وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں عوام کی ٹیلی فون
کالزکا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگرحکومت سے نکل گیا تو میں اس سے زیادہ
خطرناک ہوں گا ،میرے سڑکوں پر نکلنے سے آپ کو چھپنے کی جگہ بھی نہیں ملے گی
‘‘ان کی یہ دھمکی گویا ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کا ایک اشارہ ہے جس
کا ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔ان کے متذکرہ بالا ارشادات و جذبات سے
سیاسی منظر نامے پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ۔’’حکومت سے نکل گیا تو
۔۔؟جیسے الفاظ واضع طور پراپوزیشن سمیت ان قوتوں کو ایک دھمکی ہے ۔جو قیام
پاکستان سے لے کر اب تک ملک میں سیاسی جوڑ توڑکی محرک رہیں ۔ گذشتہ 70برس
سے جاری اس کھیل سے پاکستان کے سادہ لوح عوام ماضی میں ناآشنا تھے یا وہ اس
بات کو سمجھنا ہی نہ چاہتے تھے کیونکہ ان کی نظر میں ملک وملت کی’’ محافظ
قوتیں‘‘ حقیقی معنوں میں ملک وملت کی خیر خواہ اور محب وطن ہیں ۔یہی وجہ ہے
کہ جب بھی سیاسی جمہوری حکومتوں کو اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تو عوام
وخواص کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی اکثریت نے بھی محض اپنے مفاداور اپنے
کرتوتوں کو چھپانے کیلئے انہیں خوش آمدید کہا اور عدالتوں نے بھی تما م تر
ّغیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دے کر یہ ثابت کیا کہ ان لوگوں کایہ ا
قدام عین ملکی سلامتی و استحکام کے لئے ناگزیر تھا ۔اس حقیقت سے انکار نہیں
کیا جا سکتا کہ اسکندر مرزا کے بعد فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ،جنرل آغا
محمدیحییٰ خان ،سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرو عوامی وزیر اعظم
ذوالفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء الحق شہید ، میاں نواز شریف ، محترمہ بے
نظیر بھٹو شہید ، جنرل پرویز مشرف ،صدر آصف علی زرداری ، شوکت عزیز ،چوہدری
شجاعت حسین اور آخر میں عمران خان سبھی لیڈران امریکہ اور ’’خیر خواہان ِ
ملت‘‘ کی مرضی ومنشاء سے اقتدار کا جھولا جھولتے رہے ۔ ان میں سے صرف فیلڈ
مارشل ایوب خان ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومتوں کو
دس گیارہ سال حکومت کرنے کا موقع فراہم کیا گیا ۔اور کبھی قومی سلامتی کا
کوئی ایشو پیدا نہیں کیا گیا ۔جبکہ تمام جمہوری حکومتوں کو 3 سے6 سال بعد
ملکی سلامتی و استحکام کے کیلئے خطرناک قرار دے کر فارغ کیا جاتا رہا۔ہر
جمہوری حکومت کو نا اہل ثابت کرکے ’’صدارتی نظام‘‘ کی راہ ہموار کی جاتی
رہی، میاں نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ کے ساتھ وزیراعظم بنانے والی قوتوں نے
بالآخرانہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا ۔میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے
دورحکومت میں برملا اس بات کا اعلان کیا تھا کہ وہ استعفیٰ دیں گے نا ہی
اسمبلی توڑیں گے اور ناہی کسی کی ڈکٹیشن لیں گے لیکن تقریباً 2ماہ بعد ہی
انہیں اس قدر مجبور کر دیا گیا کہ انہوں نے اسمبلی توڑ دی ،استعفیٰ بھی دیا
اور ڈکٹیشن بھی لی ۔جبکہ تیسری مرتبہ حکومت سے نکالے جانے کے بعد وہ بدستور
اس بات کا واویلا کرتے رہے کہ ’’مجھے کیوں نکالا ۔؟‘۔ جس کا جواب انہیں کسی
نے آج تک نہیں دیا ۔حالانکہ وہ اچھے سے جانتے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا گیا
۔میاں نواز شریف کو یہ بات نہیں بھولنا چاہئے کہ جو قوتیں انہیں بھاری
مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار دلا سکتی ہیں وہ انہیں نکال بھی سکتی ہیں ۔وزیر اعظم
عمران خان کے اقتدار سنبھالتے ہی بعض حلقوں نے انہیں یہ بات کہی تھی کہ وہ
ماضی میں حکومتوں کی تبدیلی کے منظر نامے سے سبق حاصل کریں اور عوام کی
توقعات کے مطابق اپنے دور اقتدار میں کچھ نہ کچھ ڈیلیور ضرور کریں لیکن وہ
اس میں ناکام رہے ۔ان تین سالوں میں حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر
عمران خان کو اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تو انہیں کہیں جائے پناہ بھی
