اتر پردیش میں چونکہ اس بار بی جے پی کی حالت بہت خراب
تھی اور اکثر لوگ یہ توقع کررہے تھے کہ یوگی بابا کے دن بھر گئے ہیں اس لیے
کمل کے کھلنے پر ایک ہفتہ قبل ہی ہولی منا لی گئی ہے۔ ان مشکل حالات میں
اپنے اقتدار کو بچا لینا یہ کمل کا بہت بڑا کمال ہے اور اس کے لیے بی جے پی
کی ذہانت اور محنت دونوں قابلِ تعریف ہے۔ بی جے پی کو چونکہ تاریخ میں پہلی
بار ہر کام کو کرنے کا شوق ہے۔ اس لیے اب یہ کہا جارہا ہے کہ گزشتہ 37
سالوں میں اترپردیش کے اندر پہلی بار اپنی میعاد مکمل کرنے والے کسی وزیر
اعلیٰ کو دوبارہ منتخب ہونے کی سعادت نصیب ہوئی ہے۔یعنی اس سے پہلے بھی یہ
ہوچکا ہے مگر جن لوگوں نے یہ کارنامہ انجام دیا وہ درمیان میں وزارتِ اعلیٰ
کے عہدے پر فائز کیے گئے تھے یعنی ان کو پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کا
موقع نہیں ملا تھا جبکہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا اور 37سال پہلے وہ
بھی ہوچکا ہے خیر بی جے پی ایسے دعویٰ کرکے اپنے آپ کو بہلاتی رہتی ہے۔
ویسے جہاں تک وزیر اعلیٰ کے دوبارہ منتخب ہونے کا سوال ہے اروند کیجریوال ،
نتیش کمار اور ممتا بنرجی بھی حال میں یہ کارنامہ انجام دے چکے ہیں ۔ اس
لیے یہ کوئی انہونی نہیں ہے جو پہلی بار ہوئی ہو اور بلکہ کیجریوال اور
ممتا تو تین بار نیز نتیش کمار چار مرتبہ لگاتار کامیاب ہوچکے ہیں جبکہ
یوگی جی کو تو دوسری ہی بار میں پسینہ چھوٹ گیا۔ اترپردیش میں پچھلا انتخاب
2017 میں ہوا تھا ۔ اس وقت یوگی جی کہیں نہیں تھے اس کے باوجود بی جے نے
325نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ اس سے پیلے ایوان اسمبلی میں اس کے
صرف 47 ارکان تھے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ سال قبل بی جے پی کے ارکان
اسمبلی کی تعداد میں 278؍ ارکان کا غیر معمولی اضافہ ہوا تھا ۔ اس وقت نہ
تو رام مندر کا شیلا نیاس ہوا تھا اور نہ وارانسی میں کاریڈور کی تعمیر
ہوئی تھی۔ نہ تو بلڈوزر چلے تھے اور نہ انکاونٹر ہوئے تھے۔ نہ تو تین طلاق
کا قانون بنا تھا اور نہ کشمیر کی دفعہ 351 ختم ہوئی تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ
نوٹ بندی کی وجہ سے عام لوگ مودی سرکار کے خلاف تھے پھر بھی بی جے پی نے اس
کامیابی کو درج کرکے دکھا دیا تھا کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہے۔
اس حقیقت کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا 2022میں اسمبلی کے اندر بی جے پی کے
ارکان کی تعداد میں 52 کی گراوٹ آگئی اور اب وہ گھٹ کر 273 پر پہنچ گئی۔
یہ اور بات ہے کہ حکومت سازی کے لیے یہ تعداد کافی سے زیادہ ہے لیکن کمی تو
بہر حال کمی ہی ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بی جے پی کا سورج
