صحافتی تنظیموں میں الیکشن یا سلیکشن

وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں شعبہ ہائے زندگی میں ترقی و تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہاں صحافتی شعبہ نے بھی نہ صرف ترقی کی بلکہ ایک خاص مقام حاصل کرلیا ہے، جدید ٹیکنالوجی سے اس شعبہ کو استوار کیا اور اب پاکستان میں بھی پل بھر میں کوئی بھی خبر عوام الناس کے سامنے شعبہ ابلاغ کے جدید نظام کے تحت پہنچ جاتی ہے۔ جن میں براڈ کاسٹ ریڈیوز، ایف ایم ریڈیوز، موبائلز، انٹر نیٹ اور سب سے تیز تر ٹیلیویژن نیٹ ورک ذرائع شامل ہیں۔ایک وقت تھا کہ پاکستان میں صرف ایک ٹیلیویژن گورنمنٹ تحویل میں کام کررہا تھا جس پر بے انتہا حکومتی بندشیں وارد تھیں پھر وقت آیا جنرل مشرف کا ،اُس نے فوجی افسر ہونے کے با وجود پاکستانی قوم کیلئے آزادی اظہار کا مکمل حق دیا جو آج پورے پاکستان میں نجی چینلز کی صورت میں نظر آرہے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی ہے کہ جب بھی جمہوری حکومتیں بنی ہیں انھوں نے میڈیا کو پابند کرنے کی تمام تر کوششیں رکھیں۔۔۔۔۔ آج کا نیوز اینکر ہو یا رپورٹریا پھر کالم کار یا تجزیہ نگار یا کیمرہ مین صحافی اُس نے اپنے سچے، مخلص اور ایماندار سینئرز سے جو سبق سیکھا اس پر ڈٹے رہے یہی وجہ ہے کہ بے ایمان ، جھوٹے لوگ ان صحافیوں سے خائف رہتے ہیں، نیک ،سچے ایماندار صحافی اپنی پیشہ وارانہ ذمہداریوں میں کسی طور پر بھی سودے بازی کے قائل نہیں لیکن اسی اعلیٰ پیشہ میں کچھ ایسے لوگ بھی داخل ہوگئے ہیں جن کی نیتیں اچھی نہیں جو راتوں رات دولت مند بننا چاہتے ہیں وہ مختلف ذرائع بھی استعمال کرتے ہیں اورصحافتی برادری میںاختلافات کی فضاءبھی پیدا کرتے ہیں ، ان میں چند ایک ایسے بھی ہیں جنھوں نے صحافتی برادری میں تنظیمی الیکشن کو سلیکشن میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہیں، ان حالات سے حقدار نمائندگان کامیابی سے محروم رہتے ہیں اور اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ شریف النفس نام نہاد الیکشن میں کاغذات نامزدگی بھی جمع نہیں کراتے۔۔۔۔۔پاکستان فیڈریشن یونین جنرنلسٹ (پی ایف یو جے)، کراچی پریس کلب( کے پی سی) اور کراچی یونین آف جنرلسٹ (کے یو جے ،برنا)، ایسوسی ایشن آف ٹیلیویژن جنرلسٹ( اے ٹی جے) نے ایسے لوگوں پر سخت نظر رکھی ہوئی ہے اسی لیئے ان تنظیموں اور کلبوں میں آج بھی باقائدہ الیکشن کے نظام کو شفاف انداز میں قائم رکھا ہے۔۔۔۔۔۔ جبکہ ایک صحافتی تنطیم نے اپنے ممبران کی تعداد بڑھانے کیلئے تمام قوائد و ضوابط کو سبوثاز کررکھا ہے اُس رجسٹرڈ صحافتی تنظیم میں مشارت کا بہانہ کرتے ہوئے سلیکشن کو فوقیت دی جاتی ہے اور من پسند دوستوں کو کامیاب ٹھہرایا جاتا ہے ، بحرکیف اس تنظیم کے ان عوامل کا نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کہ یہاں چند لوگوں کا قبضہ ہے جنہیں صحافتی برادری میں کام سے زیادہ دوستی نبھانا مقصود ہے، اسی وجہ سے یہ صحافتی تنظیم صحافتی برادری کے جائز کام بھی نہیں کر پارہی ہے جبکہ دکھنے میں آیا ہے کہ حکومتی اعانت اور مفادات کی پالیسی کو اپنایا جارہا ہے۔۔۔ صحافی حضرات اس معاشرے کا اہم جز کہلاتے ہیں اور انہیں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، الحمدللہ صحافیوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے دوران ہر ظلم و ستم سہا ہے اور اپنی جانوں کا بھی نذرانہ پیش کیا ہے ، ایسے عظیم پیشہ میں اس طرح کا کاروائیاں کوئی اچھے نتیجہ کا پیش خیمہ نہیں۔۔۔اس تنظیم نے اپنے ووٹروں کی تعداد کو وسیع کرنے کیلئے میڈیا کے ایسے لوگ بھی ممبر بنا لیا ہے جن کا صحافت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں اور ان کی بلا وجہ مداخلت پر آج تک کراچی پریس کلب کی اسکروٹنی نہیں ہوسکی ہے اور ہزاروں مستحق صحافی حضرات کراچی پریس کلب کی ممبر شپ سے آج بھی محروم ہیں ۔۔۔ اس تنظیم کے گروہ نے نہ صرف اپنی تنظم میں بلکہ کراچی پریس کلب کی شق کو بھی ضرب لگائی ہے ، ہمارے سینئرز صحافی حضرات پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صحافتی تنظیموں کے طریقہ کار کو درست کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور جن کا تعلق صحافت سے نہیں ہے ان کی ممبر شب کے خاتمے کیلئے لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے ان صحافیوں کی ممبر شب کا فی الفور عمل پزیر کیا جائے جو واقعی صحافت سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کی خدمات صحافت میں جاری و ساری ہو۔اپنے نجی اختلافات کو بھلا کر صرف اور صرف صحافتی برادری اور صحافتی تنظیم کی بقاءکیلئے بہتر عمل اختیار کریں بصورت صحافتی اپنی آپ کو غیر محفوظ اور کمزور سمجھنے لگے گا اور پھر بیرونی طاقتیں صحافتی حلقوں میں نا اتفاقی پیدا کرتی رہیں گی اور صحافتی لوگ و تنظیمیں بھی اپنا حق لینے کیئے معذور بن جائیں گی ۔۔۔۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ صحافتی تنظیموں کی از سر نو اسکروٹنی کی جائے اور تمام تنظیموں کو صحافی برادران کے جائز حقوق بشمول ممبر سازی کے عمل کو شفاف بنایا جائے تاکہ کوئی بھی صحافی محروم نہ رہ سکے۔یاد رہے مشاورت کا سب سے بہتر اعلیٰ طریقہ کار الیکشن میں ہے الیکشن کے ذریعے ہر ووٹر اپنی رائے اور پسند سے نمائندہ کو منتخب کرتا ہے یہی طریقہ مہذب بھی ہے اور اسلامی بھی۔۔۔ اس الیکشن کے طریقہ سے جس میں ووٹنگ کا سلسلہ ہو اس میں نومینیشن فارم بھرنے والا نمائندہ نہایت مطمعین رہتا ہے ہار اور جیت دونوں پر۔۔۔۔ ہماری آنی والی نئی نسل کیلئے ہمیں آج اپنے اندر صحافتی تنظیموں کی خامیوں کو دور کرنا ہے تا کہ نئی نسل صحیح اور سچے نظام کو پاکے بہتر انداز میں صحافتی پیشہ وارانہ خدمات پیش کرسکیں اور اس ملک و قوم کیلئے بہتر مثبت ثابت ہوں ۔
Jawed Siddiqui
About the Author: Jawed Siddiqui Read More Articles by Jawed Siddiqui: 310 Articles with 299433 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.