سندھ کا مقدمہ درست حقائق

جنگ اخبار کے میر خلیل الرحمان کا ٹی وی پر ایک کلپ دیکھاتھا۔ جس میں وہ فرمارہے ہیں کہ اخبار ہمارا کاروبار ہے اس کے علاوہ ہمارا کچھ بھی واسطہ نہیں ۔ اسی لیے جنگ میں لکھنے والے کچھ صحافی بھی کاروباری اور کسی خاص نقطہ نظر سے لکھتے ہیں۔ تاریخ کو مسخ کرتے ہیں۔ اسی سلسلے میں مظہر برلاس نے ’’سندھ کا مقدمہ‘‘ کے سلسلے وار،۱۰، ۱۴،۱۷ اور ۲۳ دسمبر۲۰۲۱ مضمون لکھنا شروع کیا ہوا ہے جو ابھی جاری ہے۔ جس میں مقدمہ تو کم ہے مگر حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے۔پیپلز پارٹی ہمیشہ سندھ کارڈ کھیلتی رہی ہے۔یہ ثقافی کارڈ بھی اسی کاایک حصہ لگتا ہے۔پہلے مضمون میں مضمون نگار نے انکشاف کیا کہ آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت ۲۰۰۹ء میں دسمبر کے پہلے ہفتے کو سندھی ثقافت کے دن کے طور پر منانا شروع کیا جو اس وقت سے ہر سال دسمبر کے پہلے ہفتے منایا جاتا ہے۔ اس میں سندھ کے تاریخی مقامات کی لسٹ بھی درج کی۔سندھ کی تاریخ بھی بیان کی۔ لکھا کہ ساتوں صدی میں مسلمان سندھ پر قابض ہوئے۔۱۸۴۳ میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا۔ سندھ ثقافت کے نعرے بھی درج کیے:۔
’’جیئے سندھ، جیئے سندھ، وارا جیئیں
سندھی ٹوپی، اجرک، وارا جیئں‘‘

اس سلسلے میں ہمیں ایک رپورٹ جو ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ سے نکالی گئی تھی یاد آ گئی۔ یہ رپورٹ جماعت اسلامی کے رہنماہ اور قومی اسمبلی کے ممبراور اُس وقت کے وزیر اطلاہات محمود اعظم فاروقی نے جنرل ضیاء کے دور میں نے نکالی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد ذرائع ابلاغ پر کیمونسٹوں، سیکرلرسٹو اور مذہب بیزاروں نے قبضہ جمالیا تھا۔جو روشن خیالی کے نام پر اسلامی ثقافت کا بیڑا غرق کرنے پر لگائے گئے تھے۔ایک زیڈ اے بخاری ریڈیو کے کرتا دھرتا تھا۔ وہ ریڈیو آرٹسٹوں کو خطاب کر کے کہتے ہیں کہ جب تک پرانی تہذیب سے نفرت اور نئی تہذیب کی خوبیاں بیان نہ کی جائیں اس وقت تک تبدیلی نہیں آسکتی ۔ اس لیے مسلمانوں کا لباس، جس میں ٹوپی، شیروانی وغیرہ ہیں کو منافقانہ رول اور سوٹ بوٹ والے اداکار کو روشن خیال پیش کیا جائے۔ ان روشن خیالوں نے ملک میں اسلامی ثقافت کے خلاف طوفان اُٹھایا گیا۔جب ٹی وی آیا تو دیہاتوں کی لڑکیوں کو چست لباس میں ملبوس کر کے نچاتے ہوئے دکھایا گیاکہ وہ لسی کا گھڑا اور روٹی لے کر اپنی محبوب کی کھیتوں میں جارہی ہے۔کیا مسلمانوں کی یہ ثقافت ہے ۔کیا آج جو سندھ میں ثقافت کے نام پر ناچ گانے کا رواج عام کیا جارہا ہے جس کو آصف علی زرداری نے جنم دیا ہے یہ اسلامی ثقافت ہے یا ہندوؤں کی ثقافت ہے۔