خون کی بارش

 ایک وقت تھا جب مصر میں مشہور ڈانسر فیفی عبدو کا طوطی بولتا تھا اس کی ایک ایک ادا اور اشارے پرلوگ قربان ہوہوجاتا کرتے تھے وہ بہت باا اثر خاتون تھی حکومتی ایوانوں سے بزنس کلاس تک فیفی کے ٹھمکوں کی زد میں تھے۔ آج پاکستان اور بھارت ،کئی خلیجی ممالک میں نہ جانے کتنی جل پریوں نے اپنے حسن کے لشکاروں سے بارسوخ شخصیات کی آنکھوں کو چندھیا کررکھ دیاہے پاکستان میں صندل خٹک،حریم شاہ ،ایان علی اور اس مزاج اورقماش کی عورتوں کی کہی ان کہی کہانیاں ہرزد ِعام ہیں جنہیں لوگ چٹخارے لے لے کر بیان کرتے ہیں یہ 1998 ء کی ایک شام کاذکر ہے جب فیفی عبدو نے قاہرہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں اپنے جلوے دکھانے کے بعد تھک گئی منورنجن کے لئے اس نے بار کا رخ کیا پھرشراب کے پیگ پرپیگ پینے کی وجہ سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھی الٹی سیدھی حرکتیں کرنے کے بعد اس نے بار میں ہنگامہ کھڑا کر دیاکپڑے اتارپھینکے لوگ اس کی حرکتوں سے محظوظ ہونے لگے عام حالات میں جن لوگوں کووہ اپنے پاس پھٹکنے کی اجازت نہیں دیتی تھی وہ بھی حیلوں بہانوں سے بے حسن ِ بے حجاب ہونے پراس کو سہارا دینے کی کوشش کررہے تھے ، ہوٹل میں وی آئی پیز کی سکیورٹی پر مامور پولیس آفیسر فوری وہاں پہنچ گیا،اس نے بڑے مودبانہ انداز میں فیفی سے کہا کہ آپ ایک مشہور شخصیت ہیں اس طرح کی حرکتیں آپ کو زیب نہیں دیتی۔ فیفی عبدو نے اس کوگالیاں دینا اوربدتمیزی شروع کردیں یہ آفیسر خوش مزاجی اور خوش اخلاقی کیلئے مشہور تھے اس ہوٹل میں قیام کرنے والی اہم شخصیات انہیں پسند کرتی تھیں کہ وہ ایک فرض شناس آفیسر تھے۔ فیفی عبدو بے ہنگم اندازمیں لہک،لہک اور مٹک مٹک کر ڈانس کرناشروع کردیا تھا پولیس آفیسرنے بڑی مہذب اندازمیں سمجھاناچاہا لیکن ام الخبائث نے فیفی عبدو کے دل ودماغ پر قبضہ کررکھاتھا اسے پولیس آفیسر کی مداخلت پسند نہ آئی اس نے نشے کی حالت میں ہی اعلی ایوانوں کا نمبر گھمایا اور پولیس آفیسر کا کہیں دور تبادلہ کروادیا۔
جب فیفی عبدو کا نشہ اترا اس کی ایک ملنے والی نے اسے گذشتہ روز کا تمام ماجرا سناتے ہوئے اس کی کارستانیوں کی موبائل ویڈیو دکھائی فیفی عبدو نے کو اپنے کئے پر بے حدپشیمانی ہوئی اس نے ہوٹل انتظامیہ سے پولیس آفیسر کے متعلق پوچھا اسے بتایا گیا کہ آپ نے اس کا تبادلہ کروایا ہے فیفی نے فون گھمایا اور اسی بااثرشخصیت کو پولیس آفیسر کو واپس ہوٹل رپورٹ کرنے کا حکم دیا۔
پولیس آفیسر نے متعلقہ وزیر کو اپنا استعفیٰ پیش کردیاان دنوں وجدی صالح وزیر ہوتے تھے وزیر نے حیرت سے پولیس آفیسر سے پوچھا کہ اس ہوٹل میں ڈیوٹی کرنے کیلئے پولیس آفیسر بڑی بڑی سفارشیں کرواتے ہیں آپ کو دوسرا موقع ملا لیکن آپ استعفی پیش کر رہے ہیں؟ آخرکیوں؟
اس نے جوکہا وہ فریم کرواکر ایونوں میں کہیں لگانے کے لائق ہے۔پولیس آفیسر نے تاریخی جواب دیا "جس ملک میں ایک شرابی عورت کے اشارے پر ٹرانسفر اور ایک رقاصہ کے حکم پر واپسی ہوتی ہو اس ملک میں کسی غیرت مند کا رہنا عار اور عیب ہے"۔
چند ماہ بعد اس آفیسر نے مصر ہی چھوڑ دیا آج وہ امریکہ میں اپنے بڑھاپے کے دن خوشی سے گزار رہا ہے۔

یہ صرف مصر کی کہانی نہیں ہے یہ ہمارے ہر غریب دیس کی کہانی ہے،یہ میرے ملک کی بھی کہانی ہے یہ آپ کے ملک کی کہانی بھی ہوسکتی ہے اوریہ ہراس ملک کی کہانی ہوسکتی ہے جہاں اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہوں ۔ جہاں انفرادی اور اجتماعی غیرت مر چکی ہو جہاں لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں وہ فورا اپنا علاج کروائیں زندہ قوموں کے کچھ اصول ہوتے ہیں ہم ذرا غورکریں آپ کو خودبخود اندازہ ہوجائے گا کہ یہ کہانی کس ملک سے مماثلت رکھتی ہے فیفی عبدو کے مزاج اورقماش کی عورتوں کی کہی ان کہی کہانیاں ہمارے اردگردبکھری پڑی ہیں جن کے لئے قانون موم کی ناک ہے اور بدبودارمعاشرہ نہ جانے کتنے کردارایمان،قانون،اخلاق ،ضابطے ان کے قدموں میں نذرانہ پیش کرنے کے لئے ہروقت تیاررہتے ہیں یقینا یہ وہ صاحب ِ اقتدارہیں جن کے دل سیاہ اور دماغ جذام زدہ ہیں وہ جب تلک معاشرے میں کوڑھ کاشت کرتے رہیں گے حقیقی تبدیلی نہیں آسکتی نظام کی تطہیرکے لئے امام خمینی کے نظرئیے پر عمل کرنا ناگزیرہوچکاہے جب تک خون کی بارش نہ ہواس بدبو دار معاشرے کا آسیب جل کربھسم نہیں ہوسکتا۔
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 383568 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.