اترپردیش میں کھیلا نہیں میلہ لگ گیا

ہندوستان کی قومی انتخابات میں عام طور پر مذہب ( کمنڈل) ، ذات پات ( منڈل) اور تعمیر و ترقی (عوامی فلاح وبہبود) یہ تین مسائل ہوتے ہیں کبھی کبھار علاقائی تشخص ووقار کا معاملہ بھی ابھار دیا جاتا ہے ۔ کمنڈل کی آڑ میں جب اقلیتوں کے خلاف نفرت اورفرقہ پرستی کو ہوا دی جاتی ہے تو اس کے جواب میں گنگا جمنی تہذیب اور ا من و آشتی کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔ بی جے پی کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اس نے فرقہ پرستی کی بنیاد پر 2014 کا انتخاب جیتا جو غلط ہے۔ اس وقت کا سب سے بڑا نعرہ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس تھا‘۔ گجرات کو ایک ترقی یافتہ ماڈل (آدرش) صوبے کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ مودی جی اپنے آپ کو ایک غریب چائے والا اور پسماندہ ذات کے فرد کی حیثیت سے پیش کررہے تھے ۔ انا ہزارے کی تحریک نے منموہن سنگھ کے خلاف جو بے بنیاد الزام لگائے تھے ان کو ملک کی بدحالی کے لیے ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے۔ اس کے علاوہ امیت شاہ نے اترپردیش میں غیر یادو پسماندہ اور غیر جاٹو دلتوں کو اپنے ساتھ لے کر ایک ایسا اتحاد بنایا جس نے اترپردیش میں بی جے پی کی کایا پلٹ دی اور مودی جی کو وزیر اعظم بنادیا ۔ گویا سات سال قبل بی جے پی منڈل اور تعمیر و ترقی کی مدد سے اقتدار میں آئی ۔

اس کے بعد 2017 کے اندر اترپردیش کے صوبائی انتخابات کا اعلان ہوا تو بی جے پی نے اپنا منڈل والا کارڈ پھر سے کھیلا اور وزیر اعظم کے پسماندہ ہونے کا فائدہ اٹھایا ۔ قومی انتخابات میں جو پسماندہ طبقات ساتھ آئے تھے ان کے ساتھ تعلقات مضبوط تر کیے لیکن اکھلیش کی تعمیر و ترقی کو جھٹلانا اس کے بس میں نہیں تھا اس لیے کمنڈل کا تڑکا دینے کی خاطر شمشان اور قبرستان نیز دہشتگردی جیسے مسائل اٹھائے گئے ۔ بی جے پی کا یہ فارمولا بھی کامیاب رہا اور اسے زبردست کامیابی ملی۔ اس کے برعکس بی جے پی سے خوفزدہ ہوکر اکھلیش نے کانگریس اور بی ایس پی کے ساتھ اتحاد کرلیا لیکن وہ تینوں ناکام رہے۔ اس سے ظاہر ہوگیا یوپی میں سیاسی اتحاد اورتعمیر و ترقی اپنا اثر نہیں دکھاتے یہاں مذہب اور زات پات کی سیاست چلتی ہے ۔ اکھلیش نے پچھلی بار اپنی پارٹی کی ذات پات یا جرائم پیشہ شبیہ کو سدھارنے کی کوشش کی اور بی جے پی نے اسی کا فائدہ اٹھاکر سائیکل کی ہوا نکال دی ۔ انتخاب جیتنے کے بعد بی جے پی سے ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اس نے کیشو پرساد موریہ کے بجائے یوگی ادیتیہ ناتھ نامی غیر تجربہ کار اجڈ ٹھاکر کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سونپ دی جو منڈل اور تعمیر و ترقی دونوں کا دشمن تھا ۔ اس کے پاس کمنڈل کے سوا کچھ نہیں تھا۔

