الٹی گنتی:آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے

بی جے پی کے الٹی گنتی شروع ہونے کی بات آج کل ہر خاص و عام کی زبان پر ہے۔ بہت سارے لوگ تو یہ جملہ بغیر سوچے سمجھے محض دل کو بہلانے کے لیے کہتے ہیں لیکن کورونا کے نئے بہروپ اومیکرون کی طرح اس کی بھی ٹھوس علامات ظاہر ہونے لگی ہیں۔ گوا کی مثال لیں تو وہاں پچھلی میعاد میں بی جے پی برسرِ اقتدار تھی لیکن الیکشن میں اس کا وزیر اعلیٰ خود انتخاب ہار گیا۔ اس کے ارکان اسمبلی کی تعداد کانگریس سے کم ہوگئی اس کے باوجود امیت شاہ بڑے اعتماد کے ساتھ اعلان کیا کہ وہ سرکار بنا نے جارہے ہیں ۔ لوگوں کو تعجب ہوا لیکن شاہ جی کا دعویٰ درست نکلا۔ کانگریس کو توڑ کر اور آزاد امیدواروں کو جوڑ بی جے پی سرکار بنانے میں کامیاب ہوگئی لیکن یہ اگلے وقتوں کی بات ہے جب شاہ جی کا طوطی بولتا تھا اور وہ چانکیہ کہلاتے تھے ۔ اب تو حال یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں سے نہ صرف گوا بلکہ اترپردیش کے طوطے بھی اڑنے لگے ہیں ۔

گوا میں ایک دن قبل استعفیٰ دینے والے سابق وزیر مائیکل لوبو نے دوسرے روز کانگریس میں شمولیت اختیار کرلی ۔ وہ اگر عام آدمی پارٹی کا جھاڑو یا ترنمول کے پتوں کو تھام لیتے توبی جے پی کو اتنا دکھ نہیں ہوتا لیکن ان کا کانگریس میں چلا جانا یقیناً کمل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اس موقع پر لوبو نے کہا کہ 14 فروری کو ہونے والے اسمبلی انتخاب میں کانگریس اکثریت حاصل کرے گی کیونکہ لوگ بی جے پی حکومت سے پریشان ہو چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس 2022 میں 22 سیٹوں پر کامیاب ہوگی۔ گوا کے لوگ تبدیلی چاہتے ہیں اور کانگریس اس کی شروعات کرے گی۔ لوبو نے استعفیٰ دیتے وقت الزام لگایا تھا کہ گوا میں بی جے پی اپنی پارٹی کے کارکنان کو نظر انداز کر رہی ہے اور اسے اس کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ان کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ منوہر پاریکر کی مو ت کے بعد بی جے پی الگ طریقے سے چلنے لگی۔ منوہر پریکر کے بیٹے نے ایسا الزام لگایا تھا۔

بی جے پی کے اندھے بھگت یہ کہہ سکتے ہیں کہ گوا کی ہار جیت سے پارٹی کو فرق نہیں پڑتا لیکن اترپردیش کے بارے میں وہ ایسا نہیں کہہ سکتے۔ وہاں اگربی جے پی کا خیمہ اکھڑ جائے تو مودی اگلا انتخاب ہار جائیں گے اور یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے۔2014کے بعد امیت شاہ نے جو جارحانی انتخابی حکمت عملی اپنائی اس کو ’کارپیٹ بامبنگ‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ اس مہم کے دوران بے شمار جلسہ جلوس کے علاوہ مخالفین کے رہنماوں اور ارکان اسمبلی کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کیا جاتا تھا۔ نتائج کے بعد اگر کوئی کمی رہ جاتی تو پھرسے مخالف خیمہ پر شب خون مارکر اپنی تعداد میں اضافہ کیا جاتا ۔ مغربی بنگال میں یہ ہوا کہ انتخاب سے قبل تو ٹی ایم سی کے اندر خوب تباہی مچائی گئی لیکن کراری شکست کے بعد گھر واپسی شروع ہوگئی اور بے یارومددگار بی جے پی والے گزرتے ہوئے کارواں کا غبار دیکھتے رہے ۔ یعنی نصف حکمت عملی الٹ گئی اور اب اترپردیش میں ساری بساط ہی الٹی ہوگئی یعنی لوگ بی جے پی میں آنے کے بجائے رسی تڑا کر دھڑا دھڑ بھاگنے لگےہیں۔ یہی وجہ ہے فی الحال یوگی ، مودی ، شاہ ، نڈا اور سوتنتر دیو سبھی کو دن میں تارے نظر آرہے ہیں۔

