2021 کا سال کرونا وبا سے بچاؤ کے لئے ویکسین اور حفاظتی
انتظامات کے حوالے سے عالمی اہمیت کا حامل رہا، بالخصوص ویکسین کی فراہمی
میں عدم مساوات اور غیر منصفانہ تقسیم عالمی طبقاتی کشمکش کا سبب بنا۔
لاکھوں انسانوں کی اموات، صحت و ماحول پر اقوام عالم کی ترجیحات نے ایسی
خامیوں کی نشان دہی کی، جس کے بارے میں تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا، ترقی
یافتہ ممالک وسائل کی فروانی و جدیدیت کی وجہ سے غریب اور ترقی پذیر ممالک
پر ہر شعبے میں آگے رہے، لیکن جب کرونا نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو
جدید ساز و سامان و وسائل سے مالا مال دولت مند ممالک انتہائی لاچار و بے
بس نظر آئے، ان ممالک میں معیشت اور انسانی سرگرمیوں کی بحالی کا سلسلہ
ہنوز چیلنج ہے۔ 2021 دسمبر کے اختتام تک کرونا کیسوں کی تعداد 289,713,814
ہوچکی تھی۔ جب کہ کرونا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد
5,457,330 رہی جب کہ 254,161,309 مریض صحت یاب ہوئے۔
امریکہ
سال2021میں سیاسی تناظر میں سب سے زیادہ ہلچل امریکی انتخابات سے ہوئی۔
ٹرمپ کی شکست کے بعد صدر جوبائیڈن کو جمہوری طور پر کمزورامریکہ ملا،
امریکی جمہوریت کو کیپٹل ہل حملے سمیت جمہوری اقدار کو ناقابل تلافی نقصان
پہنچا۔ ٹرمپ حامیوں کی ہنگامہ آرائی اور عدم برداشت کے رویوں کے ساتھ آخری
دَم تک ٹرمپ کا شکست تسلیم نہ کئے جانا دنیا بھر میں جمہوریت پسند ممالک کے
لئے باعث شرمندگی بنا۔ امریکا، کرونا وبا کی وجہ سے پوری دنیا میں سب سے
زیادہ متاثرہ مملکت ہے جہاں تین لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہونے کے باوجود
انتخابی عمل ہوا۔ خیال رہے کہ2020دسمبر کے اختتام تک ہلاک ہونے والوں کی
تعداد اب 847,162 ہوچکی ہے۔ جوبائیڈن سے توقعات وابستہ کی جا رہی تھی کہ
صدر ٹرمپ کی بیشترپالیسیوں کو تبدیل کردیں گے۔ جو بائیڈن نے عالمی
ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کرلی، افغانستان سے مکمل فوجی
انخلا کرلیا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر عمل درآمد کے لئے مذاکرات کا
عندیہ دیا،تاہم چین، روس اور شمالی کوریاکے ساتھ تعلقات ہنوز کشیدہ ہیں،
امریکا نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینیشیٹیو (بی آر آئی) کا مقابلہ کرنے
کیلئے جی سیون ممالک کے ساتھ مل کر ایک نیا انفرا اسٹرکچر منصوبہ B3W (بلڈ
بیک بیٹر ورلڈ) شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اکوس معاہدے سے ایشیا پیسفیک میں
نیا سیکورٹی اتحاد بنایا۔ آسڑیلیا کو ایٹمی آب دوزیں بنانے اور دینے پر سخت
اختلافات ہوئے، فرانس نے احتجاجاََ اپنے سفیر امریکہ اور آسڑیلیا سے واپس
بلالئے ۔ عراق میں جنگ کے خاتمے کا اعلان امریکی صدر جوبائیڈن نے27جولائی
کو کیا،لیکن فوجی تربیت اور داعش کے خطرے کے نام پر فوجی انخلا نہیں کیا
جاسکا،بھارت نے امریکی انتباہ کے باوجود روس سے ایس400 میزائل دفاعی نظام
کرلیا لیکن ترکی کی طرح بھارت پر کسی قسم کی پابندی عائد نہیں کی، پاکستان
کے ساتھ تعلقات جو بائیڈن کے دور میں بدترین سرد مہری کا شکار ہوئے۔
افغانستان سے انخلا کے اہم مرحلے اور خطے میں اہم معاملات پر جوبائیڈن نے
پاکستانی وزیراعظم سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا تاہم اعلیٰ سفارتی اور
فوجی حکام رابطے میں رہے، اس برس امریکہ نے پاکستان کے لئے باضابطہ سفیر
