قدآور پسماندہ رہنما سوامی پرساد موریہ نے بی جے پی کو
ایسے برے وقت میں اور ایسی نازک جگہ لات ماری ہے کہ کمل بلبلا اٹھا ہے۔ کون
جانتا تھا کہ جس پسماندہ طبقہ کو ساتھ لے کر بی جے پی نے 14 برس سیاسی بن
باس پوراکرنے کے بعد اترپردیش میں تاریخی کامیابی حاصل کی تھی وہی اس کی
تابوت میں آخری کیل ٹھونکے گا۔ سوامی پرساد موریہ نے بی جے پی پر الزام
لگایا ہے کہ بی جے پی پسماندہ طبقات کے مسائل کے تعلق سے بہری ہے ۔ انہوں
نے یہ بھی کہا وزیر بنا کرپارٹی نے ان پر کوئی احسان نہیں کیا کیونکہ انہیں
کی بدولت وہ اقتدار میں آئی تھی اس لیے الٹا اس کو شکر گزار ہونا چاہئے۔
موریا کے مطابق ان کے نکلنے سے بی ایس پی زمین بوس ہوگئی تھی اور بی جے پی
کا بھی وہی انجام ہوگا۔ اس کا کھیل اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ ویسے تو اروند
کیجریوال نے یہ بیان دیا ہے کہ وہ ان کی پارٹی کا ٹکٹ بیچنے والوں کا جہنم
تک پیچھا کریں گے۔ اتفاق سے مایا وتی پر یہی الزام لگا کر سوامی پرساد
موریہ نے بی ایس پی کو خیر باد کہا تھا اور اب انہوں نے بی جے پی کو جہنم
رسید کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔
سوامی پرساد کو 2017 میں بی جے پی والے بہلا پھسلا کراپنی پارٹی میں لے
آئے تھے لیکن جب انہوں نے استعفیٰ دیا تو ان لوگوں کے ہوش اڑ گئے پہلے ان
کو سمجھا بجھا کر واپس لانے کی ذمہ داری نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ
کو سونپی گئی ۔ کیشو پرساد نے ٹویٹ کیا کہ محترم سوامی پرساد موریہ نے کن
وجوہات سے استعفیٰ دیا میں نہیں جانتا لیکن ان سے بیٹھ کر بات کرنے کی
استدعا کرتا ہوں۔ بی جے پی کا کسی باغی کے سامنے اس طرح ہاتھ جوڑ کر اپیل
کرنا بتاتا ہے کہ وہ کس قدر پریشان ہے۔ کیشوپرساد نے یہ بھی لکھا کہ جلد
بازی میں کیے جانے والے فیصلے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں ۔ سچائی تو یہ ہے کہ
انہوں نے ۶ سال قبل بی جے پی میں شامل ہوکر جو غلط فیصلہ کیا تھا اب اس کی
اصلاح کررہےہیں اور یہ مدت خاصی طویل ہے۔
یہ رونا اور گڑگڑانا جب بے سود ہوگیا تو بی جے پی کے سامنے دو متبادل تھے ۔
سوامی پرساد کو نظر انداز کردینا یا پھر ڈرانا دھمکانہ ۔ایسی صورتحال میں
عام طور پر نظر انداز کرنے میں فائدہ ہوتا کیونکہ اس سے ان کے حامیوں کو کم
ازکم ساتھ رکھا جاسکتا ہے لیکن بی جے پی کے سامنےسنگین مسئلہ یہ ہے کہ
سوامی پرساد کے علاوہ اور بھی جو لوگ پارٹی چھوڑنے کے لیے پر تول رہے ہیں
ان کو کیسے روکا جائے؟ ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ
اترپردیش میں دو سو سے زیادہ ارکان اسمبلی نے اپنے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ
ناتھ کے خلاف ایوانِ اسمبلی میں دھرنا دیا لیکن مرکز کمبھ کرن کی نیند میں
سوتا رہا اور اب اس کو ہوش آیا ہے۔ مثلا مشہور ہے اب پچھتائے کا ہوت جب
چڑیا چگ گئی کھیت؟ اس ناراضی کی کئی وجوہات ہیں پہلی تو یہ کہ وہ یوگی کو
رسوا کرکے اپنی ذلت کا انتقام لینا چاہتے ہیں اور دوسرے یوگی کے ساتھ پھر
سے عوام میں جاکر انتخاب نہیں جیت سکتے ہیں۔ سوامی پرساد کی جانب سے
