ہمیں مزید تبدیلی نہیں چاہیے

یہ ٢٠١٧ کی بات ہے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف نے لوگوں کو بڑی بے دردی سے ہمدردانہ خواب دکھانا شروع کیے، جس کا سیاسی شکار شروع سے ہی پڑھا لکھا طبقہ اور نوجوان ہوئے۔تحریک انصاف تو روز اول سے ایک غیرمقبول اور غیر معروف پارٹی رہی ہے مگر عمران خان کی شخصیت نے لوگوں کو پارٹی کی طرف مائل کیا۔ پاکستانی سیاست پر بات کرتے ہوئے سب سے بڑی بات جو ہمیں قطعی طور نہیں بھولنی چاہیے کہ پاکستانی سیاست میں امپائرز کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ ہمارے خوش نصیبی ہے کہ خان صاحب اپنی زبان سے امپائر کا ذکر کرتے ہوئے نظر آتے تھے ورنہ یہاں امپائر لکھنے پر ہم مجرم قرار پاتے۔

تحریک انصاف، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں جیسی ایک جماعت ہے اس میں کچھ بھی مختلف نہیں تمام جماعتوں کی طرح وعدہ خلافی ان میں بھی پائی جاتی ہے اور بالخصوص اس جماعت میں لوٹوں کو نوازا جاتا ہے ان لوٹوں کی وجہ خیبرپختونخواہ کے بلدیاتی الیکشن میں یہ رسوا ہوگئے۔ تحریک انصاف کی سیاست بھی عجیب و غریب ہے یہ جب کہتے ہیں کہ فلاں کام نہیں کرنا ہے تو اگلے دن وہ کام ضرور سرانجام دیں گے۔

عمران خان صاحب جو کہ حکومت سے پہلے بھی مقبول تھے اور اب بھی کافی حد تک مقبول ہیں انہوں نے جو کنٹینر پر اور کنٹینر سے پہلے جو بھی کہا تھا اپنی باتوں سے ایک ایک ہوکر مکرتے گئے۔بین الاقوامی طور پر آفیہ صدیقی کی رہائی کا وعدہ انہوں کیا تھا سب گواہ ہیں حکومت میں آنے کے بعد آنجناب نے کبھی اپنی منہ سے آفیہ کا نام تک نہ لیا۔ملکی سطح پر جس شیخ رشید سے وہ نفرت کرتے تھے اسے انہوں نے اعلی فرائض کی ذمہ داری دے رکھی ہے۔ایم کیو ایم کی مخالفت تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن ان صاحب نے تو اپنے سر آنکھوں پر بٹھا لیا،اس کے علاوہ فواد چودھری،فردوس آپی اور بابر اعوان وغیرہم ان کے سخت مخالفین تھے مگر اب ان کے محبین میں نظر آتے ہیں۔ سب سے قابل غور بات یہ بھی ہے کہ خان صاحب مک مکہ بھی کرلیتے ہیں نواز شریف کے ۵٠ روپے کے اسٹامپ پیپر کے ذریعے آسانی سے بیرون ملک جانا یہ کوئی معصومانہ بات تو نہیں۔پیپلزپارٹی کے ساتھ بعض معمولات میں نرمی کا تبادلہ بھی ایک خوش گوار حیرت کی بات ہے کیوں کہ اگر ہم کنٹینر کی رو سے دیکھیں تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیے یہ صاحب رائی کے دانے برابر گنجائش نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے جن نوکریوں کا وعدہ کیا تھا چار سالوں میں ان کا وعدہ مکمل ہوتا ہوا نظر نہیں آیا۔

تحریک انصاف اپنے پانچ سال پورا کرنے کو آئی ہے۔مہنگائی نے غریبوں کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ کبھی ملک میں آٹے کی مصنوعی کمی ہے تو کبھی چینی کی،کم و بیش ہر پندرہویں و پہلی کو پیٹرول کے دام بڑھا دیے جاتے ہیں اور مفروضہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی بازار میں دام بڑھ گئے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ ان کے منہ سے ایسا کبھی نہ نکلا کہ بین الاقوامی بازار میں تیل کی قیمتیں گر گئی ہیں۔ روز بہ روز ٹیکس پر ٹیکس لگتے جارہے ہیں۔ اسیمبلیوں میں منی بجٹ کے تماشے سال میں دو دو بار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ملک قرضوں میں ڈوب رہا ہے اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کے انگلیوں پر حکومت ناچنے پر مجبور ہیں۔ریاست مدینہ کے اندر پتا نہیں کیا کیا ہو رہا ہے۔ کبھی مندر بنتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی مسجدیں گرتی ہوئی معلوم پڑتی ہیں۔کبھی خواتین کے حقوق کے نام پر ریاست کے نظریے کے خلاف بل آتے ہیں تو کبھی ٹرانس جینڈر بل کے نام پر گل کھلائے جاتے ہیں۔

ہم اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے انہیں ان کے الفاظ یاد دلاتے ہیں کہ ' جب ملک میں مہنگائی بڑھ جائے تو سمجھ جاوٴ کہ حکومت کرپٹ ہے اور اپنی جیبیں بھر رہی ہے۔' اب جب بھی جہاں بھی عوام سے تبدیلی حکومت کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے تو عوام کی طرف سے ایک ہی جواب موصول ہوتا ہے کہ ہمیں مزید تبدیل نہیں چاہیے۔

 

Lal Dino Shanbani
About the Author: Lal Dino Shanbani Read More Articles by Lal Dino Shanbani: 12 Articles with 8671 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.