ڈھل رہا ہے گوکہ اس کی رفتار بہت سست ہے ۔ اس کے برعکس سماجوادی پارٹی
جوپچھلے انتخاب میں صرف 48پر تھی اب 125 پر پہنچ گئی ہے۔ یعنی جہاں بی جے
پی کے ارکان میں 52 کی کمی آئی اس کے مقابلہ سماجوادی پارٹی کے ارکان کی
تعداد میں 77 کا اضافہ ہوا۔ یہ اور بات ہے کہ اس اضافہ کے باوجود وہ اقتدار
سے بہت دور رہ گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بی ایس پی، کانگریس اور دیگر لوگوں
نے جو نشستیں گنوائیں وہ اور بی جے پی کے ہاتھ چھٹکی وہ سب سماجوادی کے حصے
میں چلی گئی۔ یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو بی جے پی کے لیے 2024کے اندر مشکلات
میں اضافہ ہوگا ۔
اس سیاسی صورتحال کا موازنہ اگر مغربی بنگال سے کیا جائے تو وہاں پر اسی
سال صوبائی انتخاب میں بی جے پی کو بھی اسی طرح کا فائدہ ہوا تھا ۔ وہ اپنے
ارکان میں 74نشستوں کا اضافہ کرکے 77پر پہنچ گئی تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ اس
میں سے کئی لوگ ترنمول کانگریس میں لوٹ چکے ہیں اور ارکان پارلیمان نے بھی
پالہ بدلاہے۔اترپردیش اور مغربی بنگال میں یہ قدر مشترک ہے کہ ایک جگہ بی
جے پی کے ارکان ترنمول میں جارہے ہی اور دوسری جگہ سماجوادی کے ساتھ ہورہے
ہیں۔ اس سے بھی ہوا کے رخ کا پتہ چلتا ہے۔مغربی بنگال کا صوبائی انتخاب
قومی الیکشن کے ڈھائی سال بعد ہواتھا ۔ 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں بی جے
پی نےجملہ 42میں 18 پرکامیابی درج کراکے سب کو چونکا دیا تھا ۔ اس لحاظ سے
اسے اسمبلی میں 121نشستوں پر کامیاب ہونا چاہیے تھا مگر ممتا نے 77پر روک
دیا ۔ اس کے برعکس ممتا بنرجی نے یوگی کی طرح اپنی نشستیں گنوائی نہیں بلکہ
ان میں دو کا اضافہ ہی کیا تھا ۔ ووٹ کے فیصد کا موازنہ کریں تب بھی ایوانِ
پارلیمان کے مقابلے بی جے پی کے ووٹ ۳ فیصد گھٹے تھے تو ترنمول کے اتنے ہی
بڑھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوگی کے مقابلے بی جے پی ممتا کی فتح
زیادہ بڑی تھی ۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ یوگی نے دوبارہ کامیابی
حاصل کرکے کوئی بے مثال کارنامہ انجام دے دیا ہے ۔
اکھلیش کے حوالے سے جہاں تک مایوسی کا سوال ہے تو مغربی بنگال میں یہی ہوا
بی جے پی کے حق میں تھی ۔مودی کے ذریعہ لگایا جانے والا دو مئی دیدی گئی کا
نعرہ اور امیت شاہ کا دو سو پار والادعویٰ سب کو یاد ہے ۔وہاں پر کامیابی
حاصل کرنے کی خاطر مودی اور شاہ کے ساتھ یوگی کو بھی میدان میں اتارا گیا۔
مودی نے رابندر ناتھ ٹیگور کا روپ دھار کر بنگلادیش کا دورہ کیا اور وہاں
پوجا پاٹ کرکے بنگلادیش سے آئے ہوئے ہندووں کو رجھانے کی کوشش کی۔ امیت
شاہ نے انہیں شہریت دینے کا وعدہ بھی کیا ۔ ای ڈی کے ذریعہ ممتا کے بھتیجے
پر چھاپہ مارا گیا اور گورنر کی معرفت وزیر اعلیٰ کو بدنام کرنے کئی کوششیں