2019کے قومی انتخاب میں رافیل کے سبب بی جے پی اسی طرح بدعنوانی کے الزامات میں گھر گئی جیسے پانچ سال قبل کانگریس گھری تھی۔ ملک کی معاشی حالت دگر گوں ہوگئی تھی اور وہ نوجوان جو ’اچھے دن ‘ کے جھانسے میں قریب آئے تھے دور ہورہے تھے ۔ ایسے میں بی جے پی کے لیے تعمیر و ترقی کا کارڈ بیکار ہوگیا تھا ۔ اس نے سرجیکل اسٹرائیک کو فرقہ پرستی کا رنگ دے کر کمنڈل کو دھار دی اور نچلی سطح پر اپنی منڈل والی حکمت عملی جاری رکھی ۔ اس طرح پھر سے اترپردیش سمیت ملک بھر میں کامیاب ہوگئی۔ اس کامیابی کے بعد بی جے پی کا کمنڈل پر انحصار بڑھتا چلا گیا۔ تین طلاق، کشمیر ، سی اے اے ، رام مندر وغیرہ نے تعمیر و ترقی اور منڈل کو پسِ پردہ ڈال دیا۔ بہار کے انتخاب میں تیجسوی یادو نے بھی اکھلیش کی غلطی دوہرائی ۔ انہوں نے کانگریس اور اشتراکی جماعتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کے بعد بڑی مہارت سے نتیش کمار اور بی جے پی کو تعمیر و ترقی کے مسئلہ پر گھیرنے کی کامیاب کوشش کی۔ نوجوانوں کی بڑی کھیپ ان کے ساتھ آئی لیکن بی جے پی ذات پات اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر کامیاب ہوگئی۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ اکھلیش نے تیجسوی کی ہار سے یہ سبق سیکھا ہو کہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد اور تعمیر و ترقی یعنی مہنگائی اور بیروزگاری کو ہندوستانی رائے دہندگان بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ ان کے نزدیک ذات پات اور مذہبی جذبات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس لیے انہوں نے ذات پات کی سیاست کو پھر سے اپنایا اور ان کے جن غیر یادو پسماندہ طبقات کو بی جے پی اپنے ساتھ لے گئی تھی انہیں قریب کرنے کے لیے راج بھر یا(ایس بی ایس پی)، پٹیل (اپنادل) اور جاٹ (آر ایل ڈی) جیسی پارٹیوں کو قریب کرنا شروع کیا یعنی امیت شاہ کی اس حکمت عملی کو اپنالیا جوکسی زمانے میں سماجوادی پارٹی کی بنیاد تھی۔ فرقہ پرستی کے زہرکو بے اثر کرنے کی خاطر رام کے مقابلہ پرشورام کا نعرہ بلند کیا۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جب اکھلیش نے منڈل کا علم بلند کیا تو مودی نے اسے چھوڑ کر خود کوکمنڈل دھاری بنالیا اورایودھیا میں شیلا نیاس کرنے کے بعد بھگوا پہن کر گنگا میں ڈبکی لگائی۔ بی جے پی کے لیے اب منڈل کا کارڈ کھیلنا مشکل ہوگیا ۔ یوگی نے اپنی بدانتطامی نے عوام کی ناراضی مول لے لی اور کیشوپرشاد موریہ کو اسٹول والا نائب وزیر اعلیٰ بناکر پسماندہ طبقات کے رہنماوں کو رسوا کیا ۔ اس کا یہ نتیجہ دکھائی دے رہا ہے پسماندہ طبقات بی جے پی سے بوریہ بستر اٹھا کر فرار ہورہے ہیں۔

انتخاب سے قبل حزب اختلاف کے لوگوں پارٹی چھوڑنا قابلِ فہم ہے لیکن حزب اقتدار میں چل چلاو ناقابل یقین ہے۔ سوامی پرساد موریہ کا پارٹی چھوڑنا بی جے پی کے لیے معمولی خسارہ نہیں ہے۔ اس کے پاس کیشو پرساد موریہ ہیں اس لیے وہ پسماندہ طبقات کو ساتھ رکھ سکیں گے یہ ایک خام خیالی ہے۔ سوامی پرساد موریہ پانچ مرتبہ اسمبلی کا انتخاب جیت چکے ہیں۔ ان کو ہر بار مایاوتی نے اپنی کابینہ میں اہم عہدے پر فائز کیا اور جب اقتدار سے محروم ہوئیں تو حزب اختلاف کا رہنما بنایا ۔ سوامی پرساد پر موروثیت کو فروغ دینے کا الزام لگانے والی بی جے پی کو بتانا چاہیے کہ خود اس نے ان کے بیٹے کو اسمبلی کا ٹکٹ کیوں دیا؟ اس کے بعد قومی انتخاب میں ان کی بیٹی کو پارلیمانی انتخاب کیوں لڑایا؟ یہ بات درست ہے کہ ان کا ناخلف بیٹا اتکرش دومرتبہ انتخاب ہار گیا مگر بیٹی سنگھ مترا ایک بڑے سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو شکست دے کر ایوان پارلیمان میں پہنچیں ۔

