انتخابی ضابطہ اخلاق، تنقید اور جھوٹی خبریں

 انتخابات کے لیے طے شدہ ضابطہ اخلاق مین تبدیلی اورسوشل میڈیاپرلوگوں کی عزت اچھالنے کوقابل سزاجرم قراردینے مجوزہ قوانین وفاقی کابینہ کوبھیجے گئے ہیں ۔وفاقی وزیراطلاعات فوادچوہدری نے وفاقی کابینہ کومجوزہ قوانین کے ڈرافٹ بھیجے جانے کی تصدیق کی ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپرپیغام میں انہوں نے لکھاہے کہ وفاقی کابینہ کودواہم قانون منظوری کے لیے بھیجے گئے ہیں۔پہلے قانون کے تحت پارلیمنٹرینز کو الیکشن کمپین میں حصہ لینے اجازت دی گئی ہے۔ جب کہ دوسرے قانون کے تحت سوشل میڈیاپرلوگوں کی عزت اچھالنے کوقابل تعزیرجرم قراردیاگیاہے۔نئے قوانین میں عدالتوں کو پابند بنایا گیاہے کہ فیصلہ چھ ماہ میں کیاجائے۔ذرائع کاکہناہے کہ الیکشن کمیشن کے کوڈ آف کنڈکٹ پرتمام سیاسی جماعتوں کوتحفظات تھے ۔قانون کی منظوری کے بعد وزراء اورپارلیمنٹرینز انتخابی مہم چلاسکیں گے۔ علاوہ ازیں این این آئی کے مطابق وفاقی حکومت نے اداروں پرتنقیدکوقابل دست درازی جرم قراردینے کافیصلہ کیاہے۔نجی ٹی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایاہے کہ حکومت نے پریونشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ ۲۰۱۶ء میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔ایکٹ میں ترمیم کے بعدعدلیہ، فوج اوردیگراداروں کے خلاف نفرت انگیزمہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی۔ذرائع کے مطابق مجوزہ ترامیم اداروں پرتنقیدکرنے والوں کو۳ سے ۵ سال سزادی جاسکے گی۔ذرائع کے مطابق پریونیشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں ترمیم کاآرڈی نینس جلدجاری کردیاجائے گا۔آئی این پی کے مطابق وفاقی حکومت نے الیکٹرانک کرائم کی روک تھام کے قانون میں ترامیم کافیصلہ کیاہے۔وفاقی کابینہ نے آرڈی نینس کے ذریعے ترامیم لانے کی منظوری دے دی ہے۔ کابینہ سے سرکولیشن کے ذریعے سمری کی منظوری لے لی گئی۔شہریوں اوراداروں پرتنقیدکرنے والوں کو۵ سال تک قیدکی سزاتجویزدی گئی ہے۔ فوج،عدلیہ،شخصیات سمیت دیگراداروں اورکسی کے خلاف نفرت انگیزمہم چلانے پرایکشن ہوگا۔رپورٹ کے مطابق صدرمملکت کی منظوری کے بعدآ رڈی نینس کااطلاق ہوگا۔پیکاایکٹ ۲۰۱۶ء میں بھی ترمیم ہوگی۔

مسلم لیگ کے سینیٹرعرفان صدیقی نے کہاہے کہ اہم قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کونظراندازکرکے صدارتی آرڈی نینس کوبطورہتھیاراستعمال کرنا جمہوری روایات اورپارلیمنٹ کی توہین ہے۔پیکاایکٹ میں ترمیمی آرڈی نینس لانے کی خبرپرتبصرہ کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہاکہ سینیٹ کے اجلاس کے دودن بعداورقومی اسمبلی کااجلاس بلاکراچانک منسوخ کردینے سے اندازہ ہوتاہے کہ حکومت ایک واردات کے اندازمیں آرڈی نینس لاناچاہتی ہے۔پارلیمنٹ کوجان بوجھ کرنظراندازکرکے آرڈی نینس کے اجراکے لیے خصوصی فضابناناانتہائی افسوس ناک ہے۔ سینیٹرعرفان صدیقی نے کہاکہ آزادی اظہاررائے جیسے حساس معاملے پرآرڈی نینس کے ذریعے پابندیاں لگاناکسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے انتہائی منفی اقدام ہے۔

کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیرقانون بیرسٹرفروغ نسیم نے کہاہے کہ پیکا اورالیکشن آرڈی نینس جاری ہورہے ہیں ۔ آئین میں دکھادیں کہ فیک نیوزٹھیک ہے۔ پیپلزپارٹی نے اگراس قانون کومستردکردیاہے توکیاوہ فیک نیوزچاہتے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ میڈیاتنقیدکرناچاہتاہے توبالکل کرے لیکن فیک نیوزنہیں ہونی چاہیے ۔جدیددورمیں میڈیاکی بہت اہمیت ہے۔میڈیاریاست کاچوتھاستون ہے اورپیکاآرڈی نینس میڈیاپرقدغن سے متعلق نہیں ہے۔ بلکہ یہ قانون ان لوگوں کے لیے جوپبلک آفس ہولڈریاسلیبرٹی ہیں۔کیاہم نہیں چاہتے کہ غلط خبراب نہیں ہونی چاہیے۔ معاشرے کی بنیاد جھوٹ پرہوتوکیامعاشرہ بنے گا۔ وفاقی وزیرنے کہا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان گلزاراحمدکے خلاف گندی زبان استعمال کی گئی ۔خاتون اول کے حوالے سے طلاق کی خبریں چلائی گئیں۔پاکستان سے متعلق جھوٹی خبروں میں بھارت کابڑاہاتھ ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ملک میں ہیجانی کیفیت پیداکرناچاہتے ہیں۔ لیکن یہ قانون فیک نیوزکاقلع قمع کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ بیرسٹرفروغ نسیم کاکہناہے کہ پیکاقانون سب کے لیے ہوگا یہ ایکٹ آئین سے متصادم نہیں ہے۔ فیک نیوزکاچھ مہینے میں ٹرائل ہوگااور۲ سال کی جگہ ۵ سال سزاہوگی۔ جھوٹی خبرناقابل ضمانت جرم ہوگا اورچھ مہینے میں ٹرائل مکمل نہیں ہوتاتوہائی کورٹ متعلقہ جج سے پوچھے گا۔جج ہائی کورٹ کومطمئن نہ کرسکاتواس کے خلاف بھی ایکشن ہوگا۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹرپراپنے ایک ٹویٹ میں نائب صدرمسلم لیگ مریم نوازنے کہاہے کہ یہ قوانین میڈیااوراپوزیشن کی آوازبندکرنے کے لیے ہیں۔حکومت جوقوانین بنارہی ہے وہ خود عمران اینڈ کمپنی کے خلاف استعمال ہونے والے ہیں۔ایم کیوایم کے راہنماخالدمحمودصدیقی نے کہاہے کہ ایسا آرڈی نینس جس سے بنیادی حقوق کی حق تلفی ہوہم کسی صورت اس کی حمایت نہیں کرسکتے۔ پارلیمنٹ کی موجودگی میں آرڈی نینس سے کام چلاناحکومت کی شکست ہے۔ میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے ان کاکہناتھا کہ اس طرح کے آرڈی نینس سے حکومت اپنے لیے مشکلات پیداکررہی ہے۔ ان کامزیدکہناہے کہ حکومت کوکس سے خوف ہے ایم کیوایم خودصحافیوں کے ساتھ مل کرجعلی خبروں کے خلاف ہتک عزت کادعویٰ کرے گی۔ رضاربانی کہتے ہیں کہ ترامیم سے بنیادی شہری حقوق سلب ہوں گے۔

تنقیدبرائے تنقید، تنقیدبرائے تمسخر اور تنقیدبرائے ذاتیات پرپابندی ہونی چاہیے لیکن تنقیدبرائے اصلاح کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اداروں کااپنااحترام ہوتاہے جہاں ایک طرف اداروں اورشخصیات پرتنقیدکوقابل دست اندازی جرم بنایاجارہاہے وہاں دوسری طرف اس بات کوبھی یقینی بنایاجاناچاہیے کہ کہ ادارے اورشخصیات بھی ایساکام نہ کریں جس کی وجہ سے وہ تنقیدکانشانہ بن سکتے ہوں۔ یوں توہمارے ملک میں مذہبی راہنماؤں اورسیاست دانوں سمیت زندگی کے اکثرشعبوں سے تعلق رکھنے والوں کوتنقیدکانشانہ بنایاجاتاہے۔ لیکن معاشرے کے کئی طبقات ایسے بھی ہیں جن سے وابستہ شخصیات پرتنقید توذمہ داری سمجھ کرکی جاتی ہے مگران طبقات کے مسائل اورمجبوریوں پرتوجہ نہیں دی جاتی۔ہم کسی کوبھیک مانگتے ہوئے دیکھ کرکرناشروع کر دیتے ہیں مگریہ جاننے کوشش نہیں کرتے کہ اس کی ایسی کیامجبوری ہے کہ یہ بھیک مانگنے پرمجبورہوگیاہے۔ مذہب ترقی میں رکاوٹ کہہ کرمذہب اسلام پربھی تنقید کی جاتی ہے۔ اگراداروں اورشخصیات پرتنقید کوقابل سزاجرم بنایاہی جارہاہے تواس کاطلاق مشائخ عظام، علماء کرام، حفاظ کرام اورآئمۃ المساجدپرتنقیدکرنے والوں پربھی ہوناچاہیے۔

