آئینی جنگ میدانی جنگ میں تبدیل کیوں؟
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
آئینی جنگ میدانی جنگ میں تبدیل کیوں؟ ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی شاعر مشرق علامہ اقبال نے جمہوری نظام حکومت کے بارے کیا خوب شعر کہا کہ ۔ جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے جمہوری نظام حکومت حزبِ اختلاف کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ حکومت وقت کے خلاف آئینی اور قانونی جدوجہد کرے۔ اس حق میں مخالفت میں بیان دینا، جلسے جلوس، ریلیا اور دھرنوں کے علاوہ اگر وہ سمجھیں کہ حکومت منتخب ایوان میں اکثریت کھو چکی ہے تو اس کے خلاف تحریک عدم اعتمادلائے۔ اسے عرف عام میں ایوان میں قائد ایوان کی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ آئین میں تحریک عدم اعتماد کا طریقہ کار درج ہے۔ ماضی میں دو وزرائے اعظموں کے خلاف تحریک عدم اعتمام پیش ہوئی ایک بینظیر بھٹو کے خلاف دوسرے شوکت عزیز کے خلاف۔ دونوں ایوان نے مسترد کردیں یعنی کامیاب نہیں ہوئیں۔ اس مرتبہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف موجودہ حزب اختلاف جس میں کئی جماعتیں شامل ہیں کپتان کے خلاف پہلے تمام طرح کے اقدامات جن میں بیانات، جلسہ جلوس شامل ہیں کرنے کے بعد ایوان میں تحریک عدم اعتمام جمع کرادی جو مذیدکاروئی کے لیے منظور کر لی گئی یعنی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے اور اس میں تحریک پیش کرنے والے اپنی اکثریت ثابت کریں۔ اب مرحلہ اس تحریک پر عمل درآمد کا باقی ہے۔ دونوں فریقین یعنی حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہیں۔ سخت قسم کے بیانات، تلخ لہجہ کے ساتھ گفتگو دونوں جانب سے جاری ہے۔ ساتھ ہی ایک دوسرے کے اراکین کو اپنے ساتھ ملانے کی بھی کوششیں ہورہی ہیں۔ حکومت کو اپنے اتحادیوں کو اپنے ساتھ رکھنے کا کٹھن کام بھی کرنا پڑ رہا ہے۔اس لیے کہ حزب اختلاف انہیں اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہے۔اس کے لیے توڑ جوڑ جاری ہے۔ جمہوری طرز سیاست میں تحریک عدم اعتماد ایک آئینی اور دستوری عمل ہے۔ ایوان میں تحریک عدم اعتماد جمع کرانے والی جماعت یا جماعتوں کو ایک خاص تعداد اپنے نمائندوں کی پیش کرنا پڑتی ہے جیسے اس وقت حزاب اختلاف کو جس نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتمام پیش کی ہے 172اراکین قرارداد کے حق میں پیش کرنا ضروری ہوں گے۔ اگر یہ تعداد قرار داد کے حق میں ووٹ ڈالتی ہے تو وزیر اعظم اپنے عہدہ پر برقرار نہیں رہ سکیں گیں، اگر تعداد اس سے کم ہوئی تو اسپیکر قرارداد کے رد ہوجانے کا اعلان کریں گے اور تحریک عدم اعتمام ناکام ہوجائے گی۔ وزیر اعظم اپنے عہدہ پر اسی طرح برقرار رہیں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حزاب اختلاف اور اقتدار میں ہونے والی جماعتوں نے اپنے عمل سے، بیانات کے ذریعہ اس آئینی اور قانونی جنگ کو میدانی جنگ میں تبدیل کرنے کے اقدامات کیوں کیے۔ حکومت نے 27کو ڈی چوک پر 10لاکھ افراد اور حزب اختلاف نے 23مارچ سے اسلام آباد کی جانب مارچ کرنے اور جلسہ کرنے کا اعلان کر کے عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ دونوں فریقین نے اس آئینی جنگ کو میدانی جنگ تبدیل کر کے پاکستانی عوام کو سخت تشویش اور پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ حکومتی کارندوں کا کھلے عام یہ کہنا کہ دس لاکھ کے ہجوم سے وزیر اعظم کے خلاف ووٹ دینے جانا اور پھر ایوان سے واپس اسی راستے سے باہرآنا کیسے ممکن ہوگا۔ دوسری جانب سے بھی اسی طرح بیانات آئے کہ ہم نے چوڑیاں نہیں پہنی ہوئیں، ہم نے ڈنڈے تیل میں ڈبوکر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ کیا اور کس قسم کا مزاق پوری قوم کے ساتھ یہ دونوں فریق کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ حکومت کے اتحادی بھی موقع کی تلاش میں ہیں کہ جس عمل میں انہیں فائدہ نظر آئے گا وہ اس جانب مارچ کر یں گے۔ گویا مفادکو اولیت دی جارہی ہے۔ تین سال سے حکومتی اتحاد میں رہتے ہوئے اقتدار کے مزے لیتے رہے۔ اب اگر کپتان کی کشتی ڈوبتی دکھائی دے رہی ہے تو واضح اعلان نہیں کر رہے بلکہ مشاورت ہے کہ ختم ہوکر ہی نہیں دے رہی۔ پرویز الہی ایک سینئر اور سنجیدہ سیاست داں ہیں کم از کم انہیں بہت واضح موقف لینا چاہیے تھا بلکہ وہ اور چودھری شجاعت سینئر سیاست داں ہیں وہ اس معاملے کو تشدد کی جانب جانے سے روک سکتے ہیں، دونوں فریقین کے درمیان اہم کردار ادا کرسکتے تھے لیکن افسوس! اس خاندان کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ اتنی اہم ہوگئی، سال ڈیڑ سال ممکن ہے اس سے بھی کم۔ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اس بات پر اختلاف ہے کہ اگر تحریک عدم اعتمام کامیاب ہوجاتی ہے تو اسمبلی اپنی مدد پوری کرے یہ ایک رائے ہے دوسرے فریق کی رائے یہ ہے کہ فوری انتخابات ہوں۔ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی رائے ہے۔ جو کچھ اب تک ہمارے سامنے آچکا، جس قسم کے بیانات دیے جارہے ہیں وہ ایک مہذب قوم کے شایان شان نہیں۔ خدا را آئینی اور قانونی جنگ کو میدانی جنگ میں تبدیل نہ کریں اس میں کس قدر نقصان ہوگا اس کا اندازہ پوری قوم کو ہے۔ ایسا نہ ہو کہ سابقہ ادوار کی طرح اس بار بھی پورے نظام کی بساط ہی لپیٹ دی جائے اور سیاست داں جمہوریت کی بحالی کی تحریرک چلانے سب متحد ہوجائیں۔(16مارچ2022ء)
|