اتر پردیش میں انتخاب جیسے جیسے قریب آرہا ہے بی جے پی
کے ہاتھ پیر پھولتے جارہے ہیں۔ مودی جی خود پچھلے ایک ماہ میں 10 مرتبہ سے
زیادہ اترپردیش کا دورہ کرچکے ہیں۔ آج کل وزیر اعظم ہر دوچار دن میں صبح
اٹھ کر میک اپ کرنے کے بعد تقریر کا پرزہ تھام کر اترپردیش کےکس نہ کسی شہر
میں کوئی نہ کوئی افتتاح کرنے کے لیے وارد ہوجاتے ہیں۔ واپس آنے کے بعد جب
تھکن اترتی ہے تو اگلی تقریر کا ریہرسل کرنے میں جٹ جاتے ہیں ۔ یہ ان
گھبراہٹ کا کھلا ثبوت ہے۔ ویسے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ حصہ لینا ان کا
پسندیدہ مشغلہ ہے لیکن ایسی بے چینی کا مظاہرہ پہلے دیکھنے کو نہیں ملی۔
مثال کے طور پڑوس میں بہار کی مثال لیں تو وہاں کے الیکشن میں بی جے پی کو
کامیاب کرنے کی خاطر مودی جی نے کل تین مرتبہ صوبے کا دورہ کیا تھا اور
تقریباً ایک درجن خطابات عام میں اظہار خیال کیا تھا ۔ اترپردیش میں ابھی
انتخابات کا اعلان نہیں ہوا مگر مودی جی اس سے قبل ہر تیسرے دن اپنی جھلک
دکھلا نے لگے ۔ پچھلے دوماہ میں 6؍ مرتبہ پوروانچل کا دورہ کرچکے ہیں۔
وارانسی میں پچھلی مرتبہ انہوں نے کیا کیا نہیں کیا ۔ گنگا میں ڈبکی لگائی۔
کشتی میں سیر کی اور وزرائے اعلیٰ کے ساتھ اپنا دربار بھی سجا دیا لیکن لوگ
متاثر ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ خبریں بریکنگ نیوز نہیں بن پارہی ہیں اس
لیے اپنے دائیں ہاتھ امیت شاہ کو ۶ ؍دنوں کے دورے پر روانہ کردیا لیکن بات
پھر بھی نہیں بن رہی ہے۔ اس پریشانی سے نکلنے کے لیے بی جے پی نے دھرم سنسد
کا سہارا لیا۔ اس کی شروعات اترپردیش کے بجائے اتراکھنڈ سے کی گئی اور اس
میں مسلمانوں کے خلاف ایسی زہر افشانی ہوئی کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ قومی
ذرائع ابلاغ میں تو شرم کے مارے اسے اچھا لا نہیں جاسکا کیونکہ اس سے ضمیر
فروش گودی میڈیا بھی شرمسار ہوگیا لیکن یہ نفرت انگیزی عالمی ذرائع ابلاغ
میں بحث کا موضوع بن گئی۔ وزیر اعظم نے پچھلے ۷ ؍ سالوں میں دنیا بھر کا
دورہ کرکے اپنے متعلق جو خوش فہمی پیدا کی تھی وہ منٹوں میں کافور ہوگئی۔
اس دھرم سنسد نےوزیر اعظم اور ان کی پارٹی کے لیے ایک نیا دھرم سنکٹ کھڑا
کردیا۔ وہ اگر اپنی عالمی شبیہ کو سدھارنے کے لیے اس کی مذمت کرتے ہیں تو
سادھو سنتوں کے ساتھ اندھے بھگت بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور اگر خاموش رہتے
ہیں تو دنیا بھر میں ذاتی اور قومی بدنامی ہوتی ہے۔ مودی جی ایک زمانے میں
کہاکرتے تھے کہ سب سے افضل قومی وقار ، اس کے نیچے پارٹی کا مفاد اور آخر
میں ذاتی فائدہ آتا ہے لیکن اب ترتیب الٹ گئی ہے۔ انہوں نے اپنے نجی
اقتدار کو بچانے کی خاطر عالمی سطح پر قومی وقار کو خاک میں ملادیا ہے ۔
جہاں تک پارٹی کا سوال ہے وہ کب کی مودی کے وجود میں ضم ہوچکی ہے۔ اب تو
وزیرداخلہ بھی جو ماضی میں پارٹی کے صدر تھے اپنے بعد والے سربراہ کو خاطر
میں نہیں لاتے۔
اتراکھنڈ میں دھرم سنسد کو اپنے مقصد میں زبردست کامیابی ملی ۔ عوام کی
توجہ مہنگائی اور بیروزگاری تو دور لکھیم پور کے قتل عام سے بھی ہٹ گئی۔ اب