حکومت اگرواقعی غیرضروری تنقید کوروکناچاہتی ہے تووزیراعظم ،ان کے وزراء اورمعاونین خصوصی کواپوزیشن کے سیاست دانوں پرتنقیدکرناہوگی ۔جس طرح وزیراعظم اوران کے وزراء نے اب تک اپوزیشن پرتنقیدکی ہے اخبارات اورنیوزچینلزاس کے گواہ ہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں کے اخبارات اٹھاکردیکھ لیں یقین ہوجائے گاکہ کس نے کس پرزیادہ تنقیدکی ہے۔ایک طرف اداروں کے احترام کویقینی بنانے کے لیے قانون میں ترمیم لارہی ہے دوسری طرف جب الیکشن کمیشن نے ای وی ایم پراعتراض اٹھائے توحکومتی وزراء نے اس ادارے کے بارے میں کیاکیاکہاہے اس کی یاددہانی کرانے کی ضرورت نہیں۔ غیرضروری تنقیدکوروکناہے توحکومتی اوراپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کواپنے اپنے سوشل میڈیاونگزکے اصول وضوابط مرتب کرناہوں گے۔ تمام سیاسی جماعتوں کواپنے اپنے سوشل میڈیاونگزکوہدایات جاری کرنی چاہییں کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین پرایسی تنقیدنہ کریں جس کے جواب میں وہ خودنشانہ بن جائیں۔ تمام وزراتوں، محکموں اوراداروں کی طرف سے الگ الگ ڈاک اورای میل ایڈریس اورواٹس ایپ نمبرزجاری کیے جانے چاہییں جن پرعوام الناس وزارتوں، محکموں اور اداروں کے کسی اقدام، فیصلہ یااعلان کے بارے میں اپنی رائے دے سکیں، اس میں پائی جانے والی خامیوں اوراس کے ممکنہ اثرات بارے آگاہ کرسکیں۔

الیکشن کمیشن کے کوڈآف کنڈکٹ میں ترمیم کرکے پارلیمنٹرینزکوالیکشن کمپین میں حصہ لینے کی اجازت دی جارہی ہے تواس کے بعد وزیراعظم اوران کے وزراء کسی بھی حلقہ میں الیکشن کمپین کے سلسلہ میں جائیں تووہاں وزیراعظم یاوزیربن کرنہیں پارٹی کے عہدیداربن کرجائیں۔ اس سلسلہ میں کی جانے والی تشہیرمیں چاہے وہ اخبارت میں ہویاپینافلیکسز، بینرزاورپمفلٹ کی صورت میں ہواس میں یہ نہ لکھاجائے کہ وزیراعظم یافلاں وزیرآرہے ہیں بلکہ ان کاتعارف سیاسی پارٹی کے عہدیداریاممبرکے طورپرکرایاجائے۔ اوران کاپروٹوکول بھی وزیراعظم یاوزراء کانہیں وہ پروٹوکول ہوناچاہیے جووہ اپوزیشن کے سیاسی راہنماؤں کو دیتے ہیں۔ الیکشن کمپین کے لیے جانے والے وزیراعظم اوران کے وزراء کے قیام کاانتظام سرکاری دفاتراورریسٹ ہاؤسزمیں نہیں ان کی سیاسی پارٹی کے دفاتر، پرائیویٹ ہوٹلز یامقامی سیاسی راہنماؤں کے ڈیروں پرہوناچاہیے۔

جعلی خبروں کاسدباب ضرورہوناچاہیے ،فیک نیوزکاضرورقلع قمع ہوناچاہیے مگراس سے پہلے اس جعلی خبریافیک نیوز کی متفقہ تعریف جاری کرنی چاہیے۔ یہ طے ہوناچاہیے کہ کون سی خبر جعلی ہوگی اورکون سی نہیں۔جس طرح جھوٹی خبروں کوجرم قراردیاجارہاہے اسی طرح جھوٹے وعدوں ،جھوٹے دعووں ،جھوٹے مقدمات کوبھی جرم قراردیاجاناچاہیے۔ جس طرح سوشل میڈیاپرلوگوں کی عزت اچھالنے کوجرم قراردیاجارہاہے اسی طرح عدالتوں میں جھوٹے مقدمات دائر کرنے، مخالفین کوبدنام کرنے کے لیے ان کامیڈیاٹرائل کرنے کوبھی جرم قراردیاجاناچاہیے۔
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302887 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.