نیا صوبہ کیوں نہیں بنتا!

 پنجاب کے اندر نیا صوبہ کس کی ضرورت ہے،عوام کی یا سیاستدانوں کی؟ سادہ جواب تو یہی ہے کہ دونوں کی، ہے بھی ایسا ہی۔ مگر اس کا استعمال مختلف ہے، عوام اپنی پریشانیاں کم کرنے کے لئے صوبہ چاہتے ہیں، جنوبی پنجاب والے ساڑھے چھ سو کلو میٹر سے زیادہ سفر کرکے اپنے مسائل کے حل کے لئے لاہور پہنچتے ہیں، اُن کی اکثریت لاہور میں اجنبی ہوتی ہے۔ دفاتر سے روایتی پیشی مل جاتی ہے، طنز کے ساتھ تضحیک کا تڑکا بھی لگا دیا جاتا ہے،سائل بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں واپس پلٹنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں پاتا۔ ایک عام آدمی کا اس سفر پر خرچ کتنا اٹھتا ہے، وقت کس قدر لگتا ہے؟ ان باتوں کا احساس کبھی لاہور کے دفاتر میں بیٹھے ہوئے چھوٹے سے بڑے بابوؤں کو نہیں ہوا۔ یہی رویہ لاہور میں بیٹھے حکمرانوں کا ہوتا ہے، ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ اِن پسماندہ علاقوں کے جو منتخب نمائندے لاہور اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں وہ بھی نمک کی کان میں جا کر نمک ہو جاتے ہیں۔ صوبہ سیاستدانوں کی ضرورت یوں ہے، کہ صوبے کا نعرہ لگانے سے انہیں ووٹ ملتے ہیں۔

ستم کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، جنوبی پنجاب کے بہت سے سیاستدانوں کو اقتدار کا کلاہ پہننے کا اتفاق بھی ہوا، اقتدار و اختیار کی یہ فہرست طویل بھی ہے اور اہم بھی، فاروق خان لغاری صدرِ پاکستان رہے تو یوسف رضا گیلانی وزیرِ اعظم کے عہدہ پر متمکن رہے، غلام مصطفےٰ کھر کے پاس پنجاب کی پگ گورنری کی صورت میں بھی رہی اور انہیں وزیراعلیٰ بننے کا موقع بھی ملا، شاہ محمود قریشی کے والدِ گرامی مخدوم سجاد قریشی پنجاب کے گورنر رہے، یوسف رضا گیلانی قومی اسمبلی کے سپیکر رہے، انہی کے کزن مخدوم احمد محمود بھی پنجاب کے گورنر رہے، ملتان سے صاحبزادہ فاروق بھی قومی اسمبلی کے سپیکر رہے، سید فخر امام قومی اسمبلی کے سپیکر رہے، سردار ذوالفقار کھوسہ بھی گورنر رہے، اب تو جنوبی پنجاب والوں کو خوش ہونا چاہیے کہ اُن کے علاقے سے تعلق رکھنے والا بزدار سردار پاکستان بھر کے وزرائے اعلیٰ میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔ وزارتیں اور مشاورتیں ان کے علاوہ ہیں۔ مگر مجال ہے کہ جنوبی پنجاب کے اِن بڑے لوگوں نے اپنی زمین پر رینگنے والی رعایا کے لئے بھی کچھ کیا ہو۔ عہدوں سے لطف اندوز ہوتے رہے، علاقوں کے دورے پر آئے بھی فاتح کی طرح، اپنے مفتوحہ علاقوں پر اپنی دھاک بٹھانے۔

استحصال اور بے حسی کی داستان اور بھی طویل ہے، کہ اِن اور انہی جیسے دیگر نامور سیاستدانوں کے اسمبلیوں میں ہوتے ہوئے بھی جنوبی پنجاب کے فنڈز لاہور استعمال ہوتے رہے، جنوبی پنجاب کے لئے کسی بڑے پراجیکٹ کی منظوری ہوئی، کام ادھورا چھڑوا کر لاہور کے منصوبوں کی تکمیل کا اہتمام ہونے لگا، ایسا بھی ہوا کہ منصوبے منظور ہونے کے بعد ہی انتظار کی سولی پر لٹکا دیئے گئے، فنڈز لاہور کی تزئین و ارائش اور ترقی وغیرہ پر لگتے رہے۔ یہ نمائندے اپنے پارٹی مالکان کی چاپلوسی کرتے یا اپنا حق مانگتے؟ حق مانگنے کے لئے جرات چاہیے، وہ کہاں سے آتی کہ غلامی کے خوگر تھے، ’مالکان‘ کی خیرات (ٹکٹ) پر کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ یوں جنوبی پنجاب کے عوام نے مرکز سے بہت دوری کی سزا بھی پائی اور نااہل اور کمزور نمائندے بھیج کر اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی چلائی، گِلہ کریں تو کس سے ، شکایت کریں تو کیا؟یہ سب کچھ اپنا ہی کیا دھرا ہے۔

