سوچو کبھی ایسا ہوتو کیا ہو؟ مودی جب کمرے میں پہنچیں تو بھگدڑ مچ جائے

اتر پردیش کا انتخاب فی الحال عوام و خواص کے اعصاب پر سوار ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ یوپی میں تین دنوں تک لگاتا ر تین ریاستی وزراء نے استعفیٰ دے کر ہیٹ ٹرک مکمل کی اور اپنے ساتھ اتنے ارکان اسمبلی کو لے گئے کہ ایک اچھی خاصی کرکٹ ٹیم بن سکتی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ہرکوئی اس بھگدڑ کے اثرات پر غور و خوض کررہا ہے اور درمیان میں یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے چونکہ دہلی کا راستہ لکھنو سے ہوکر گزرتا ہے اس لیے حالیہ پیش رفت آئندہ قومی انتخاب پر بھی اثرا نداز ہوگی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یوپی پر ہی بی جے پی کا سب سے زیادہ انحصار ہے۔ وہاں سے اگر کمل کو بے دخل کردیا جائے تو اس کی کمر ٹوٹ جائے گی وہ گھٹنوں پر رینگنے کے لیے مجبور ہوجائے گا ۔ ایسے میں آر ایس ایس کی لاٹھی بھی اس کے کسی کام نہیں آئے گی۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سنگھ پریوار نے بی جے پی کو اترپردیش میں کسی مثبت بنیاد پر قائم نہیں کیا اور منفی رحجان پر قائم ہونے والی عمارت پائیدار نہیں ہوتی ۔ اس کو گرانے کے لیے ہوا کا ایک تیز جھونکا کافی ہوتا ہے۔ بی جے پی نے یوپی میں جو خیالی مفروضہ گھڑا تھا اس کے تاروپود بکھرنے لگے ہیں اور جھوٹ کا پردہ فاش کرکے حقیقت نمودار ہونے لگی ہے بقول ندا فاضلی؎
کہانی میں تو کرداروں کو جو چاہے بنا دیجے
حقیقت بھی کہانی کار ہو ایسا نہیں ہوتا

اتر پردیش میں بی جے پی نے سب کا ساتھ سب کا وکاس کی آڑ میں کہانی گھڑی کہ سماجوادی پارٹی کے راج میں غیر یادو پسماندہ طبقات کی حق تلفی ہوئی ہے۔ اسی طرح بی ایس پی نے غیر جاٹو دلتوں کو نظر انداز کیا۔ یہ بھرم پھیلا کر اس نے سماج کے ایک بڑے طبقہ میں ناراضی کے جذبات پیدا کیے اور کا فائدہ اٹھاکر اپنے آپ کو مضبوط کرلیا۔یہ ناراضی کا شور شرابہ ایک دو دھاری تلوار ہے۔ ماضی میں جس طرح بی جے پی نے غیر یادو پسماندہ برادری میں ایس پی اور غیر جاٹو دلتوں کے اندر بی ایس پی سے ناراضی کو بھُنا کر اپنے وارے نیارے کیے اسی طرح فی الحال ان طبقات کے اندر بی جے پی کے تئیں پائی جانے والی بیزاری سے اکھلیش یادو مستفید ہور ہے ہیں ۔ پچھلے ریاستی انتخاب سے قبل بی جے پی اقتدار میں نہیں تھی اس لیے اس کے پاس عوام کو سبز باغ دکھا کر گمراہ کرنے کی جو آزادی تھی وہ اس بار نہیں ہے۔ پچھلے ۵سالوں میں عوام اس کی چال ڈھال دیکھ چکے ہیں ۔۔ سماجوادی پارٹی بی جے پی کے خلاف پائی جانے والی بے چینی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے کیونکہ ہر بار بی جے پی ہی اس کھیل میں بازی مار لے ایسا تو نہیں ہوسکتا ؎
جو ہو اک بار وہ ہر بار ہو ایسا نہیں ہوتا
ہمیشہ ایک ہی سے پیار ہو ایسا نہیں ہوتا