بھی نامزد کیا۔ پاکستان، امریکی سرد مہری کے باوجود بہتر خارجہ و تجارتی
تعلقات کا خواہاں رہا۔امریکی ایوان نمائندگان نے امریکہ کے قومی سلامتی
ایکٹ 2022 کے متن سے افغان طالبان کے قبضے پر پاکستان کے کردار سے متعلق
تمام منفی حوالہ جات خارج کردیے، مذکوہ حوالوں میں ملک کو سقوطِ کابل کا
موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ امریکی کانگریس کی ڈیمو کرٹیک رکن الہان عمر
نے اہم بل پیش کیا جو ایوان نمائندگان میں منظور ہوا اور وائٹ ہاؤس نے بھی
اس بل کی حمایت کردی۔ الہان عمر کے اس بل کا نام 'بین الاقوامی اسلاموفوبیا
کا مقابلہ' ہے جس کا مقصد ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے تحت ایک خصوصی
نمائندے کا تعین کیا جائے جو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے واقعات کو رپورٹ
کر کے امریکی محکمہ خارجہ کے علم میں لائے۔ واضح رہے کہ ایک نمائندہ پہلے
ہی امریکی محکمہ خارجہ میں موجود ہے جس کا کام عالمی سطح پر یہود مخالف
واقعات کو رپورٹ کرنا ہے۔
افغانستان
امریکہ۔ افغانستان کی دو دہائی پر میحط جنگ 2021 میں 31 اگست کو باقاعدہ
ختم ہوئی اور افغان طالبان نے آخری غیر ملکی فوجی میجر جنرل کرس ڈوناہوکے
جانے کے بعد پورے ملک کا کنٹرول حاصل کرکے عبوری انتظامیہ کا اعلان کردیا۔
افغانستان میں سیاسی بحالی کے لئے افغان طالبان، غنی انتظامیہ و امریکا کی
جانب سے پاکستان کا کردار کلیدی رہا۔تاہم دوحہ معاہدے کے برخلاف افغان
مالیاتی اثاثوں کو منجمد کردیاگیا، افغان طالبان حکومت کو عالمی برداری نے
رسمی طورپر تسلیم نہیں کیا، جس کی وجہ سے افغانستان میں اس وقت انسانی
بحران جنم لے چکا اور ڈھائی کروڑ افراد کو قحط اور اقوام متحدہ کے مطابق
ایک ملین بچوں کو بھوک سے ہلاکت کا سامنا ہے۔ یورپ، امریکہ اور عرب ممالک
نے غیر سرکاری طور پر امدادی تنظیموں کے ذریعے امدادی پروگراموں کا اعلان
توکیا لیکن افغان عوام کو اعلان کی نہیں عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، اگر
سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں کیا گیا تو بدترین انسانی المیہ معافی کا موقع
بھی نہیں دے سکے گا۔ پاکستان نے سہولت کاری کا مثبت کردار ادا کیا، چین،
ایران اور روس نے افغانستان کو درپیش مسائل یقین دہانیاں کرائیں ہیں، لیکن
تاحال کسی بھی ملک نے افغان انتظامیہ کو تسلیم کرنے کا عندیہ نہیں دیا۔
ایران
عظیم مشرق وسطیٰ میں ایران ایک ایسی مملکت کے طور مختلف ممالک میں جاری
جنگوں و خانہ جنگیوں میں الجھی رہی۔سیاسی طور پر قدامت پسند پالیسیوں کے
خلاف اٹھنے والی کئی عوامی تحاریک ایرانی ریاست کے خلاف کامیابی حاصل نہیں
کرسکی۔ امریکا کی متواتر پابندیوں اور ایرانی مفادات سمیت جوہری معاہدے
تنازع نے ایران کو مسلسل حالت جنگ میں رکھا ہوا ہے ایران نے جوہری تنصیبات
کے معائنے کے لئے مشروط اجازت دے دی۔ امریکہ نے ایران کے ساتھ اوباما
معاہدے کو بحال کرنے کے لئے شرائط رکھی جس سبب دونوں ممالک کے درمیان مثبت
پیش رفت ممکن نہیں ہوپائی ہے۔ ایران میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات
میں جج ابراہیم رئیسی نے بھاری اکثریت سے فتح حاصلکی۔ خیال رہے کہ ابراہیم
رئیسی پر امریکہ نے متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان پر ماضی میں
سیاسی قیدیوں کی پھانسی دینے جیسے الزامات بھی عائد کیے جاتے ہیں۔ یورپ اور