کیا پرچی چیئر مین بلاول بھٹو نہیں کہ چکا کہ وہ روشن خیال اور لبرل ہے؟ مضمون نگار دورے حصہ میں لکھتے ہیں کہ انگریزوں نے افغانستان میں ۱۸۴۱ء شکست کھائی تھی۔ اس کا بدلہ سندھ پر ۱۸۴۳ء پر قبضہ کر کے لیا۔رویلو کوملی نے انگریزوں کا مقابلہ کیا ۔ اس کو ۱۸۵۹ء میں نگر پارکر کے پہاڑوں میں پھانسی دی گئی۔۱۸۲۶ء میں میں اسماعیل شہید نے پیر لگارا اور پیر آف جھنڈا شریف کی مدد سے انگریزوں کو پشاور میں شکست دی۔صبغت ا ﷲ اوّل کے بعد اس کے بیٹے سید قائم دین شاہ نے آزادی کی تحریک کی قیادت کی۔ بعد میں صبغت اﷲ ثانی نے قیادت سنبھالی۔ موت یا آزادی کا نعرہ بلند کیا۔انگریزوں نے ان کو بھی ۱۹۴۳ء موت کی سزا سنائی۔ اتنا لکھنے کے بعد کیا مضمون نگار نے سوچا کہ ان اسلام کے شیدایوں نے کبھی قومیت یا حقوق کی نعرہ بلند کیا جیسے آج کے سندھ کے قوم پرست نام نہاد حقوق کے نام پر تقسیم کر کے اپنا الو سیدھا کرتے ہیں۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔اپنے آپ کو اسلام سے جوڑنے کے راجہ داہر کی اولاد کہتے ہیں۔ حصہ سوم میں جان محمدجنیجو جو انگلستان سے بار ایٹ لا کر کے آئے تھے اور ۱۹۱۷ء میں سندھ مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ ۱۹۰۲ء میں خلافت تحریک کی قیادت کی۔ افغانستان کی طرف ہجرت کرنے والے پچاس ہزار قافلے کی قیادت کی۔ عبیداﷲ سندھی نے روس افغانستان اور ترکی سے انگریزوں کے خلاف مدد کی درخواست کی ۔۱۹۰۶ء میں مسلمانوں کے وفد نے سر آغا خان کی قیادت میں وائے سرائے ہند سے ملاقات کی اور مسلمانوں کے لیے جدگاہ انتخابات کا مطالبہ کیا۔ جو ۱۹۰۹ء میں منٹوہارے اصلاحات ہوئیں تو یہ مطالبہ منظور ہوا۔ کیا پیر پگارا، پیر آف جھنڈا شریف ،عبیداﷲ سندھ اور جان محمد جنیجو قوم پرست تھے یا اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے تھے ۔حصہ چہارم میں لکھتے ہیں کہ ۱۹۱۶ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان معاہدہ ہوا۔ مگر بعد میں کانگریس مکر گئی۔۱۹۳۵ء کے ایکٹ کو ان کی آبادی سے زیادہ سیٹیں ملیں۔سندھ کے حوالے سے ہمیشہ کوٹہ سسٹم کی بات کی گئی۔پاکستان بننے کے بعد لیاقت علی خان نے کوٹہ سسٹم متعارف کرایا۔ مہاجرین کے لیے سترہ فی صد کوٹہ مقرر کیا گیا۔ جب کہ ان کی آبادی کا پاکستان میں صرف تین فی صد تھی ۔باقی ۸۳ فی صد کو تقسیم کیا گیا۔ ۴۲ فی صد بنگال کے لیے ۲۴ فی صد پنجاب کے لیے۔ خیرپوراسٹیٹ سندھ اور بلاچستان کو ملا کر ۱۸؍ فی صد تھا۔اسی کوٹہ سسٹم کے نظام چلتا رہا۔اس نظام سے سول سروس میں تعداد بڑھ گئی۔تین فی صد والی مہاجرین کی آبادی کو سترہ فی صد حصہ دیا گیا۔لیاقت علی خان کی ہمدردیاں مہاجرین کے ساتھ تھیں۔ لکھتے ہیں بعد میں سندھ میں ہندوؤں کے پڑھے لکھے لوگ کو نکال دیا گیا۔ مسلمان سندھیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔ خاس کر صحت اور تعلیم کے محکموں میں حوصلہ شکنی کی گئی۔(راقم) یہ شہید ملت اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم، تحریک پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم کے رفیق کار پر بہتان ہے۔ کیا نئی مملکت میں پہلے سے جمے ہوئے نظام کو نیا چیف مثبت تبدیلی کے لیے تبدیل یا رد بدل کرنے کا اختیار نہیں رکھتاتھا؟۔ ۱۹۵۶ء میں ون یونٹ قائم کر دیا گیا۔ ۱۹۷۱ ء میں سندھ کی حیثیت بحال ہوئی۔ مگر اس حقیقت سے سے انکار نہیں کہ ۱۹۷۱ء میں سندھ کی صوبائی سروس میں ستر فی صد سے زاہد مہاجرین تھے۔ایوب خان کے دور میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں کوٹہ تقسیم تھی۔ رچرڈ بیٹس اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ برطانوی راج میں سندھ کے پہلے گورنر چارلس بنے۔اس نے سندھی زبان انگریز سول سروس کے لیے ضروری قرار دی۔مگر لیاقت علی خان نے اس قانوں کو ختم کر دیا اور سندھ زبان میں چند ایسے کلمات ادا کیے جو اچھے نہیں تھے۔قیام پاکستان کے وقت ایوب کھوڑو سندھ کے وزیر اعلی تھے۔لیاقت علی خان اور ایوب کھوڑو کے درمیان اختلاف تھے۔لیاقت علی خان نے ایوب کھوڑو کو قیادت سے ہٹا دیا۔جبکہ دونوں مسلم لیگی تھی۔ کراچی پاکستان کا دارالخلافہ بنایا گیا۔۱۹۴۷ء میں حیدر آباد کو سندھ کا دارالخلافہ بنا دیا گیا۔ لیاقت علی خان کا خیال تھا کراچی پاکستان کا اور حیدر آباد سندھ کا دارالخلافہ ہو۔ کراچی گرومندر کے مقام پر ۱۹۴۷ء میں فسادات ہوئے۔ ایوب کھوڑو خود گرو مندر پہنچ گئے ۔ قائد اعظم نے اس کو پسند کیا۔ مگر لیاقت علی خان نے اسے پسند نہیں کیا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان کراچی میں اپنا حلقہ انتخاب بنانا چاہتے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ ان کے خاندان کے لوگ لیاقت آباد اورنظام آباد میں رہائش پذیر ہوں۔لیاقت علی خان نے سندھ یونیورسٹی کو کراچی یونیورسٹی بنایا۔تاریخ کے یہ تلخ حقائق رچرڈ بیٹسن، ڈاکٹر حمیدہ کھوڑوکھوڑ اور ڈاکٹر دُر محمد پٹھان کی کتابوں میں موجود ہیں۔(راقم)مضمون نگار کو کوئی پاکستان سے محبت کرنے والامورخ نہیں ملا۔ بلکہ شکر ہے کہ غدار پاکستان غلام مصطفےٰ شاہ(جی ایم سید) کی کتابوں کا حوالہ نہیں دیا۔ جس میں مہاجرین کو مکڑ کہا گیا ہے۔ اندرا گاندھی کو پاکستان پر حملہ کر کے سندھ کو آزاد کرانے کی درخواست کی گئی۔غدار پاکستان الطاف حسین نے جب سندھ میں نام نہاد حقوق کی بنیاد پر مسلمانوں میں خون ریزی شروع کی۔ تو جی ایم سید نے کہا تھا کہ جو کام میں چالیس سال نہیں کر سکا وہ الطاف حسین نے چالیس دنوں میں کر دکھایا۔ مضمون نگارلکھتے ہیں کہ سندھ کے بعض شہروں میں غیر سندھیوں نے ہنددؤں کے گھروں پر قبضہ کر لیا۔ہندؤ مجبوراً بھارت چلے گئے۔پاکستان کے ا بتدائی دنوں میں سندھ کے اندر مذہب کے نام کو کچھ ہوا وہ اسلام سے مطابقت نہیں رکھتا۔اس حوالے سے آج بھی حضرت عمرؓ کا خط بیت القدس میں چرچ کے اندرلٹک رہا ہے۔ (راقم)مضمون نگار کو مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر سکھوں اورہندؤوں کے مظالم کا شاید علم نہیں ہے۔لکھتے ہیں کہ افسوس کی بات ہے کہ جو لوگ ہندوستان سے پاکستان آئے انہوں نے صوبہ سندھ کو تاجروں، صنعت کاروں، پڑھے لکھے لوگوں اور حتیٰ کہ صفائی کرنے والوں سے بھی محروم کر دیا۔ پڑھے لکھے لوگوں کے جانے کے بعد سندھ میں ترقی میں خلا پیدا ہو گیا۔سترہ فی صد کوٹہ کو لیاقت علی خان تین فی صد مہاجرین کے یے مختص کر چکے تھے۔سندھ میں بیروکریسی کے خلا کو اپنے لوگ لگاکر پورا کر دیا۔ جب کم آبادی والے لوگ ایک صوبے کی بیروکریسی میں سترہ فی صد سے زاہد ہوں تو پھر مسائل تو پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مضمون کسی پلائنگ کے تحت لکھا گیا ہے یا لکھوایا گیا۔ اس سے تعصب جلکتا ہے۔

اُدھر زرداری مرکز اور سندھ میں اختلافا ت کا شوشہ چھوڑ کر کہتے ہیں کہ لاہور میں خیمے لگانے کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ ملک گھیر پیپلز پارٹی کو اندرون سندھ کی پارٹی بنانے والے مسٹر ٹین پرسنٹ اب خیمے لگا کر کوئی تیر مارنے نکلے ہیں اور گمان ہے کہ ان کو پنجاب سے ایک مضمون نگار مل گیا جس نے پرانے مردے اُکھاڑ کر پاکستان مخالف لوگوں کی کتابوں سے تفریق ڈالنے والا مواد اس موقعہ پر شائع کرکے زرداری کے ہاتھ مضبوط کرنا لکھتا ہے۔اب تک کی تحریر سے تو ہی لگتا ہے۔ سندھ کے علیحدگی پسندوں کو تقویت پہنچانے کے لیے ملک کے پہلے وزیر اعظم شہید ملت نوبزادہ لیاقت علی خان کے خلاف زہر اُگلا ہے۔ یہ پاکستان کے معمار ہیں۔ پاکستان کے معمار پر انگلی اُٹھانا پاکستان پر انگلی اُٹھانے کے مترادف ہے۔راقم نے سندھ میں نصف صدی سے زیادہ وقت گزارہ ہے۔ سندھ پیار محبت اور صوفیوں کی دھرتی ہے۔ سندھ باب السلام ہے۔سندھ نے سب سے پہلے پاکستان کی حمایت کی تھی۔ سندھ میں لوگ پیار محبت سے رہ رہے ہیں۔سندھی پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ ہیں سندھ میں رہنے والوں کا سندھ ہے۔ سندھ کو نقصان پہنچانے والے پہلے بھی خود فنا ہو گئے اور آیندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ان شاء اﷲ
 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1130 Articles with 1094559 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More