صوبے کے قیام کا مطالبہ ایک ایسا ایشو ہے، جس پر سیاست کا بازار ہمیشہ گرم ہی رہتا ہے، لوگ ’’تخت لاہور کی قید‘‘ سے پہلے ہی نالاں ہیں، چنانچہ سیاستدان عوام کی اس مجبوری اور کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جب عوام کی ہمدردیوں کی ضرورت پڑتی ہے تو صوبے کے قیام کا عَلَم اٹھاکر میدان میں نکل آتے ہیں، اسے عوام کا بھولپن کہیے یا بے وقوفی (کہا جاتا ہے کہ اب عوام کو بے وقوف بنانے کا کسی کو موقع نہیں دیا جائے گا)یا پھر سادگی کہ وہ ہر مرتبہ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے پہنچ جاتے ہیں، جس کے سبب بیمار ہوئے ہوتے ہیں۔ گزشتہ قومی الیکشن میں بھی بہت سے ’رحمدل‘ سیاستدانوں نے غریب عوام کے حقوق کے لئے صوبے کے قیام کے نام پر اکٹھ کیا تھا، اپنے گروپ کو الیکشن سے چند روز ہی قبل پی ٹی آئی میں ضم کر لیا تھا، یہ سب ’’الیکیٹ ایبلز‘‘ تھے، منتخب ہونے کے بعد ’وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘ کے مصداق سیاستدانوں کے اصلی حربے کے مطابق خاموشی کی بُکل مار کے بیٹھے رہے۔

اب اگلے الیکشن کی تیاری زیادہ دور نہیں، دور اندیش اور کامیاب سیاستدانوں کی یہ علامت ہے، کہ وہ بہت پہلے ہی اپنے کام کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں، اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، سید یوسف رضا گیلانی کو بھی صوبہ چاہیے، اور ہر قیمت پر چاہیے، شاہ محمود قریشی بھی صوبے کے طلبگار ہیں، مسلم لیگ ن بھی صوبہ چاہتی ہے۔ تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے نہ صرف سخت حامی ہیں، بلکہ علمبردار بھی ہیں، یہ سب لوگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں، مگر یہ راز ابھی تک فاش نہیں ہو سکا کہ آخر رکاوٹ کون سا دشمن ڈال رہا ہے، اِن نیک دل اور صاف گو لوگوں کی نیت پر شک کرنا تو گناہِ کبیرہ کے زمرے میں آتا ہے، تو وہ کون ہے جو اِن صاحبانِ اقتدار اور قائدینِ حزبِ اختلاف کو سازشوں کے جال میں الجھا رہا ہے؟ جو سیاسی جماعتیں عوام میں ذرا کم پذیرائی رکھتی ہیں، وہ بھی الگ صوبے کی حامی ہیں۔

موجودہ حکومت نے جنوبی پنجاب کے لئے الگ سیکریٹریٹ قائم کرکے عوام کو لولی پاپ دینے کی کوشش تو کی ہے، مگر ابھی تک خود حکمرانوں کو سمجھ نہیں آئی کہ نظام کیسے چلانا ہے، عوام کو کیسے سمجھ آئی گی ؟ ویسے بھی جب ڈوری لاہور سے ہی ہلے گی، تو اتنے اخراجات کرنے کا کیا فائدہ؟ ابھی تو افسران کی آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ جنوبی پنجاب کی کہانی اپنی جگہ، بہاول پور والے اپنے صوبے کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں، بہاول پور وہ ڈویژن ہے، جس میں قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک تین اضلاع ہی چلے آرہے ہیں۔ یہاں نئے اضلاع کی بھی ضرورت ہے اور نئے صوبے کی بھی۔ مگر سیاستدان عمل کی بجائے صرف نعرے لگانے پر اکتفا کرتے ہیں، اگر نعرے لگانے سے ہی عوام انہیں ووٹ دے دیتے ہیں تو انہیں عمل کی ضرورت ہی کیا ہے، اور جب عوام صرف نعرے لگانے والوں کو ووٹ دیتے ہیں تو عمل کی توقع ہی کیوں رکھتے ہیں؟
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472682 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.