امریکہ کو بدستور تشویش ہے اور اسرائیل نے تو ایران پر حملے کے لئے اپنی
فوج کو تیار رہنے کا حکم بھی دیا، تاہم اسرائیل اور ایران کے درمیا ن براہ
راست جنگ کے امکانات ممکن نہیں۔
اسرائیل
2021کا سال اسرائیل کے لئے سیاسی طور پر سیاسی بحران کا شکار رہا۔اسرائیل
کی پارلیمان نے نئی اتحادی حکومت کے قیام کی منظوری دی اور اس طرح بنیامن
نتن یاہو کے 12 سالہ اقتدار کا اب خاتمہ ہو ا۔دائیں بازو کے قوم پرست
نفتالی بینیٹ نئے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا اور حکومت کی تبدیلی کی
قیادت کی۔ اسرائیل نے متحدہ عرب امارات میں باقاعدہ سفارت خانے قائم کئے
اور اسرائیلی وزیراعظم نے دورہ بھی کیا۔ سعودی عرب نے اسرائیل کو کہا کہ
اگر وہ 1967والی سرحدوں پر واپس چلا جائے تو سعودی سمیت 57 مسلم ممالک اُسے
تسلیم کرسکتے ہیں، تاہم دو ریاستی حل پر اقوام متحدہ عمل درآمد نہیں کرایا
جاسکاور غیر قانونی آبادیاں بنانے کے منصوبے کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
بھارت
مودی سرکار کا 2021 میں بھی ہندو توا کے نظریئے کے تحت انتہا پسند اقدامات
نافذ کرتی رہی، مقبوضہ کشمیر، جموں اور لداخ کی تاریخی حیثیت کو مسخ کرنے
کی کوشش کے بعد پاکستان، چین اور نیپال، بنگلہ دیش سمیت ایران کے ساتھ
بھارت کے سفارتی تعلقات مزید خراب ہوئے، بھارت کرونا وائرس کی وجہ سے رواں
برس بھی 34,889,132 کیسوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔ دسمبر کے اختتام تک
481,770 مجموعی طور پر ہلاک ہوئے۔ مودی سرکار کی جانب سے سیاسی ناپختگی کا
مظاہرے جاری رہے جس کے باعث خطہ میں بھی جنگ کا ماحول برقرار رہا۔ چین کے
ساتھ ساتھ پاکستان مخالف پروپیگنڈا نیٹ ورک، بھارتی عزائم کو بے نقاب کرتا
نظر آیا۔ کرونا کی وبا میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاستی جبر و انتہا پسندی
سے بھارت کی حکومت کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہوا۔امریکی کمیشن برائے
بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھارت کو سی پی سی فہرست میں ڈالنے کی تجویز
دی تھی لیکن بائیڈن انتظامیہ نے مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے
باوجود،بھارت کو سی پی سی کی مذہبی آزادی کے لیے ’خاص تشویش والے ملک‘ کی
فہرست سے باہر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ روسی صدر نے بھارت کا اور مودی نے
امریکہ کا دورہ کیا، چین کے خلاف تائیوان کے مسئلے پر بھارت کو عالمی قوتوں
کی پشت پنائی تیسری عالمی جنگ کے خطرے کو بڑھانے کا موجب بن رہی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سیاسی تعلقات میں شدت پیدا ہوئی اورکرپشن سمیت
مختلف اسکینڈلز کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف معتصبانہ رویہ سمیت کئی
متنازع عدالتوں فیصلوں نے بھارت کے سیکولر چہرے کو بے نقاب کیا، گذشتہ برس
سے جاری کسانوں و مزدرو طبقہ کی جانب سے متنازع بل کے خلاف، کئی مہینوں سے
جاری احتجاج کے بعد مودی سرکار نے گھٹنے ٹیک دیئے۔ بھارت میں شہریت کے
متنازع ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف گذشتہ برس کی شروعات سے امسال بھی
سیاسی انتشار عروج پر رہا، 2020 سال کی آمد کے بعد 10 جنوری کو اس قانون کا
ملک میں نفاذ کیا گیا تھا۔شہریت کا ترمیمی قانون غیر قانونی طور پر بھارت