یوگی جی فی الحال ہ اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں ایسی ویڈیوز گردش کررہی ہیں کہ جن میں یوگی کے مائک پر آتے ہی عوام کا چل چلاو شروع ہوجاتا ہے۔ مسئلہ صرف عوام کا نہیں بلکہ خواص کا بھی ہے۔ اس نازک گھڑی میں یوگی کی اپنی تشکیل کردہ ہندو یوا واہنی ان کے کام آسکتی تھی لیکن اس کے 90 فیصد ارکان سماجوادی پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں ۔ یوگی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد2017میں آر ایس ایس نے حکم دیا تھا کہ اس تنظیم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اس کے بعد وہ خوداپنی ہی بنائی ہوئی تنظیم کے دشمن بن گئےاور نتیجہ یہ نکلا کہ 15؍ سالوں تک ہندو واہنی کا پرچم تھام کر چلنے والے سنیل کمار، سوربھ وشوکرما اور چندن وشوکرما اکھلیش یادو کی پناہ میں آگئے۔ ان لوگوں نے جب یوگی سے اختلاف کیا تو ہندو یوا واہنی کے سابق صدر پر یو اے پی اے لگا کر جیل اسے یوگی انتظامیہ نے جیل بھیج دیا اور ایک کے بعد ایک اکائیوں کو تحلیل کرتے چلے گئے۔

یوگی ادیتیہ ناتھ کی احسان فراموشی کایہ عالم ہے کہ یوا واہنی کے قیام سے قبل 1998 میں وہ صرف 26 ہزار اور 1999 میں ہونے والے انتخاب میں ان کی جیت کا فرق محض 7ہزار تھا لیکن پھر ہندو یوا واہنی کی بدولت 2004 میں 1.42 لاکھ ووٹ کے فرق سے وپ کامیاب ہوگئے۔ 2009 اور 2014 کے قومی انتخاب میں یہ فرق 3 لاکھ سے زیادہ ہوگیا لیکن پھر اپنی کرسی بچانےکے لیے یوگی جی اپنے وفاداروں کا بھوگ چڑھا دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعدیوگی انتخاب لڑنے کی ہمت نہیں جٹا سکے اور قانون ساز کونسل کے چور دروازے سے حکومت کرتے رہے۔ اب جبکہ انتخاب سر پر آگیا تو مودی جی کو ساڑھے چار سال پرانی غلطی کا احساس ہوا ۔ اس لیے بار بار اتر پردیش کے دورے کرنے لگے ۔ اس سے بھی بات نہیں بنی تو شاہ جی کو دورے پر روانہ کردیا ۔ وہ بھی رائے دہندگان کو متاثر کرنے میں ناکام رہے تو انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعہ اکھلیش پر ہلہّ بول دیا ۔

اس وقت اتر پردیش میں بی جے پی کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ مرکزی حکومت کے اشارے پر محکمہ انکم ٹیکس نے سماج وادی پارٹی کے رکنِ قانون ساز کونسل پشپراج جین عرف 'پمپی' کے گھر پر چھاپہ مارنے کے بجائے اپنی ہی پارٹی کے پیوش جین کو دھر دبوچا۔ وہ لوگ عطر کے تاجر پمپی جین کو 'سماج وادی پرفیوم' تیار کرنے کی سزا دینا چاہتے تھے اور دوسرے حامیوں کو ڈرانے کا ارادہ رکھتے تھے مگر الٹا ہوگیا۔ بی جے پی کے حامی پیوش جین کا مکان قنوج کی اسی گلی میں ہے جہاں پشپراج رہتے ہیں دونوں کا خاندانی نام اور پہلا حرف پی بھی یکساں ہے اس لیے غلطی سے کمل والا جین پھنس گیا ۔ اترپردیش میں چونکہ ڈبل انجن سرکار ہے اس لیے اس کا حامی تو خوب مالدار نکلا۔ پیوش کے گھر سے تقریباً 200 کروڑ روپے کی نقدی کے ساتھ 75 کلو سونا اور چاندی برآمد ہوا۔ محکمہ انکم ٹیکس کی یہ اب تک کی سب سے بڑی ضبطی تھی۔