کوئی بھی اجئے مشرا ٹینی کی گرفتاری کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ ہر کوئی یتی
نرسنگھانند کی گرفتاری چاہتا ہے۔ اول تووہ ہوگی نہیں اور مجبوراً دکھاوے کے
لیے ایسا کرنا بھی پڑا تو بی جے پی کا اس میں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس
دھرم سنسد کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ پھر سے ایودھیا کے اندر ہونے
والی بدعنوانی پر پردہ پڑ گیا۔ یہ معاملہ اس قدر سنگین تھا کہ یوگی سرکار
تفتیش کروا کر پانچ دنوں کے اندر رپورٹ پیش کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔ ہونا
تو یہ چاہیے تھا کہ میڈیا اس کا انتظار کرتا اور جیسے ہی وہ منظر عام پر
آتی رام بھکتوں کا پوسٹ مارٹم شروع ہوجاتا لیکن دھرم سنسد نے تو گویا
میڈیا کو ہائی جیک کرلیا ۔ ہر کوئی ایودھیا کی چوربازاری کو سریو ندی میں
دریا برد کرکےہری دوار کی سیر کررہا ہے۔ اس طرح بی جے پی اس دھرم سنسد سے
اپنے گناہوں کو چھپانے میں ضرور کامیاب ہوگئی ۔
ہری دوار کے بعد چھتیس گڑھ میں دھرم سنسد کا اہتمام کیا گیا یعنی پہلی
اترپردیش کے شمال مغرب میں تو دوسری جنوب مشرق میں تاکہ اوپر کے بعد نیچے
سے اس کا اثر دیکھا جائے۔وہاں پر نفرت کی آگ بھڑکانے کے لیے مہاراشٹر سے
کالی چرن مہاراج کو بلایا گیا ۔ نصیرالدین شاہ کے مطابق اسے مہاراج نہیں
کہنا چاہیے لیکن سوچنے والی بات ہے کہ مودی راج میں اگر مہاراج ایسے نہیں
ہوں گے تو کیسے ہوں گے؟ جیسا بیج بویا جائے گا اور جیسی کھاد پانی کا
اہتمام ہوگا ویسا ہی پھل بھی لگے گا۔ کالی چرن نے پہلے تو وہ کہا کہ جس کے
لیے بلایا گیا تھا یعنی اسلام کا نشانہ سیاست کے ذریعہ اس ملک پر قبضہ کرنا
ہے۔ یہ بات اول تو درست نہیں ہے لیکن اگر اس غلبۂ اسلام کے ہم معنیٰ سمجھ
لیا جائے تب بھی دین حنیف میں سربلندی کے لیے ایسا اوچھا طریقہ نہیں اختیار
کیا جاتا ۔ وہاں تو دعوت پیش کی جاتی لوگ اس کو قبول کرتے ہیں اور اندر سے
باہر تک ایک صالح انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ اس میں کسی کو دولت کا لالچ دے کر
قتل عام پر نہیں اکسایا جاتا۔
کالی چرن نے یہ بھی کہا کہ ’ ہماری آنکھوں کے سامنے انہوں نے 1947 میں
قبضہ کرلیا تھا‘۔ اول تو اس مجلس میں کالی چرن کے ساتھ شاید ہی کوئی ایسا
فرد موجود رہا ہو کہ جس نے بہ ہوش و حواس 1947 میں تقسیم ہند کو اپنی
آنکھوں سے دیکھا ہوگا اور بنگلہ دیش تو اس وقت موجود ہی نہیں تھا۔ وہ تو
1971 میں حکومتِ ہند کی مدد سے عالم وجود میں آیا لیکن خیر کسی پڑھے لکھے
سمجھدار آدمی کا وہاں کیا کام ؟کالی چرن اگر اپنی بکواس کو یہیں تک محدود
رکھتا تب بھی کوئی حرج نہیں تھا مگر اس نے آگے بڑھ کر گاندھی جی کے خلاف
غیر مہذب اور نازیبا تبصرہ کرنے کے بعد ان کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی حمایت
کردی ۔ اس نے کہا موہن داس کرم چند گاندھی نے ملک کو تباہ کر دیا۔ جس طرح
نصیرالدین شاہ کو کالی چرن کے مہاراج ہونے پر اعتراض ہے اسی طرح کالی چرن
کے لیے گاندھی جی کو مہاتما کہنا گوارہ نہیں ہے بلکہ اس کی نظر میں ناتھو