آنے والی چھ مذہبی اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، سکھ، پارسی اور مسیحی)
کو شہریت دینے کی بات کرتا ہے۔ناقدین کا مانناہے کہ اس میں مسلمانوں کا نہ
شامل کیا جانا جانبداری کا مظہر ہے اور یہ کہ تین ممالک کو ہی شامل کیا
جانا منطقی نہیں۔نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز، این پی آر،نیشنل پاپولیشن رجسٹر یا
این پی آر جیسی پالیسیوں نے بھارت میں مذہبی منافرت و سیاسی جانب دارانہ
پالیسیوں کو فروغ دیا۔
برطانیہ
2021 یکم جنوری کو یورپی یونین سے باضابطہ علیحدگی کا مرحلہ مکمل ہونے کے
بعد برطانیہ کے لیے ایک نئے عہد کا آغاز ہو ا۔عالمی وقت کے مطابق رات 11
بجے برطانیہ نے یورپی یونین کے قوانین کی پاسداری کرنی بند کر دی اور ان کی
جگہ سفر، تجارت، امیگریشن اور سیکیورٹی تعاون کے نئے ضوابط نافذ العمل
ہوگئے۔ خیال رہے کہ برطانیہ کی عوام نے 2016 میں بریگزٹ ریفرینڈم میں یورپی
یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تھا اور 31 جنوری 2020 کو برطانیہ 27
رکنی سیاسی و اقتصادی بلاک سے علیحدہ ہوگیا تھا۔ یورپی یونین نے بریگزٹ ڈیل
کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے برطانیہ کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
برسلز کے مطابق شمالی آئرلینڈ سے متعلق تجارتی انتظامات میں لندن کی طرف سے
یک طرفہ تبدیلی بریگزٹ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ برطانیہ کرونا وبا کا
بدترین شکار رہا۔ دسمبر کےاختتام تک 13,100,458 کیس رپورٹ ہوچکے ہیں، جب کہ
وائرس کی زد میں 148,778 افراد ہلاک ہوئے۔ عالمی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے
کے لئے26کوپ اہم کانفرنس کا انعقاد گلاسیکو میں ہوا۔ برطانیہ نے کہا کہ وہ
چاہتا ہے کہ کوپ 26 کا عالمی درجہ حرارت کو 1.5 سیلسیئس تک محدود رکھنے کا
مقصد پورا ہو،گلاسگو میں دو ہفتوں میں ممالک اور لیڈران نے کئی اہم وعدے
کیے، مثال کے طور پر 2030 تک گرین ہاؤس گیس میتھین کے اخراج میں 2030 تک 30
فیصد کمی لانے کا عہد۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی کارکنان کے مظاہرے بھی
جاری رہے جن میں ہزاروں لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں نے شرکت کی، جو حکومتوں
کے موسمیاتی بحران پر ہنگامی اقدامات لینے پر سستی سے نا خوش ہیں۔
ترکی
ترکی کے صدر طیب اردوگان کے عالمی منظر نامے میں بڑھتے کردار کی وجہ سے،
امریکا اور یورپ کے ساتھ تعلقات بدستور کشیدہ ر ہے، ترکی نے 2017 میں روس
سے ایس 400 میزائل سسٹم خریدا تھا جس کے نتیجے میں پابندیاں بدستور عائد
ہیں۔امریکہ روسی میزائل سسٹم نیٹو کے دفاعی نظام کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا
ہے۔ترکی پر شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حالیہ
برسوں میں تیزی سے اپنے اسلحہ کی صنعت کو ترقی دینے کی کوششیں ترکی کی
حکومت کے سیاسی ہتھیاروں میں ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے۔ قطر اور ترکی نے
اپنے مرکزی بنکوں کے درمیان کرنسی کے تبادلے کے معاہدے میں توسیع کی گئی۔
یورپی یونین کی پارلیمان ترکی کو انتباہ کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اپنی
پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتا تو یونین میں شمولیت سے متعلق مذاکرات معطل
کر دینے چاہیں۔ا ستنبول کی جیل میں قید عثمان کوالا کے معاملے پر دس مغربی