اتر پردیش کی موجودہ سیاسی اتھل پتھل کے پیچھے کوئی نظریاتی اختلاف کارفرما نہیں ہے۔ بی جے پی نے اپنی حکمت عملی میں میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کی کہ جس سے این ڈی اے میں شامل جماعتوں کو کوئی نئی دقت پیش آرہی ہواور ان کے لیے کمل کے ساتھ چلنا مشکل ہوگیاہو۔ تین سال قبل سرجیکل اسٹرائیک کے بعد سے بی جے پی نے جو رخ اختیار کیا اس پر مسلسل آگے بڑھتی جارہی۔ اس کے اندر سے کسی نے اس پر کوئی اختلاف نہیں کیا لیکن اب اچانک کئی لوگوں نے اپنی راہ کیوں بدل دی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے ان رہنماوں کی بی جے پی میں شمولیت یا ان جماعتوں این ڈی اے سے الحاق کسی نظریاتی بنیاد پر نہیں تھا۔ ان کو بی جے پی کے اقتدار کی کشش کھینچ کرلائی تھی اور وہ لوگ اقتدار میں حصے دار بن کر اپنے ذاتی یا قومی (نسلی ) مفاد کی خاطر آئے تھے ۔ وقت کے ساتھ پارٹی اورمودی کی قیادت سے رائے دہندگان بیزار ہونے لگے اور ان دونوں کی عدم مقبولیت نے بی جے پی کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان مفقود کردیا اس لیے جو موقع پرستی ان چھوٹی موٹی جماعتوں کو بی جے پی کے قریب لائی تھی انہیں دور لے کر جارہی ہے۔ اس میں حیرت و تعجب کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ بی جے پی سے مایوس ہوکر پالا بدلنے والوں کی حالت اس شعرکی مصداق ہے؎
کہیں تو کوئی ہوگا جس کو اپنی بھی ضرورت ہو
ہر اک بازی میں دل کی ہار ہو ایسا نہیں ہوتا

اتر پردیش میں فی الحال جو کچھ ہورہا ہے 2024 سے قبل اسی طرح کی بھگدڑ کا دائرہ وسیع تر ہوسکتا ہے یعنی جس طرح پہلے ٹی ایم سی کے لوگ لوٹ گئے اور اب بی ایس پی کے واپس جارہے ہیں اس طرح مختلف ریاستوں میں دیگر جماعتوں سے بی جے پی میں آنے والے رہنما گھر واپسی کر سکتے ہیں۔ اس کی شروعات اتراکھنڈ میں ہوچکی ہے ۔ وہاں پر وزیر ٹرانسپورٹ یشپال آریہ نے وزرات اور بی جے پی سے استعفیٰ دے کر کانگریس میں لوٹنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یشپال آریہ پانچ مرتبہ کانگریس اور ایک بار بی جے پی کے ٹکٹ پر انتخاب جیت چکے ہیں ۔ پچھلی بار جب کانگریس پارٹی نے ان کے بیٹے سنجیو آریہ کو ٹکٹ دینے سے انکار کردیا تو موروثیت کی مخالفت کرنے والی بی جے پی نے باپ بیٹے دونوں کو ٹکٹ سے نواز کر اپنی منافقت کا ثبوت دیا ۔ اس کے بعد یشپال آریہ کو وزیر بھی بنایا گیا لیکن اب انہیں احساس ہوگیا کہ دوبارہ انتخاب جیتنے کی خاطر اس ڈوبتے جہاز سے نکل کر بھاگنا ضروری ہے اس لیے وہ اپنے بیٹے سمیت کانگریس میں لوٹ آئے۔

اتراکھنڈ میں پچھلے دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی ضمنی انتخاب میں پارلیمانی اور اسمبلی دونوں جگہ ناکام رہی اس وقت سے ماحول بدل گیا ۔ پچھلے صوبائی الیکشن سے قبل بی جے پی کے کابینی وزیر ہرک سنگھ راوت نے اپنے۹ ساتھیوں کے ساتھ کانگریس سے بغاوت کرکے چولہ بدل لیا تھا اور حکومت گرادی تھی ۔ اس کے بعد بی جے پی الیکشن جیت گئی۔ اس بار پھر ہرک سنگھ راوت نے انتخاب سے قبل کابینہ سے استعفی دے دیا جسے پہلے توقبول نہیں کیا گیااور منانے کی کوشش کی گئی لیکن جب بات نہیں بنی تو اسےمنظور کرلیا گیا۔اس کے بعد مضحکہ خیز انداز میں پارٹی کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے سبب پارٹی سے نکال باہر کرنے کی بات کی گئی۔اس پر ہرک سنگھ راوت نے کہا کہ آج وہ منہ چھپانے کے لیے کچھ بھی کہتے رہیں۔ جس دن میں نے منہ کھولا، ملک کی سیاست میں بہت بڑا دھماکہ ہو جائے گا۔ میرا اخلاقی فرض ہے کہ میں کچھ نہیں کہہ رہا۔