کی گئیں لیکن کوئی داوں نہیں چلا۔ سیاست میں تو یہ سب ہوتا ہے لیکن گودی
میڈیا کا یہ معاملہ ہے کہ زعفرانی ناکامی کو فوراً بھول بھال کر کوئی نیا
شوشہ چھیڑ دیاجاتا ہے لیکن جب اسے کامیابی ملتی ہے تو اس کو خوب بڑھا چڑھا
کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس بابت تواز ن قائم رکھنا دیانتداری کا تقاضہ ہے۔
مغربی بنگال کی گنتی کے دوران وزیر اعلیٰ کی ناکامی کو خوب اچھالا گیا ۔ یہ
حالت کم ازکم یوگی ادیتیہ ناتھ کی نہیں ہوئی لیکن ان کے دو نائبین میں سے
ایک نے تو انتخاب لڑنے کی ہمت ہی نہیں کی اور دوسرے کیشو پرشاد موریہ ناکام
ہوگئے ۔ اس کے علاوہ اتراکھنڈ میں فتح کے باوجود بی جے پی وزیر اعلیٰ پشکر
سنگھ دھامی انتخاب ہار گئے لیکن جیسا چرچاممتا کی ہار ہواتھا ویسا کسی اور
کے ساتھ نہیں ہوا حالانکہ آگے چل کر وزیر اعلیٰ نے ایک ریکارڈ توڑ کامیابی
حاصل کرکے اپنی ناکامی کا داغ دھل دیا۔ مغربی بنگال سے قبل یہی کہانی بہار
میں بھی دوہرائی گئی جہاں نتیش کمار لگاتار چوتھی بار وزیر اعلیٰ کے منصب
پر فائز ہوئے۔ اس کو بھی بہت بڑی کامیابی بتایا گیا تھا کیونکہ نتیش کمار
کے پیچھے بی جے پی کا کمل تھا حالانکہ این ڈی اے اور یوپی اے کے ووٹ میں
صرف دو فیصد یعنی 84,900 ووٹ کا فرق تھا ۔ اس معمولی فرق کے سبب جہاں این
ڈی اے کے پاس 125 نشستیں تھیں وہیں یو پی اے 110نشستوں پر سمٹ گئی تھی اور
15 کے فرق سے این ڈی اےسرکار بن گئی تھی۔
بہار کے اندر بی جے پی نے 74 نشستوں پر کامیابی تو حاصل کی تھی مگر اس کے
کل ووٹ 82لاکھ ایک ہزار,298 تھے ۔ اس کے مقابلے آر جے ڈی نے اس سے ایک سیٹ
زیادہ 75 نشستوں پر کامیابی درج کرائی تھی۔ اس کے ووٹ کا تعداد بھی 96لاکھ
63ہزار584 تھی۔ نتیش کمار تو اس لیے این ڈی اے وزیر اعلیٰ بن گئے کیونکہ جے
ڈی یو 43 نشستوں پر کامیاب ہوگئے اور اسے 64 لاکھ 84 ہزار 414 ووٹ ملے جبکہ
کانگریس 27 سے آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹ کر 19 پر آگئی اور اسے کل 39
لاکھ 94 ہزار912 ووٹ ہی مل سکے۔ بہار میں اگر کانگریس کو نتیش جیسی کامیابی
نہیں مل سکی اور یو پی اے کی ناکامی بن گئی۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ اس بار
بی جے پی بہار کے اندر نتیش کے بجائے اپنا وزیر اعلیٰ مسلط کرنا چاہتی تھی
لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکا اس لیے نتیش کے بھاجپائی دوست سشیل مودی پر نزلہ
اترا اور انہیں ٹھکانے لگا دیا گیا۔ اتر پردیش میں یوگی ادیتیہ ناتھ نے
مسلمانوں کے علاوہ دلتوں اور برہمنوں کو بھی بہت ناراض کیا لیکن یہ حقیقت
سامنے آچکی ہے کہ اس کے باوجود مایاوتی کے اشارے پر دلتوں نے بی جے پی کو
ووٹ دیا۔ برہمن پہلی بار سماجوادی پارٹی کے ساتھ آئے مگر وہ الیکشن میں
اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہیں کرسکے۔ اس کے برعکس مسلمانوں کا رویہ کمال
دانشمندی کا تھا۔
شیوسینا کے رہنما سنجے راوت نے یوگی کی کامیابی کے لیے مایا کے ساتھ آل
انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے اسدالدین اویسی کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا
حالانکہ ان کا یہ الزام سراسر غلط ہے۔ یو پی میں 100 سیٹوں پر الیکشن لڑنے
والی ایم آئی ایم کے ایک کو چھوڑ کر سارے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی ۔
اسے صرف 0.45 فیصد ووٹ ملے حالانکہ انتخابی مہم کے دوران اویسی پر جان لیوا
حملہ بھی ہوا تھا۔ ایم آئی ایم نے بہار اسمبلی انتخابات کےمیں چھوٹی
پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کرکے پانچ سیٹیں جیتی تھیں اور اسی فارمولے کو اتر
پردیش کے اسمبلی انتخابات میں استعمال کرتے ہوئے بابو سنگھ کشواہا اور
بھارت مکتی مورچہ کے ساتھ اتحاد کیا گیا نیزجن ادھیکاری پارٹی اور بامسیف
بھی اس اتحاد میں شامل ہوئےلیکن اے آئی ایم آئی ایم وہیں کھڑی نظر آئی جہاں
2017 کے میں تھی۔پچھلی بار اس نے 38 سیٹوں پر مقابلہ کیا تھا اور ان میں سے
37 سیٹوں پر اس کے امیدواروں کی ضمانت ہو گئی تھی۔ پارٹی کو کل ووٹوں کا
0.24 فیصد ملا تھا جس میں اس بار معمولی اضافہ ہوا ہے جو زیادہ تعداد میں
امیدواروں کے سبب ہے۔
مسلمانوں کی نمائندگی اس بار ڈیڑھ گنا بڑھ کر 24سے 36 پر پہنچ گئی ۔
اسٹرائیک ریٹ دیکھیں تو سماجوادی مسلمانوں کا دیگر تمام طبقات سے بہتر نکل
آئے گا ۔ اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مسلمانوں کےانتشار کی وجہ سے بی
جے پی کامیاب ہوئی بلکہ یہی کہنا پڑے گا کہ سماجوادی پارٹی کے ارکان کی
تعداد میں ڈھائی گنا سے زیادہ اضافہ مسلمانوں کے سبب ہوا، اگر مسلمان اس
طرح کی سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کرتے تو اس بار پھر بی جے پی تین سو
پار کرجاتی ۔بی جے پی کے خلاف جو ٹیم کھیل رہی اس میں مسلمان گیند باز تھے
انہوں نے اپنی ذمہ داری خوب نبھائی لیکن دیگر بلے باز اپنے حصے کے رن نہیں
بناسکے اس لیے ٹیم ہار گئی۔ اعظم خان اور ناہید حسن نے جیل میں بیٹھ کر
زبردست کامیابی درج کرائی ۔ مختار انصاری کی لاکھ بدنامی کی گئی مگر ان کا
بیٹا عباس انصاری بھی عبداللہ اعظم کی طرح بڑے فرق سے کامیاب ہوگیا۔ ان کے
علاوہ 82سالہ صاف ستھرے کردار کے حامل بدیع عالم بھی فتحیاب ہوئے اور اعظم
گڑھ بی جے پی کے آتنک گڑھ بن گیا جہاں وہ اپنا کھاتہ نہیں کھول سکی ۔ اس
بار بی جے پی کو یوپی میں جو بھی زور کا جھٹکا آہستہ سے لگا ہے اس کا سہرا
مسلمانوں ہی کے سر ہے اور یہی کہنا پڑے گا کہ کہ؎
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
|