سوامی پرساد موریہ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے اثرات ریاست کے کسی ایک حصے تک محدود نہیں ہیں ۔ وہ خود پڈرونا یعنی مشرقی یوپی سے اور بیٹی بدایوں یعنی مغربی ا ترپردیش سے کامیاب ہوئی ہیں۔ بیٹا وسطی اترپردیش سے الیکشن لڑتا رہا ہے گوکہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ سوامی پرساد موریہ کے پارٹی سے نکل جانے کا نقصان بی جے پی بہ آسانی برداشت نہیں کرسکتی اس لیے کہ انہوں نے بی جے پی سے منڈل کی لاٹھی چھین لی ہے۔ ان کے بعد یکے بعد دیگرے جو لوگ بی جے پی سے نکل رہے ہیں سب پسماندہ طبقات کو نظر اندازکرنے کاالزام لگا رہے ہیں اور ان کی تعداد 9 تک پہنچ گئی لیکن پھر ایک برہمن نے بی جے پی کا چولہ اتار پھینکا ہے۔ اب بی جے پی کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ اپنے وزیر اعلیٰ کہاں سے انتخاب لڑائے۔ پوروانچل میں برہمنوں نے ساتھ چھوڑ بی جے پی کی حالت خراب کردی تو گورکھپور اور کاشی غیر محفوظ ہوگئے ۔ مغربی اترپردیش میں جاٹ کسان ایسے جان کے دشمن بنے کہ متھرا میں کرشن جنم بھومی سے لڑنے کی ہمت جواب دے گئی اور بھاگ کے وسطی اترپردیش میں ایودھیا پہنچے تو پسماندہ طبقات نے جینا دوبھر کردیا۔ اس طرح جب لوٹ کے یوگی گورکھپور میں آئے تو اکھلیش نے طنز کیا بی جے پی نے خود ہی انہیں گھر بھیج دیا۔

بی جے پی کاشی ، متھرا اور ایودھیا کے سہارے اتر پردیش کا انتخاب جیتنا چاہتی تھی لیکن اب ان تینوں مقامات پر اس کی حالت پتلی ہو گئی یوگی نے پہلے متھرا سے منہ موڑ کر کرشن بھگتوں کو ناراض کیا کیونکہ بی جے پی کے رکن پارلیمان ہر ناتھ سنگھ یوگی کے خواب میں آکر حکم دیا تھا کہ یوگی ان کی جنم بھومی سے الیکشن لڑیں ۔ اس کے بعد یوگی نے ایودھیا سے منہ موڑ رام بھگتوں کی امیدوں کے لاکھوں چراغ بجھا دئیے۔ اب یہ رام اور کرشن کے بھگت مودی کو ضرور سزا دیں گے ۔ ویسے پہلے ہی سماجوادی پارٹی کے آئی پی سنگھ نے وزیر اعلیٰ کے لیے انتخابی نتائج کے دن لکھنو سے گورکھپور کا ہوائی ٹکٹ بنوایا ہے لیکن وہ بھول گئے کہ یوگی جی اترا کھنڈ کے رہنے والے ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ ان کو ہری دوار بھیج دیا جائے جہاں وہ دن رات دھرم سنسد کرکے اپنا بخار اتارتے رہیں ۔ 2019 میں اکھلیش یادو کی تعریف کرنے کے سبب بی جے پی سے نکالے جانے پر سماجوادی پارٹی میں آنے والے آئی پی سنگھ نے علی گڑھ میں بی جے پی دفتر کے لیےخصوصی تالہ بنانے کا بھی آرڈر دیا ہے اور بی جے پی کے لیے بہترین قفل علی گڑھ کے علاوہ کسی اور شہر میں بن ہی نہیں سکتا۔ اس دوران بی جے پی کا چانکیہ لاپتہ ہوگیا ہے اور وزیر اعظم کی حالت دھرتراشٹر کی سی ہوگئی ہے۔ اتر پردیش اسمبلی انتخابات 2022 میں کچھ لوگ یہ امید کررہے تھے وہاں بھی ’کھیلا ہوگا‘ لیکن اب تو میلہ لگ گیا اور اس نے وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ کاانجر پنجر و ڈھیلا کردیا ہے ۔ اترپردیش کی مہابھارت نہایت دلچسپ موڑ پر پہنچ گئی اور سارے ملک کی نگاہیں اس پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ یہ تو بس ایک جھانکی 2024 باقی ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449431 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.