بی جے پی نے اسی حربے کا استعمال کرکے مایا وتی کو دوڑ سے نکال دیا ۔ اترپردیش کا انتخاب جیتنے کی خاطر بی جے پی کے لیے ضروری تھا کہ سماجوادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کے پھر سے اتحاد کو روکا جائے۔ اس کام کے لیے سب سے کمزور چارہ بی ایس پی کی مایا وتی تھیں ۔ بی جے پی نے انہیں بلیک میل کرنا شروع کیا اور وہ ڈر گئیں۔ بہوجن سماج پارٹی ماضی میں بی جےپی کے ساتھ الحاق کرچکی ہے اس لیے اس کو دوباہ این ڈی اے شامل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا مگر یوگی نے اترپردیش میں دلتوں پر جس طرح کے مظالم کیے ان کے سبب دلتوں کی خاطر بی جے پی کا ساتھ دینا ناممکن ہوگیا ہے۔ ہاتھرس کے سانحہ کو دلت سماج آسانی سے بھول نہیں سکتا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے مگر فی الحال اتر پردیش میں ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی دلتوں کے ساتھ بدسلوکی کا سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ عصمت دری ایک عام بات ہوگئی ہے ۔ قتل کے بعد الٹا دلت نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔

اس بیچ وزیر داخلہ امیت شاہ نے مایا وتی کو عار دلاتے ہوئے بھرے جلسے میں کہہ دیا ہے کہ لگتا ہے وہ ڈری ہوئی ہیں ۔ اس طرح گویا وزیر داخلہ نے خود اپنے خلاف بیان دے دیا کیونکہ ڈبل انجن سرکار میں مایا وتی کو بی جے پی کے سوا کون ڈرا سکتا ہے؟ اس طنز کے جواب میں مایا وتی نے پریس کانفرنس منعقد کرکے کہا کہ وہ انتخابی تاریخوں کا اعلان کرنے کے بعد مہم کاآغاز کریں گی اور ریلی کرنا ان کا طریقۂ کار نہیں ہے حالانکہ یہ بات خلاف حقیقت ہے۔ بی ایس پی بڑی بڑی ریلیاں منعقد کرتی رہی ہے۔ مایا وتی کو چونکہ امیت شاہ نےپوچھا کہیں سردی تو نہیں لگ گئی ہے؟ اس کے جواب میں بی جے پی پر حملہ کرتے مایا وتی نے کہا کہ انہیں عوام کے پیسے کی گرمی چڑھی ہوئی ہے۔ وہ روپیہ جو لوگوں کے فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے وہ سیاسی جلسوں کی نذر ہورہا ہے اور اس سے کورونا پھیل رہا ہے۔ اس پریس کانفرنس سے قطع نظر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مایا وتی کا یہ آخری انتخاب ہے لیکن اگر وہ بی جے پی کے ساتھ مل جاتی ہیں تو ان کا انجام نہایت عبرتناک ہوگا۔ مایا وتی کمال مایوسی کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ بی ایس پی میں اپنی عمر 20بہترین سال گزارنے والے سوامی پرشاد موریہ نے جب بی جے پی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو سماجوادی پارٹی میں چلے گئے۔ یہ بی ایس پی کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے لیے بہت بری خبر ہے۔ خیر ابھی تو بگل بجا ہے اور جنگ شروع ہو ی ہے لیکن یہ کہنا پڑے گا کہ ’آغاز تو اچھا ہے انجام خدا جانے‘


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450358 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.