ممالک کے ساتھ ترکی کے سفارتی تعلقات ایک نئے بحران کا شکار ہوئے۔ ترکی نے
آرمینا اور آذر بائیجان کے درمیان کاراباخ کے تنازع پر آذربائیجان کی حمایت
کی، لیکن اس سے روس کے ساتھ تعلقات پر فرق نہیں پڑا، اور دفاعی معاہدے کرکے
روس کے ساتھ ایک ایسا بلاک بنا لیا،جس سے عالمی سیاسی منظر نامے پر طاقت کے
توازن کے نمایاں فرق دیکھا جاسکتا ہے۔افغانستان امن عملے لئے استنبول
کانفرنس کا اہتمام کیا تاہم اس کے بغیر ہی امریکہ نے افغانستان چھوڑ دیا
تاہم ائیر پورٹ سیکورٹی کے لئے بات چیت ہوئی لیکن افغان طالبان نے فوجی
دستوں کی موجودگی پر اعتراض کیا اور ترکی افغانستان میں نیٹو اتحادی ہونے
کے باعث نکل گیا۔
پاکستان
پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بدستور رکھا گیا۔ سیکورٹی خدشات لاحق رہے ،
بلخصوص بھارت اور افغانستان کی جانب سے دراندازیوں ہوئیں۔ تاہم تمام تر نا
مساعد حالات کے باوجود پاکستان کے لئے2021 میں کئی چیلنجز کو کامیابی حل
کیا گیا۔ سیکورٹی فورسز کا کردار انتہائی مثبت و حوصلہ مند رہا ہے کہ بیرون
ملک و اندرونِ داخلہ دہشت گردوں و انتہا پسندوں کے سہولت کاروں کی ہر مذموم
منصوبہ بندی کے خلاف سینہ سپر رہے ہیں، سیکورٹی فورسز پر رواں برس بھی
مسلسل دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں، جانی و مالی نقصانات کے باوجود
ریاست کی قربانیاں ملکی سلامتی و بقا کا ضامن بنی، پڑوسی ممالک کے ساتھ
بہتر تعلقات استوار کرنے کی کوششیں رواں برس بھی جاری رہیں، حکومت اور حزب
اختلافات کے درمیان سیاسی محاذ آرائی صرف بیانات و جلسوں کی حد تک محدود
رہیں۔ پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے لئے اپنی سفارتی و سیاسی کردار
کی وجہ سے اہمیت حاصل ہوئی اور عالمی طاقتوں نے پاکستانی کوششوں کو سراہا،
جب کہ ریاست کی جانب سے جنوبی ایشیا ئی پالیسی میں تبدیلی اور انتہا پسندی
کے خلاف نمایاں اقدامات قابل تعریف قرار دیئے جاچکے ہیں۔ سعودی عرب، چین،
امریکا اور ایران کے ساتھ تعلقات کے اثرات پر خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ
اندرون خانہ داخلی مسائل بڑے چیلنجز رہے۔ عالمی سیاسی منظر نامے میں
پاکستان کو اپنی جغرافیائی حدود و اہمیت کو اجاگر کرنیکے لئے عالمی قوتوں
کے دباؤ کا سامنا رہا۔ پاکستان نے افغانستان کے مسئلے کے لئے ایک مرتبہ پھر
اہم کردار ادا کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس،
اسلام آباد میں منعقد کیا۔ روس، ترکی، ایران، چین سمیت وسط ایشیائی ممالک
کے ساتھ موثر تعلقات کو آگے بڑھایا۔ دہشت گردی کے بڑے واقعات کو روکنے میں
کامیابی ملی بالخصوص افغان طالبان کی حکومت آنے کے بعد غیر ملکیوں کے انخلا
کے لئے جس سیاسی تدبر کا مظاہرہ ریاست نے کیا، اسے عالمی برداری کی جانب سے
سراہا گیا۔
جرمنی
جرمنی میں سیاست کا نیا دور شروع ہوا اور سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما
اولاف شوُلس کو نئے چانسلر کے طور پر منتخب کیا۔ انتخابات سے اینگلا مرکل
کے بطور چانسلر آخری دور کا اختتام ہو گیا۔ اینگلا مرکل 16 برس بعد اقتدار
سے ہٹنے پر جرمن سیاست میں نئے دور کا آغاز ہوا۔ یورپ کی سب سے مضبوط معیشت
جرمنی میں بائیں بازو کی قیادت نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ جرمنی تارکین
وطن کے لئے ایک مثالی ملک کے طور پر جانا جاتا ہے تو دوسری جانب مسلم
تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے خلاف اسلام فوبیا بھی جرمنی کا مسئلہ بنا
رہتا ہے۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی مہاجر ایجنسی این ایچ سی آر نے دنیا
بھر کے مہاجرین کے تحفظ میں بہتری لانے کے لئے کلیدی اقدامات کی تجویز پیش
کی تھی۔ یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ یورپی سیاست کے ایک اہم ملک کی
حیثیت سے جرمنی کو اپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔یو این ایچ سی آر جرمنی
سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ جنیوا کنونشن سے اپنی وابستگی کو
تیز کرے اور پوری دنیا میں مہاجرین کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
چین
دنیا کے معاشی منظر نامے میں ابھرنے والی قوت کو ہی سپر پاور سمجھا جاتا
ہے۔چین اس وقت اپنے زمینی معاشی منصوبوں کی وجہ سے دنیا بھر میں ون بیلٹ ون
روڈ کے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا ہے۔ چین ایک نئے عالمی بلاک کی تشکیل کا
موجب بنا جو امریکی مفادات کے شکار ہونے والے ممالک کی شکل میں وجود میں
آچکا ہے۔ امریکا وچین کے درمیان معاشی تنازع و اختلافات نے شدت اختیار کی،
چین اپنی افواج کے تکینکی شعبے، برآمدات، قومی سلامتی اور اقتصادی پالیسیوں
پر چین نے ہر نوع اقسام کے دباؤ کا مقابلہ ایک عالمی قوت کے طور پر کیا،
چین کی معاشی قوت کو کمزور کرنے کے لئے امریکا اور ان کے حلیف ممالک کی
جانب سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لئے ہانگ کانگ و تائیوان، کوریا کو
ہدف بنایا گیا، جس پر چین نے اپنے سخت ردعمل کا مظاہرہ کیا، چین نے ہانگ
کانگ و تائیوان کے لئے اصلاحات کیں جسے امریکا نے مستردکیا نیز، کرونا وبا
کے پھیلنے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے دباؤ بڑھا تو دوسری جانب بھارت اورچین
کے درمیان سرحدی کشیدگی جاری رہی۔ پاکستان کے ساتھ سی پیک منصوبے کے علاوہ
سفارتی تعلقات، اعتماد کی بلند ترین سطح پر استوار ہیں۔چین کے ساتھ پاکستان
کے تعلقات مزید دیرینہ ہوتے گئے۔دونوں ممالک نے70برس دوستی کا زبردست جشن
بھی بنایا۔ چین نے افغانستان میں نئی اسٹریجی پلان کے تحت افغان طالبان
حکومت سے مثبت تعلقات استوار کئے ہیں جو آنے والے مہینوں میں خطے میں نئی
تبدیلیوں کا باعث بنے گا۔
عراق
مسلسل کئی برسوں سے جنگ زدہ ممالک عراق، شام و یمن میں امن کی بحالی ممکن
نہیں ہوسکی ہے، اور خانہ جنگی کے شکار ملک کسی سیاسی حل کے لئے موثر حکمت
عملی کو اپنانے سے قاصر نظر آتا ہے، عراق سے امریکی افواج کی واپسی کا
اعلان امریکی کی جانب سے کیا گیا تھا، تاہم اس پر عمل درآمد تاحال ممکن
نہیں بنایا جاسکا، عراق نے امریکہ کو31 دسمبر کی ڈیڈ لائن دی تھی لیکن
باقاعدہ ابھی تک امریکہ کا حتمی اعلان سامنے نہیں آیا۔،عراق میں سیاسی
ڈھانچہ، غیر ملکی جنگجوؤں و افواج کی مداخلت کی وجہ سے کمزور ہے، سیاسی عدم
استحکام کی وجہ سے عراق میں مجوزہ انتخابات کی تاریخ ایک برس آگے بڑھا کر6
جون 2021 کیگئی تھی تاہم انتخابات میں شفافیت اور دھاندلی کے الزامات نے
سیاسی عدم استحکام کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ 10 اکتوبر کو ہونے والے
پارلیمانی انتخابات میں نشستوں سے محرومی کے بعد سرکاری اور فورسز اور
سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم ہوئے۔ایران انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے
والی جماعتوں کا حامی ہے اور ملک میں ایرانی طرز حکومت قائم کرنا چاہتا ہے
جسے قوم پرست مقتدیٰ الصدر اور بہت سے عام عراقی ایران نواز نظام کو مسترد
کرتے ہیں۔2003 میں امریکی حملے کے نتیجے میں ختم ہونے والی سابق صدر صدام
حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے عراق میں حکومتی سطح پر ایران نواز کی
اکثریت رہی ہے۔ عراق میں سب سے بڑے مذہبی اور نسلی گروپ پارلیمنٹ میں اہم
اتحادوں کی قیادت کر رہے ہیں۔
شام
شام میں بشار الاسد صدارتی انتخابات میں ایک بار پھر کامیاب ہوئے، جسے حزب
اختلاف نے تسلیم کرنے سے انکار کیا اور انتخابی عمل کو غیر شفاف اور متنازع
قرار دیا۔ امریکا اور بڑی یورپی طاقتوں نے بھی صدارتی انتخابات کو منظم
انداز میں دھاندلی زدہ قرار دیا۔فرانس، جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور امریکا کے
وزرائے خارجہ نے بھی کہا کہ شامی رجیم کی نگرانی میں ہونے والے صدارتی
انتخابات آزاد یا منصفانہ نہیں ہوئے کیونکہ اسد رجیم نے الیکشن میں دھاندلی
کی۔ انہوں نے شام کے صدر بشار الاسد کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا
کہ ہم ان تمام شامی باشندوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور دیگر افراد کی
حمایت کرتے ہیں جنہوں نے انتخابی عمل کو غیر قانونی قرار دیا۔ انہوں نے کہا
کہ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسد حکومت کی جانب سے انسانی
حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے شام میں اقوام متحدہ کی
نگرانی اور اپوزیشن کی شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے شام میں انتخابات کرائے
جائیں۔خیال رہے کہ شام میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اپوزیشن کو حصہ
لینے کی اجازت نہیں دی گئی، اپوزیشن کی ایک چھوٹی سی جماعت کے رہ نما محمود
احمد مرعی اور ایک سابق نائب وزیر عبداللہ سلیم عبداللہ بشارالاسد کے
مقابلے میں الیکشن میں حصہ رہے۔ فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں اور عالمی مفاداتی
جنگ کی وجہ سے شامی عوام کے لئے امن کا خواب کب شرمندتعبیر ہوگا، شاید اس
سے خود بشار الاسد اور ان کے اتحادی بھی نہیں جانتے۔
فرانس
2021میں بھی فرانس سلام فوبیا کا شکار رہا۔پیرس کے شمال میں تقریباً 100
کلومیٹرکے فاصلے پر50 ہزار افراد پر مشتمل شہر بووئے میں مسجد کو ’ناقابل
قبول‘ تبلیغ کی وجہ سے بندکرنے کا عمل کیاگیا۔ خیال رہے کہ وزارت داخلہ کے
مطابق حالیہ مہینوں میں فرانس کی کل 2623 مساجد میں سے 99 مساجد اور
مسلمانوں کے نماز ہالز کی تحقیقات کی گئیں کیونکہ ان پر’علیحدگی پسند‘
نظریہ پھیلانے کا شبہ تھا۔مجموعی طور پر 21 کو مختلف وجوہات کی بنا پر بند
کر دیا گیا اور 6سے انتہا پسندی کے خلاف فرانسیسی قوانین کی بنیاد پر
تحقیقات کی جا رہی تھیں فرانس نے چین میں منعقدسرمائی اولمپکس 2022 کے
بائیکاٹ نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اورآسٹریلیا نے
فروری 2022 میں بیجنگ میں ہونے والے سرمائی اولمپکس 2022 کے سفارتی بائیکاٹ
کا اعلان کیاہوا ہے۔
لبنان
2021میں بھی غیر ملکی قرضوں و اقتصا دی بحران کی وجہ سے لبنان سیاسی بحران
میں الجھا رہا، سابق وزیر اعظم سعد الحریری کے مستعفی ہونے کے بعد بھی
