آجکل وطن عزیز پر سیاسی بونوں کی حکومت اپنے جوبن پر ہے
آپ کوچہ اقتدار کے لیڈروں کو یا اپوزیشن کی صفوں پر نظر ڈالیں تو دونوں طرف
عوام ہی پستے نظر آرہے ہیں عوام بیچارے ایسی اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں کہ
اگر سامنے کھائی ہے تو پیچھے کنواں نظر آتا ہے ایسا جیسے آسمان سے گرا
کھجور میں اٹکا ۔موجودہ حکمرانوں نے آل شریف اور زرداری کی لوٹ مار کی دن
رات جگالی کر کے عوام کو دیر تک بے وقوف خوب بنا لیا لیکن جب اِن کی کار
کردگی پر نظر ڈالیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے پاکستان کا ایک المیہ یہ بھی
ہے کہ دانشور اور کالم نگاروں کی بھی اپنی اپنی وابستگیاں ہیں جو اپنے من
پسند لیڈروں کی مدح صرائی میں اپنی توانائیاں خرچ کر تے نظر آتے ہیں ماضی
کے حکمرانوں کی لوٹ مار کے بعد جب تبدیلی کا خوب راگ الاپا گیا تو عوام نے
اِن کو نجات دہندہ سمجھ کر اِن کو کوچہ اقتدار سونپ دیا لیکن اب عوام اپنی
حماقت پر ماتم کناں ہیں کہ یہ ہم سے کیا غلطی ہو گئی کیونکہ وہی اندازِ
حکومت وہی طرز عمل ۔حکمرانی وعدوں میں رنگینی ضرور تھی مگر عمل میں بے رنگی
وعدے ایسے کہ مرنے کو دل کر ے لیکن جب فیصلے کرتے ہیں تو دیوار میں سر
مارنے کو دل کرتا ہے اِن سیاسی بونوں کا بغور مشاہدہ کریں تو اِن کی چالاکی
نظر آتی ہے عوام کے خوابوں اور نفسیات سے کھیل کر کوچہ اقتدار پر قابض ہو
ئے یہ سیاسی بونے جانتے ہیں عوام کن نعروں وعدوں سے متاثر ہو تے ہیں یہ ان
کو ایسے ہی نعروں کے ساتھ الاپنا شروع کر دیتے ہیں ۔ آج کل تو ہماری سیاست
اُس طوائف کی طرح تماش بینوں میں گھر چکی ہے جس کا ہر طرف مذاق ہی اڑایا
جارہا ہے عجیب و غریب ڈرامہ بازیاں مضحکہ خیزیاں چل رہی ہیں سیاست جو کسی
دور میں پیغمبری مشن کا درجہ رکھتی تھی وہ آجکل کے مداری مسخروں کے ہاتھ
میں آگئی ہے آج کل ان مداری سیاسی مسخروں کا راج ہے اگر کوئی عوامی درد
رکھنے والا سنجیدہ کو چہ سیاست میں قدم رکھ بھی دے تو اُس کا حشر ایسے ہی
ہو تا ہے جو لڑکوں بالوں کی محفل میں سفید ریشوں کا ۔گئے وقتوں میں سیاست
عوامی درد سوچ پجار کا نام تھا اب لوٹ مار بلکہ بنکوں کو ڈکارنے کا نام رہ
گئی ہے سیاست کے اصولوں پر کاربند بھی اب چوروں ڈکیتوں کے قبضے میں ہیں
سیاست سنجیدگی بردباری کا نام تھی اب بد نامی کا نام بن کر رہ گئی ہے سیاست
حالات کو سدھارنے کا کام کرتی تھی اب ذاتی مفادات کی رکھوالی کا نام بن کر
رہ گئی ہے سیاست ایک فلسفہ تھی اب ایک لطیفہ بن کر رہ گئی ہے سیاست پہلے
عوام کی فکری راہنمائی کرتی تھی اب گالی گلوچ دوسروں کو ذلیل کرنے کانام بن
کر رہ گئی ہے جس طرح تاریخ کے مختلف ادوار میں اقوام کو زوال آتا ہے اُسی
طرح آجکل ہمارے ملک میں بھی سیاست زوال ‘گالی گلوچ مفادات پرستی کا نام بن
کر رہ گئی ہے یہ کہاں کے لوگ ہیں کس سیارے سے آتے ہیں عقل حیران رہ جاتی ہے
غور کریں تو اِن چہروں کے پیچھے آپ بلیک میلر چور ڈاکو سمگلر رسہ گیر مفرور
ملزم تھانوں کے ٹاوٹ جگا ٹیکس وصول کرنے والے پارٹیاں بدلنے کے چیمپیئن
کمیشن خور بنک ڈکارنے والے علم دشمن مفاد پرست نظر آئیں گے جن کی رگوں میں