ہرک سنگھ نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے امیت شاہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ انہوں نے وہ وعدہ پورا کیا۔اب ان کے ذہن سے بوجھ ہلکا ہو گیا ہے ۔ پارٹی سے نکلنے کے بعد بی جے پی پر حملہ کرتے ہوئے ہرک سنگھ راوت نے کہا کہ اگر میں بی جے پی میں شامل نہ ہوا ہوتا تو 4 سال پہلے ہی بی جے پی چھوڑ دیتا۔ مجھے کسی وزارتی عہدے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ میں صرف کام کرنا چاہتا تھا۔ میں اب کانگریس پارٹی سے بات کروں گا، اتراکھنڈ میں کانگریس کی حکومت مکمل اکثریت کے ساتھ آنے والی ہے۔ گوا میں بھی بی جےپی نے اقتدار گنوانے کے بعد کانگریس کے ارکان کو توڑ کر حکومت بنائی تھی ۔ ان باغیوں میں سے ایک دیہی ترقی کے وزیر مائیکل لوبو بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس میں لوٹ چکے ہیں۔ وہاں تو خیر بہت جلد انتخابات ہوں گے اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا لیکن اگر کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں آئندہ سال انتخاب سے قبل کانگریسی لوٹ گئے تو بی جے پی کو بہت بڑا جھٹکا لگے گا اس لیے کہ جو لوگ اقتدار کی خاطر کانگریس سے بی جے پی میں جانے والے لوٹ کر بھی آسکتےہیں؟ ملک کی کچھ ریاستوں میں تو بی جے پی نے اپنے بل پر حکومت بنا رکھی ہے ان میں اس کو خطرہ نہیں ہے لیکن یہ چل چلاو ان صوبوں میں مشکلات کھڑی کرسکتا ہے جن میں اس نے دوسری پارٹیوں کے ارکان کو خرید کر مثلاً گوا ، کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں حکومت بنارکھی ہے۔ ان ریاستوں میں کانگریسیوں کی گھر واپسی بی جے پی کو بہت مہنگی پڑے گی۔
 
ہریانہ میں بھی بی جے پی کی نیاّ ڈوب سکتی ہے جہاں اس نے جے جے پی سے الحاق کرکے حکومت سازی کی ہے۔ وہاں پچھلا انتخاب دشینت چوٹالہ نے بی جے پی اور کانگریس کے خلاف لڑا تھا۔ا لیکشن کے بعد جب بی جے پی نے اکثریت گنوادی تو اپنے والد اوم پرکاش چوٹالہ کو جیل سے چھڑانے کی خاطر دشینت نے بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا۔ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ کسان تحریک کے بعد مغربی اترپردیش سے لے کر پنجاب تک بی جے پی کی کیا درگت بنے گی ؟ مرکزی حکومت کے تئیں کسانوں کے اندر پائی جانے والے شدید غم غصے نے دشینت چوٹالا کی چولیں ہلادی ہیں ۔ وہ اپنے آبائی گاوں میں نہیں گھس پارہے ہیں، ہر بار جب اپنے لیے ہیلی پیڈ بنواتے ہیں کسان اس کو کھود کر چلے جاتے ہیں۔ اس کیفیت کو زیادہ دنوں تک نہیں جھیلا جاسکتا۔ اس بات کا امکان ہے کہ وہ کسی بھی وقت بی جے پی کی ناو ڈبو کر کانگریس کی کشتی میں سوار ہوجائیں ورنہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ ویسے چوٹالا کی قسمت آزمائی اس شعر کی مانند ہوسکتی ہے؎
ہر اک کشتی کا اپنا تجربہ ہوتا ہے دریا میں
سفر میں روز ہی منجدھار ہو ایسا نہیں ہوتا

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451703 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.