لبنان میں سیاسی حالات نارمل نہیں ہوسکے، لبنان حکومت میں جاری مسلسل
مالیاتی بحران ہے کہ یہ نقصان 68 ارب سے 69 ارب ڈالر کے درمیان ہو سکتا ہے۔
لبنان کے نائب وزیر اعظم سعدی الشامی نے اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے
کہا کہ اعداد و شمار درست ہیں تاہم ان میں کچھ چیزیں اندازاً بیان ہوئی ہیں
ان کے بدلنے سے معمولی کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔لبنان کے موجودہ معاشی
حالات کو 1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد بدترین مالی
بحران طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یمن
2021میں بھی یمن میں حوثی ملیشیا کی جانب سے سعودی علاقوں پر میزائل حملوں
کا سلسلہ جاری رہا۔ جنوبی عبوری کونسل (ایس ٹی سی) کی فورسز کے عدن پر قبضہ
کے بعد سعودی عرب نے گذشتہ برس نومبر میں اقتدار میں شراکت کا ایک معاہدہ
طے کروایا تھا۔اقوام متحدہ کو توقع تھی کہ یہ معاہدہ خانہ جنگی کو ختم کرنے
کے لیے سیاسی تصفیہ کا راستہ صاف کردے گا لیکن جنوری 2020 میں حوثیوں اور
اتحادی فوجوں کے مابین مختلف محاذوں پر دوبارہ لڑائی چھیڑ گئی، اپریل 2020
میں ایس ٹی سی نے عدن میں خودمختاری کا اعلان کر دیا اور اس طرح اس نے بین
الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے کو توڑتے
ہوئے کہا کہ وہ بندرگاہ والے شہر اور جنوبی صوبوں پر حکومت کرے گی۔یمن میں،
جہاں ایک طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام برقرار ہے، ایرانی حمایت یافتہ
حوثی ستمبر 2014 سے دارالحکومت صنا اور کچھ علاقوں پر قابض ہیں۔سعودی عرب
کی قیادت میں اتحادی افواج مارچ 2015 سے حوثیوں کے خلاف یمنی حکومت کی
حمایت کر رہی ہے۔ یمن میں جنگ کا خاتمہ نہیں ہوسکا، گذشتہ دنوں یمنی صوبہ
حدیدہ سے 6200 افراد نقل مکانی پر مجبور ہو ئے۔ اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر
برائے حقوق انسانی کے مطابق، حکومت یمن اور اتحادی قوتیں حدیدہ کے اطراف
میں واقع اپنی چیک پوسٹوں سے رخصت ہو گئی ہیں۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ
بیت الفقیح اور التویاہتہ نامی قصبوں پر کنٹرول کے حامل قوتیں اب حدیدہ سے
90 کلومیٹر دور حوحہ نامی علاقے میں تعینات ہو چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کا
کہنا ہے کہ خالی ہوئے علاقوں پر اب حوثی ملیشیا کا قبضہ ہے البتہ سرکاری
قوتیں حوثیوں کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئی ہیں۔ سعودی عرب نے یمن سے کئے
جانے والے حملوں سے بچاؤ کے لئے امریکہ و دیگر ممالک سے دفاعی سامان کی
خریداری کے بڑے معاہدے بھی کئے۔2021 کا سال عالمی بنیادوں پر طبقاتی کشمکمش
اور مفاداتی ترجیحات کی زد میں رہا۔ خانہ جنگیوں سے متاثرہ ممالک،یا پھر
عالمی قوتوں کے فروعی مفادات نے نئے بلاکبنے۔۔ کرونا کی شدت میں کمی و
اضافے کے ساتھ دنیا کے تمام ممالک کو مہنگائی سمیت تنوع اقسام کے مسائل
درپیش رہے، بالخصوص زیادہ تر ممالک میں سیاسی بحران و مشکلات کے بدترین دور
سال نے غریب اور متوسط طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ معیشت کی بحالی اور
بے روزگاروں کو ملازمتوں دوبارہ ملنے کے لئے 2022کا برس اہمیت کا حامل قرار
دیا جاسکتا ہے، کیونکہ اگلا برس بحالی کا برس ہوگا، عالمی قوتوں نے اگر کسی
نئے جنگی محاذکو نہیں کھولا تو 2022 کو انسانیت کی بحالی کا سال قرار دیا
جاسکتا ہے-
|