نہیں ملے گی ۔اگر وزیر اعظم کی حیثیت سے انہوں نے عوام پر مہنگائی کا عذاب
مسلط نہ کیا ہوتا ۔یوٹیلٹی سروسز بجلی ،گیس،پیٹرول سمیت ضروریات زندگی پر
ٹیکسز لگا کر انہیں عوام کی قوت خرید سے باہر نہ کیا ہوتا تو ممکن تھا کہ
اقتدار سے نکالے جانے کے بعد وہ مقتدر قوتوں کے خلاف کسی تحریک کا آغاز
کرتے تو عوام کاایک ہجوم ان کے ساتھ ہو لیتا اور وہ اپنے مخالفین کے لئے
واقعی ’’خطرناک ‘‘ ثابت ہوتے ۔لیکن حالات اس طرف جا رہے ہیں کہ عوام و خواص
’’خان ِ اعظم ‘‘ سے سخت نالا ں و بیزار ہیں ۔انہیں اپنے بارے میں خطرناک
ہونے کے حوالے سے زیادہ خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کو
غرور اور تکبّر پسند نہیں ۔اس بات سے لوگ اچھی طرح آگاہ ہیں کہ وزیر اعظم
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے خلاف چلنے والی تحریک کے موقع پرپاکستان ٹیلیوژن
پر اپنے خطاب میں عوام کو مخاطب کرکے اور اپنی کرسی ہلا کر یہ کہا تھا کہ’’
میں مضبوط نہیں ہوں لیکن یہ کرسی بہت مضبوط ہے ،میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ
سکتا ‘‘۔یوں غرور او رتکبّر میں ادا کئے گئے ان الفاظ کے چند دن بعد ہی
انہیں اقتدار سے محروم کر دیا گیا ۔ذوالفقار علی بھٹو نے وزیر اعظم کی
حیثیت سے 7جنرلز کو’’ سپر سیڈ‘‘ کرکے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا تھا
،لیکن اسی آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے انہیں وزیر اعظم ہاؤس سے اٹھوا کر
مری ریسٹ ہاؤس میں پہنچا دیاتھا ۔بعد ازاں بھٹو کے ساتھ جو کچھ ہوا ،قوم
اور سیاسی مداریوں کو سب کچھ اچھے سے یاد ہے ۔اس لئے وزیر اعظم عمران خان
کو اپنے اندر سے غرور ،تکبر اور فرعونیت کو نکال باہر کرنا ہوگا ۔میاں نواز
شریف کو ملکی معاشی و اقتصادی تباہی کا ذمہ دار قرار دینے والے ’’خانِ اعظم
‘‘کو ایک لمحے کو اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہئے کہ انہوں نے گذشتہ3
سالوں میں خود ملک و ملت کے ساتھ کیا کیا ہے ۔کیا عمران خان حکومت میں اس
لئے آئے تھے کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کر عوام کا تماشا دیکھیں ۔سابقہ
حکومت کو تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہرائیں اور نواز شریف چور ،وزیر
اعظم چور کا گیت سناتے 3 سال گذار دیں ۔عمران خان نے عوام کو مایوسی کی اس
دلد ل میں دھکیل کر رکھ دیا ہے کہ جہاں سے قوم مزید 20 سال نکل نہیں پائے
گی ۔موجودہ حکومت کی طرف سے مہنگائی کے سونامی نے ہماری اخلاقی اقدار کا
جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے ۔لوگوں کیلئے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو
چکا۔لوگ اپنی عزتوں کو نیلام کرنے پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں ۔دیکھا جائے تو
’’ خان اعظم‘‘ اقتدار کے کوچے سے جب بھی نکالے جائیں گے ،یقینابے آبرو و
رسوا ہو کر ہی نکلیں گے اور انہیں یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ اپنے
کارناموں کے سبب اقتدار سے علیحدگی کے بعد ان کا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دے گا
۔اگر انہوں نے کچھ ڈیلیور کیا ہوتا تو ایک ہجوم ان کے ساتھ سڑکوں پر ہوتا
لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ۔اب تو انہیں بپھرے ہوئے عوام سے خود کو بچانا ہوگا
۔کیونکہ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام اب زخمی سانپ کی طرح خودخطرناک ہو چکے
ہیں۔ ’’خان اعظم ‘‘کو یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ جو قوم ذوالفقار
علی بھٹو یا میاں نواز شریف کو بچانے کیلئے سڑکوں پر نہیں آئی ،وہ ان کا
ساتھ بھی ہرگز نہیں دے گی ۔مقام افسوس ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار
میں لا کر مقتدر قوتوں نے ملک وملت کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔موجودہ اقتصادی و
معاشی بحران کی ذمہ داروہی قوتیں ہیں کہ جو قومی سلامتی کے نام پر اقتدار
کے مہرے تبدیل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔
|