آنکھیں موند لینے سے ان پارٹی چھوڑنے کا ارادہ رکھنے والوں کے حوصلے بلند
ہوتے ہیں اس لیے انہیں ڈرا کر روکنے کی خاطر بی جے پی کے پاس ڈرانے دھمکانے
کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔ بی جے پی اپنے اس خودکش فیصلے سے کچھ ڈرپوک
ارکان اسمبلی کو روکنے میں تو کامیاب ہوجائے گی مگر پورے پسماندہ سماج کو
اپنا دشمن بنالے گی اور اس کی بہت بڑی قیمت اسے انتخاب میں ادا کرنی پڑے گی
۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ یوگی کابینہ سے استعفیٰ دینے کے بعد اس کی کھل کر
مخالفت کرنے والے سوامی پرساد موریہ کو گھیرنے کی خاطر بی جے پی نےایم
پی-ایم ایل اے کورٹ سے ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کروادیا۔ سلطان پور کی
عدالت نے ان کو آئندہ 24 جنوری تک پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ مزے کی بات یہ
ہے کہ موریہ کے خلاف مذہبی جذبات مشتعل کرنے کے ایک پرانے معاملہ پر یہ
کارروائی کرائی گئی ہے۔ 2014 میں سوامی پرساد موریہ نے ہندو دیوی دیوتاؤں
پر قابل اعتراض تبصرہ کیا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ شادیوں میں گوری گنیش
کی پوجا نہیں کرنی چاہیے ۔ یہ منووادی نظام میں دلتوں اور پسماندہ طبقات کو
گمراہ کرکے انہیں غلام بنانے کی سازش ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس قابلِ اعتراض
کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ ان کی رائے ہے جس انہوں نے اظہار کیا لوگ مانیں یا نہ
مانیں ان کی مرضی لیکن پھر بھی مقدمہ درج ہوگیا ۔
بی جے پی والے اگر اب یہ سوچتے ہیں کہ اس مقدمہ کے ذریعہ وہ سوامی پرساد کو
ہراساں کرکے ہندو رائے دہندگان کی ہمدردی حاصل کرسکے گی تو یہ اس کی خوش
فہمی ہے کیونکہ ایک ہندو ووٹر یہ سوال تو ضرور کرے گا ہمارے دیوی دیوتاوں
کی توہین کرنے والے ہندو دشمن کو بی جے پی نے اپنی پارٹی میں کیوں شامل کیا
؟ اس کوانتخاب لڑنے کے لیے ٹکٹ کیوں دیا؟ اور کامیاب ہونے کے بعد کابینہ
میں شامل کرکے اہم وزارتوں سے کیوں نوازہ ؟ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اگر
انہوں نے واقعی کسی سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے تو اس پر کارروائی کے لیے
سوامی پرساد کے پارٹی چھوڑنے تک کا انتظار کیوں کیا گیا؟اس کا مطلب ہے جیسے
دنیا بھر کا بدعنوان بی جے پی کی گنگا جل میں نہا کر پاک صاف ہوجاتا ہے اسی
طرح ہندو دیوی دیوتاوں کو برا بھلا کہنے والے کے بھی سارے گناہ کمل تھامتے
ہی معاف ہوجاتے ہیں۔ ہاں اگر وہ بی جے پی کو لات ماردے تو اس کے خلاف سارے
سرکاری محکمہ مصروفِ عمل ہوجاتے ہیں۔
سوامی پرساد موریہ کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ نیا نہیں ہے۔ یہ پہلے بھی جاری
ہوچکا تھا لیکن موریہ نے ہائی کورٹ سے 2016 سے اس پر اسٹے لے رکھا تھا۔
امسال 6 جنوری کو ایم پی-ایم ایل اے کورٹ نے موریہ کو 12 جنوری کے دن حاضر
ہونے کو کہا تھا لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے۔ اس بیچ اگر انہوں نے استعفیٰ نہیں
دیا ہوتا لازم ہے کہ عدالت ان کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرتی لیکن اب تو
