔۔۔۔۔ حیرت سے دیکھتی ہے کون ملک اعوان؟
انکل یہ دیکھ رہی ہے میز پر کیاہے اور یہ کارڈ تمارے نام کا ہے
انہوں نے آسکریم کارڈ بھجوائے ہیں تمارے نام لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟
یشما علی دیکھتی ہے انکل میں نہیں جانتی یہ کون ہے ؟
او ۔۔۔او۔۔۔۔کل پارک کا قصہ بتاتی ہے
انکل کہتا ہے مرا خیال تمیں یہاں سے چلے جانا چاہے جو شخص ایڈریس ڈھونڈلے
اور چیزے بھجے بیٹا میں پریشان ہوں ۔۔
آپ کے بابا کو کیا جواب دونگا آپ کے پیپر ختم ہوگئے آپ پیکنگ کرئے سات بجے
کی فلائیٹ ہے میں نے آپ کے بابا کو کال کردی ہے انہوں کہا ہے پہلی فلائٹ سے
اس کو بیٹھا دو۔۔۔۔
یشما علی ۔۔۔ انکل کیا ہوگیا ہے ایک ویک رہتا ہے مرا
اس میں میرا کیا قصور ہے ؟حیرت سے دیکھتی ہے
تم پیکنگ کروں بیٹا جاوں وقت کم ہے۔۔
یشما علی ۔۔۔۔۔۔چپ کر کے سنتی ہے چلی جاتی ہے کوستی ملک صاحب کو
یشماعلی کی فلائیٹ رات کو ہوتی ہے وہ نکل جاتی ہے
ملک صاحب انتظار کرتے ہے پارک میں مگر وہاں کوئی نہیں آتا ۔۔۔۔
گھر جا کر ملازم کہتا ہے صاحب چیزے واپس آگئ ہیں اور پیغام ہے یہاں اس نام
کی کوئی لڑکی نہیں رہتی ۔۔۔۔
ملک صاحب کو غصہ آتا ہے۔۔۔۔
ملازم کو بلاتا ہے ڈانتا ہے وہ کہتا سائیں میں نے خود اس کو اس کے گھر
دیکھا ہے غلط بول رہے ہیں۔۔۔
دوسرے دن ملک صاحب کو پتا چل جاتا ہے کہ وہ چلی گی۔
ملک صاحب پوچھتے ہے کس کنٹری کی تھی کہاں سے آتی تھی ۔۔۔مجھے معلومات دے
ملازم۔۔۔۔ہان سائیں ہاں
یشما علی کے انکل پہلے سے ان کے گھر والوں کو فون کر کے بتا دیتے ہےبچی کے
پیپر ختم ہوگے تھے یہ قصہ ہوگیا میں نے آج کی فلائٹ پر بیٹھا دیا ہے وہاں
سے فون آتا ہے آپ ملازموں کو بتا دے کسی اور کنٹری کے نام کا؟؟؟؟
یشما علی کے انکل ان کو ایر پورٹ چھوڑ کر آتے ہےاور ملازموں کے سامنے کہتے
شکرہے فلپائین کی فلائٹ مس نہیں ہوئی مل گئ
دوسری طرف ملک صاحب کے ملازم معلومات کر کے بتا دیتے لڑکی فپلائین میں
ہے۔۔۔
ملک صاحب تیاری کرتے فلپائین چلے جاتے ہےاور وہاں بہت معلومات کرکے ناامید
ہوجاتے ہے ان کو بہت سی دشواریاں سامنے آتی ہیں آخر ان کو وہاں کی کنٹری کی
لڑکی سے شادی کر لیتے ہے وہی کے ہوجاتے ہے۔
وہی بزنس وہی شادی ان کے ہاں ایک بیٹا ہوجاتا ہے۔وہ وہی کے ہوگئے۔کئی سال
ہوگے مگر
آج بھی وہ جب بھی کبھی کسی پارک میں کبھی کبھی کتے کے ساتھ جاتے ہے ان کو
وہی منظر یاد آتا ہے شاہد اس کا آمنا سامنا ایک بار ہوجائے ۔انہوں نے زندگی
سے کمرومایز کر کے لایف تو گزار رہے ہے مگر ہر عورت میں اس کی جھلک اگر نظر
آتی ہے تو اپنا وہ قصہ اور وہ یاد آجاتی ہے انسان کو محبت کے لیے ایک جھلک
کافی ہوتی ہے آج بھی وہ کتے کے ساتھ پارک میں وہ لحمہ یاد کرتے اس عمر میں
بھی آس ہے شاہد وہ نظر آجائے ایکبار ہی سہی کسی بھی عمر میں ؟؟؟۔۔۔۔۔
محبت ایسی بھی ہوتی ہے ستمگر سے ماخوذ
|