رام گوڈسے مہاتما ہے ۔ اس کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے وہ کروڈہا کروڈ سلام
پیش کرتا ہے کیونکہ گوڈسے نے گاندھی کو مار ڈالا تھا ۔
کالی چرن نے شرکائے سنسد سے اپیل کی کہ وہ ہندو دھرم کی سلامتی کے لئے کٹر
ہندو لیڈر منتخب کریں۔ اس سنسد میں کانگریسی رہنما پرمود دوبے بھی موجود
تھے۔ آگے چل کر ان کی شکایت پر پولیس نے کالی چرن مہاراج کے خلاف تعزیرات
ہند کے تحت مختلف فرقوں کے درمیان دشمنی، نفرت یا رنجش پیدا کرنے یا فروغ
دینے والا بیان دینے اورفحش فعل کاارتکاب کرنے کی تعزیرات کے تحت معاملہ
درج کرلیا۔کالی چرن کی تلاش میں راے پور سے پولیس کی خصوصی ٹیم نے چھترپور
ضلع کے کھجوراہو پولیس کو اطلاع دے کر 18 کلومیٹر دور گرفتار کرکے سڑک کے
راستے سے رائے پور لے گئی۔ رائے پور میں مقدمہ درج ہونے کے بعد کالی چرن نے
ایک ویڈیو جاری کرکے کہا تھا کہ اسے گاندھی جی کے خلاف تبصرے پر افسوس نہیں
ہے۔ وہ کہتا ہے’’میں گاندھی سے نفرت کرتا ہوں ۔ میرے دل میں گاندھی کے خلاف
حقارت ہے۔ اس کے مطابق گاندھی کی وجہ سے سردار ولبھ بھائی پٹیل وزیر اعظم
نہیں بن سکے۔ پٹیل اگر ملک کے وزیر اعظم ہوتے ہندوستان امریکہ سے بڑی طاقت
بن سکتا تھا۔
کالی چرن نے گاندھی جی پر موروثیت کو فروغ دینے اوربھگت سنگھ و راج گرو کی
پھانسی نہیں رکوانے کا الزام لگا یا۔ وہ کہتا ہے کہ کوئی بابائے قوم نہیں
ہوسکتا ۔ اس کے بعد اپنی تردید میں یہ بھی کہتا ہے کہ بابائے قوم بنانا ہے
تو شیواجی ، رانا پرتاپ یا سردار پٹیل جیسے لوگوں کو بنانا چاہیے جنہوں نے
ملک کو متحد کرنے کا کام کیا جبکہ گاندھی تو ملک کی تقسیم کے لیے ذمہ دار
ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ گاندھی کو بابائے قوم نہیں مانتا اگر سچ بولنے
کی سزا موت ہے تو وہ اسے قبول ہے ۔ شیواجی کا حوالہ دے کر وہ کہتا ہے کہ
انہوں نے مذہب کے تحفظ کی خاطر جان دے دی تو اس جیسے حقیر کیڑے جی کر کیا
کریں گے؟ یہ بات تو درست ہے خیر اس نے یہ دعویٰ بھی کیا اس جیسے کروڈوں
کالی چرن جان دینے کے لیے تیار ہیں۔
موت کو گلے لگانا کا دعویٰ کرنا جتنا آسان ہے اس کا سامنا کرنا اتنا ہی
مشکل ہے۔ کالی چرن کا چھتیس گڑھ سے بھاگ کر مہاراشٹر آنے کے بجائے مدھیہ
پردیش میں روپوش ہوجانا خود بزدلی کی دلیل ہے۔ اس نے سوچا ہوگا کہ ناتھو
رام گوڈسے کی بھگت اور رکن پارلیمان سادھوی پرگیہ حمایت میں آئیں گی مگر
ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے اس ڈرپوک نے کھجوراہو میں ایک گیسٹ ہاؤس کی بکنگ
کرائی ْلیکن پولیس کو چکمہ دینے کی خاطرنہ وہاں ٹھہرا اور نہ گیسٹ ہاؤس سے
چیک آؤٹ کیا بلکہ 25 کلومیٹر دور باگھیشوری دھام کے قریب ایک شخص کے گھر
میں چھپ گیا۔ اس کے علاوہ پولیس سے بچنے کے لئے نہ صرف خود اپنا بلکہ اپنے
تمام ساتھیوں کے فون بند کروادیئے۔ پولس گرفتار کرنے پہنچی تو اس سے الجھ
گیا۔ یہ ہے ان گیدڑوں کا سرغنہ جو وطن عزیز سے مسلمانوں کا صفایہ کرنے کے
سپنے دیکھتاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ان بزدلوں کےخواب میں بھی مسلمان حملہ
آور آجائیں تو ان کا ہارٹ فیل ہوجائے گا۔
|