انہوں نے شہد چھتے میں ہاتھ مار دیا ہے اس لیے وارنٹ جاری ہو گیا۔ سوامی
پرساد اگر جیل کے اندر سے الیکشن لڑتے ہیں تو ان کی کامیابی پچھلے پانچ
مرتبہ سے کئی گنا بڑی ہوگی او ر بی جے پی مخالف کے لیے ضمانت بچانا مشکل
ہوجائے گا۔اسی طرح اکھلیش کی کامیابی پران کے لیے نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی
پکی ہوجائے گی۔ اس کے لیے انہیں بی جے پی کا شکر گزار ہونا پڑے گا۔ یہ عجب
اتفاق ہے کہ جہاں ایک طرف بی جے پی کے سابق وزیر سوامی پرساد کے خلاف
ہندووں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگا ہے دوسری جانب سپریم
کورٹ نے ہری دوار کے ’دھرم سنسد‘ میں مسلم برادری کے خلاف کی گئی قابل
اعتراض اشتعال انگیز تقاریرکی مخالفت میں دائرعرضیوں پر بی جے پی کی
اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کیاہے۔
چیف جسٹس این وی رمنا اور جسٹس سوریہ کانت اور ہیما کوہلی کی بینچ نے
متعلقہ فریقوں کے دلائل سننے کے بعدیہ حکم دیاجس کا مطلب ہ ےکہ بی جے پی پر
ہندو اورمسلم دونوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والوں کو پناہ دینے
الزام لگ رہا ہے۔ اس بابت چیف جسٹس رمنا کا کہنا ہے کہ ابھی تو وہ صرف نوٹس
جاری کر رہے ہیں مگر اگلی سماعت 10 دنوں کے بعد ہوگی ۔ اس نئی صورتحال میں
خود کو رسوائی سے بچانے کی خاطر اتراکھنڈ سرکار نے جیتندر نارائن تیاگی کو
گرفتار بھی کرلیا ہے۔ اس گرفتاری کے خلاف یتی نرسنگھانند نے خاصہ ہنگامہ
کیا اور پولس کو بال بچوں سمیت مرنے کی دھمکی بھی دی لیکن اس کی ایک نہ
چلی۔ اس کے بعد یتی نرسمہانند ہریدوار میں جتیندر نارائن تیاگی کی گرفتاری
کے خلاف احتجاج کر نے کے لیے بیٹھ گیا اور تاحیات بھوک ہڑتال کا اعلان
کردیا ۔ اس نے سوچا ہوگا کہ سرکار اس کے آگے ہاتھ پیر جوڑے گی اور وزیر
اعلیٰ پھلوں کے رس کا گلاس لے کر آئیں گے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
اس صورتحال سے پریشان ہوکر اس نے وہ خودہی ایک دن کے بعد ہڑتال ختم کردی
اور ستیہ گرہ کا ناٹک کرنے لگا لیکن دیر شام پولیس نے یتی نرسمہانند گری کو
احتجاجی مقام سے اٹھاکر پولس اسٹیشن لے گئی اور گرفتار کر لیا۔ اس طرح ایک
بدمعاش کی ساری ہیکڑی نکل گئی۔اس معاملے میں اب سنت دھرم داس، سادھوی
اناپورنا بھارتی، سوامی یاتی نرسمہانند اور ساگر سندھو مہاراج کے خلاف بھی
ایف آئی آر ہے اور سب دم دبا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان سب کی سٹی پٹی گم ہے
۔ سینئروکیل کپل سبل نے 24 جنوری کو علی گڑھ میں منعقد ہونے والی دھرم سنسد
سے قبل سماعت پر اصرار کیا تھا۔ اترپردیش میں بی جے پی کی ہار کو یقینی
بنانے کے لیے یہ سوامی پرساد اور یتی نرسنگھانند کے مقدمات کافی ہیں کیونکہ
بی جے پی کے ہاتھ سے منڈل اور کمنڈل دونوں نکل گئےہیں ایسے میں وہاں کمل
کیسے کھلے گا یہ بہت بڑا سوال ہے؟ بی جے پی پر فی الحال عوام کا جو غم و
غصہ ہے اس پر عمیق حنفی کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
کمل کھلاہے لکھا ہوا ہے توڑو مت
اور مچل کر جی کہتا ہے چھوڑو مت
|