عام انسانی خون نہیں بلکہ زمانہ قدیم کے فرعون کا خون گردش کر تا نظر آئے
گا جو اِس دھرتی پر خدا کے نظام کی بجائے اپنی خدائی ہی دیکھنا پسند کر تے
عوام بیچارے ایسے لوگوں سے اپنے مسائل کا حل مانگتے ہیں جو اِن مسائل کی
خود جڑ ہیں ان سے مسائل کے حل کی توقع ایسے ہی ہے جیسے دودھ کی رکھوالی پر
بلی بٹھا دی گئی ہو موجود سیاستدانوں نے تو کوچہ سیاست کو بلکل بانجھ کرکے
رکھ دیا ہے ماضی میں پھر بھی کچھ بہتر لوگ تھے جن سے آپ اختلاف ضرور کرسکتے
تھے لیکن وہ ان میں اکثریت اہل علم کی تھی جو دماغ رکھتے تھے ملکی و غیر
ملکی حالات کی جان پہچان رکھتے تھے وہ کوچہ سیاست کے اصولوں کو بازاری جنس
نہیں بلکہ کسی حد تک عوامی خدمت سمجھتے تھے کچھ اقدار و روایات کے حامل تھے
وہ کسی حادثے کی پیداوار نہیں بلکہ فطری رجحان کے بعد سیاست کے میدان میں
آئے تھے اگر آپ ان کا موازنہ کریں تو ان کی خامیوں کی بجائے ہمیں خوبیوں کا
پلڑا بھاری نظر آئے گا اورآجکل بد قسمتی سے ہم جن کی سیاست کے رحم و کرم پر
سانس لے رہے ہیں تو یہی احساس ہو تا ہے جانے کس جرم کی سزا پائی ہے آپ ماضی
کے سیاستدانوں پر نظردوڑائیں تو سیاست کی صف میں کتنے معتبر باذوق وضع دار
لوگ نظر آتے ہیں لیاقت علی خان ‘مولانا آزاد ‘مولانا محمد علی جوہر ‘گریٹ
قائد اعظم ‘خواجہ ناظم الدین ‘مولانا مودودی ؒ ‘ مفتی محمود صاحب ‘ چوہدری
محمد علی ‘ نواب زادہ نصر اﷲ خان ‘ ممتاز دولتانہ ‘ حسین شہید سہروردی ‘
قاضی محمد عیسی ‘ فاطمہ جناح ‘ مولوی فرید احمد یہ لسٹ اِس سے بھی طویل ہو
سکتی ہے اِن لوگوں کے نظریہ سیاست سے آپ ضرور اختلاف کر سکتے ہیں لیکن یہ
گمان بھی نہیں کرسکتے کہ یہ تجارت کے لیے کوچہ سیاست میں آئے اِن لوگوں نے
اپنی زندگیاں اِس بازار میں صرف کردیں آپ ماضی کے حکمرانوں کے ادوار نکال
کر دیکھ لیں کہ وہ بڑے عہدوں کے بعد کس طرح گمنامی کی زندگی میں چلے گئے
لیکن آجکل حکمرانوں کو دیکھ لیں جو جب چاہیں جوکرتے ہیں کبھی غزالی افلاطون
سقراط ارسطو رازی سعدی کی زبان بولتے نظر آئیں گے خود کو کوہ ہمالیہ سے
بلند مانیں گے لیکن جب اِن کی کرسی لڑکھڑانے لگتی ہے دیا یا پھر اِن کو
کوچہ اقتدار کی بو آنے لگتی ہے تو کس طرح یہ باتوں کے سنیاسی بونوں کی شکل
اختیار کر کے مخالفین کے گھروں کے طواف کرتے نظر آتے ہیں اب اِن کی عام
حالات میں تقریریں بڑھکیں باتیں تکبر غرور دوسروں کو روندنے کے جذبات
دیکھیں لیکن جب اقتدار کھونے کا خوف اور اقتدار پانے کا وقت آتا ہے تو یہ
اخلاق اقدار اصولوں سے آزاد ہو کر کس طرح ادھر اُدھر ووٹ مدد کی بھیک
مانگتے نظر آتے ہیں اِس مشکل وقت میں آپ ان کے اصلی قد و قا مت کردار
اصولوں کی سیاست کا تماشہ دیکھ سکتے ہیں اقتدار کے جھولے جھولنے سے پہلے
اِن کے بیانات اور تقریریں پھر اقتدار کے کوٹھے پر قبضے کے بعد چالاکیاں
لفظوں کی جادوگریاں دیکھ کر عام انسان حیرت سے سوچتا ہے کہ یہ وہی اصولوں
اور عوام کی محبت کے دعوے دار ہیں لیکن اب خوف کے عالم میں کس طرح سیاسی
بونوں کی طرح دشمنوں کے ڈیروں پر دامن مراد پھیلائے کھڑے نظر آتے ہیں ۔
|