روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی ناگزیر۰۰۰

روس اور یوکرین کی جنگ نے عالمی سطح پر اثر کرنا شروع کردیا ہے۔ معاشی اعتبار سے تو دنیا کو شدید نقصان ہوگا ہی ساتھ میں بعض ممالک دوستی اور دشمنی بھی کھل کر روس اور اسکے مخالفین کے ساتھ سامنے آرہی ہے۔ روس کی جانب سے یوکرین پر شدید حملو ں نے یوکرین کے لاکھوں شہریوں بشمول معصوم بچوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے اور یہ پناہ حاصل کرنے کے لئے دوسرے ممالک کا سفر کررہے ہیں۔ غذائی اجناس اور ادویات اور دیگر خصوصی سازو سامان بعض ممالک کی جانب اس یوکرین کے جنگ سے متاثر شہریوں کو پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ تیل کی نکاسی کرنے والے بعض ممالک تیل کی یومیہ زائد نکاسی کرنے کا اعلان کررہے ہیں تاکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکے۔ خام تیل کی قیمتوں پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر معاشی بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔ بعض ممالک روس اور یوکرین کے درمیان مصالحت کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن فی الحال ایسی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے کہ روس اپنی کارروائیو ں کو فوراً ختم کردے اور یوکرین نے بھی روس کے سامنے ہتھیار ڈالنے تیار نہیں ہے وہ بھی نیٹو ممالک بھرم پر جنگ لڑرہاہے لیکن روس سے جنگ لڑنے کے لئے نیٹو ممالک اپنی افواج کو بھیجنے سے انکا ر کردیئے ہیں کیونکہ روس نے پہلے ہی وارننگ دے رکھی ہے کہ اسکے خلاف جو بھی میدان میں آئے گا یا مدّمقابل کارروائی کرنے کی کوشش کرے گا اسے روس خطرناک طریقہ سے جواب دے گا۔ اسلئے سوپر پاور امریکہ ، برطانیہ، فرانس وغیرہ نے روس سے مقابلے کیلئے اپنی افواج کو یوکرین بھیجنے سے انکار کردیئے ہیں۔ جبکہ ماضی کی دو تین دہائیوں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں یعنی عراق، افغانستان، لیبیا، شام،وغیرہ میں جس طرح مغربی ونیٹو ممالک نے مل کر خطرناک حملے کرکے مسلم حکمرانوں کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کیا ۔ یہی نہیں بلکہ جس طرح مسلم ممالک میں دہشت گردی کے نام پر تباہ کن حملوں کے ذریعہ اسلامی تاریخ کو ملیامیٹ کردیا گیا اور معصوم بے قصور مسلمانوں کو ہلاک و زخمی کردیاگیا،انکی معیشت کو اس طرح تباہ و برباد کردیا گیا کہ آج ان ممالک کے لاکھوں شہری کئی ممالک میں پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،انکے بچوں کی تعلیم و تربیت اور روشن مستقبل کا خواب والدین سجھانے سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ اشیاء ضروریہ و ادویات کی کمی یا عدم سربراہی سے لاکھوں بچے ، خواتین و ضعیف شدید بیماریوں میں گرفتار ہیں ۔ عالمِ اسلام کے خلاف جنگ میں مغربی و یوروپی ممالک کا اتحاد ہوتا ہیکہ لیکن روس کے حملوں کو روکنے کی کسی میں ہمت نہیں ہے، اسکی مخالفت میں صرف چند پابندیاں عائد کیں گئیں ہیں لیکن اپنی فوجوں کو روس کے خلاف جنگ لڑنے میں کسی کی ہمت نہیں یا پھر روس مسلم ملک نہ ہونے کی وجہ سے اسکے خلاف جنگ لڑنا نہیں چاہتے۔ دہشت گردی یا عوام پرحکمرانوں کے جبر و استبداد کے نام پر عالمِ اسلام کے جن ممالک کو تباہ و تاراج کیا گیا اورمسلم حکمرانوں کواقتدار سے بے دخل کرکے ان پر جھوٹے الزامات عائد کرکے موت کی سزائیں دی گئیں اسکے خلاف آواز اٹھانے والے کوئی نہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے جس طرح مردِآہن صدام حسین پر الزامات عائد کرکے عراق اور یہاں کی اسلامی تاریخ کو شدید نقصان پہنچایا اور بعد میں جو الزامات عائد کئے گئے تھے وہ جھوٹے ثابت ہونے کی صورت میں ان جھوٹے عہدیداروں یا حکمرانوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی گئی ۔ یہ تمام حالات جو اسلامی ممالک میں مغربی و یوروپی سازشوں کے تحت بنائے گئے اس کے ذمہ دار ہمارے اپنے مسلم حکمران بھی ہیں جنہوں نے اپنے اقتدار کے نشے میں پڑوسی ممالک کے حکمرانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت و قوت کو ختم کرنے کے لئے مغربی و یوروپی حکمرانوں سے مدد حاصل کرکے اپنے ہی بھائیوں و بہنوں کی ہلاکت کا سبب بنے۔ خیر جنگ کہیں پر بھی ہو اس میں معصوم و بے قصور شہریوں کی ہلاکت ہوتی ہے اور معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے اسی لئے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ جتنا جلد ممکن ہوسکے بات چیت کے ذریعہ ختم ہونی چاہیے اس کیلئے ترکی اور دیگر ممالک کوششیں کو سراہا جاسکتاہے۔ ترکی نے سب سے پہلے یوکرین کے جنگ سے متاثرعوام کیلئے مدد کی اور ان دنوں لاکھوں یوکرین عوام دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے کیلئے پہنچ رہے ہیں۔متحدہ عرب امارات نے یوکرین کیلئے 30 ٹن دوائیں، طبی آلات اور امدادی سامان کی پہلی کھیپ روانہ کی ہے۔بتایا جاتا ہیکہ امارات نے اقوام متحدہ کی درخواست پر50 لاکھ ڈاکر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔اس رقم سے یوکرین کے پناہ گزینوں کی بنیادی ضروریات پوری ہوں گی۔دیگر ممالک کی جانب سے بھی یوکرین کیلئے امدادی سلسلہ جاری ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا جاتا ہیکہ صدرترک رجب طیب اردغان نے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن سے رابطہ کیا ہے۔ترک صدارتی شعبہ اطلاعات کے مطابق اس ٹیلی فون رابطے میں روس کے یوکرین پر حملوں اور ترک۔روسی تعلقات کا جائزہ لیا گیا۔صدر اردغان نے کہا کہ یوکرین کا بحران فی الفور پر امن طریقے سے حل ہونا چاہیئے جس کیلئے ترکی ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار ہے۔صدر کا کہنا ہیکہ فوری طور پر جنگ بندی علاقے کی انسانی آبادی کے خدشات ختم کرنے اور اس تنازعے کے سیاسی حل کیلئے اہم ہوگی جس کیلئے ہم سب کو امن کا راستہ اپنانا ہوگا،انہوں نے جنگ بندی کی بحالی،انسانی گزرگاہوں کے کھلنے اور پر امن معاہدہ طے کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔اردغان نے کہا کہ یوکرین اور دیگر ممالک سے ترکی مسلسل رابطے میں ہے اور ہم ایک جامع مذاکراتی حل کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

روسی صدر ولادیمیرپوتن اور یوکرین صدر ولادیمیر زیلنسکی مزید جنگ کو جاری رکھنے سے روکنے کے لئے عالمی قائدین کی جانب سے کی جانے والی پہل پر سنجیدہ ہوں اور دونوں ممالک کے وفود مذاکرات کے ٹیبل پر آئیں تاکہ مزید نقصانات سے دنیا محفوظ رہ سکے۰۰۰۰روسی صدر نے یوکرین پر حملے کے بعد روس پر دباؤ ڈالنے کیلئے مغربی و یوروپی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کی ہیں تاہم روس نے یہ کہہ کر دنیا کو حیران کردیا کہ ان سب پابندیوں کے خلاف روس نے پہلے ہی سے تیاری کرلی تھی۔ اس طرح مغربی و یوروپی ممالک کی پابندیاں روس پر کتنا اثر کرتی ہیں اس کا انداز ابھی محال ہے لیکن چین اور روس کی قربت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ دنیا کی نظریں روس اور یوکرین پر لگی ہوئی ہیں ان حالات میں عالمی سطح پر اقوام عالم کی سلامتی اور معیشت کے استحکام کیلئے جنگ کو روکنے والوں کا کردار بھی اہم ہوجاتا ہے۔ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے والے کبھی یہ نہیں چاہینگے کہ روس جلد از جلد جنگ ختم کرے کیونکہ ان ممالک کے کروڑہا ڈالرس کے ہتھیار فروخت ہورہے ہیں۔ روس کا یوکرین پر شدید حملے کے بعد دنیا کے بعض ممالک کے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیں اور کس سے بغاوت موڑ لیں۔ امریکی صدر کے اشارہ پر جو جی حضور ہوتی تھی اس میں کمی ہونے کی خبریں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ گردیش کررہی ہیں ۔ اس بات کا انکشاف ہواہیکہ وائٹ ہاؤس نے امریکی صدر جوبائیڈن کا سعودی ولیعہد اورمتحدہ عرب اماراتی حکام سے رابطہ کرانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش ناکام رہی اور خلیجی ممالک نے تیل کی بڑھتی قیمتوں کے باوجود یمن یا کسی اور جگہ پر امریکی مدد ملنے تک کسی بھی قسم کی معاونت سے انکارکردیا۔وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق تیل کی بڑھتی قیمتوں اور یوکرین کیلئے عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی مہم کے دوران وائٹ ہاؤس نے صدر بائیڈن، سعودی ولیعہدمحمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے شیخ محمد زید النہیان کے درمیان کالز کی کوشش کی۔امریکی اور مشرق وسطیٰ کے حکام کے حوالے سے بتایاگیا ہیکہ خلیجی ممالک کے عہدیداران نے حالیہ ہفتوں میں صدر جوبائیڈن سے بات کرنے کی امریکی درخواست مسترد کردی، خلیجی ممالک کے حکام نے حالیہ ہفتوں میں خلیج سے متعلق امریکی پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے حکام نے امریکی صدر سے بات کرنے سے بھی انکار کردیا، ایسا اشارہ دیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے یمن یا کسی بھی دوسرے محاذ پر مدد کرنے تک وہ تیل کی بڑھتی قیمتوں کو کم کرنے میں کوئی مدد نہیں کریں گے۔البتہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے 10؍ مارچ کو تیل کی پیداوار میں اضافے کی حمایت اور اعلان کے بعد بتایا جارہا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں17فیصدسے بھی زیادہ کمی ہوئی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہاں یہ بات واضح رہے کہ امریکی حکام تیل پیدا کرنے والوں سے مذاکرات کر رہے ہیں جن کا مقصد تیل کی سپلائی بڑھانا ہے۔ واشنگٹن میں متحدہ عرب امارات کے سفارتخانے کی جانب سے ٹوئٹر پر سفیر یوسف العتبہ کا بیان جاری کیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'ہم پیداوار کو بڑھانے کی حمایت کرتے ہیں اور اوپیک پر زور دینگے کہ وہ پیداوار بڑھانے کو ملحوظ خاطر رکھے۔واضح رہے کہ24؍ فروری کے بعد سے تیل کی قیمتوں میں 30 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور رواں ہفتے ایسا وقت بھی آیا جب تیل کی قیمتیں 139 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئیں۔ بعد ازاں یہ کم ہو کر 12 فیصد اضافے کے ساتھ 112 ڈالر فی بیرل تک آئیں۔بین الاقوامی توانائی انرجی، آئی اے اے نے بھی حال ہی میں یہ رضامندی ظاہر کی تھی کہ وہ 60 ملین بیرل تیل اپنے سٹریٹیجک نیشنل ریزرو سے فراہم کرے گی تاہم یہ اقدام بھی تیل کی قیمتوں میں بڑھنے والے اضافے سے نمٹنے کے لیے کافی نہیں ہے۔تیل کی قیمتو ں میں اضافہ اس بات کا سبب بنے گا کہ دنیا بھر میں ہر چیز قیمتی ہوجائے گی اور غریب و متوسط طبقہ اس سے شدید متاثر ہونگے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان ان دنوں اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کے سلسلہ مصروف ہیں ۔ ایک طرف حکمراں اتحاد کو متحد کرنے اور ان میں پائی جانے والی خلش و دوریوں کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام ف کے اتحاد نے پاکستانی سیاست میں کھلبلی پیدا کردی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو یقین ہے کہ وہ اپنے اتحادی جماعتوں کی تائید سے اقتدار پر فائز رہینگے جبکہ اپوزیشن اتحاد ایڑی چوٹی کا زور لگارہاہیکہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کردیا جائے۔ وزیر اعظم 9؍ مارچ کو کراچی کے علاقے بہادرآباد میں ایم کیو ایم کے مرکز کا دورہ کرنے کے بعد گورنر ہاؤس پہنچ کر پارٹی کارکنوں سے جارحانہ خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن رہنماؤں سابقہ صدر پاکستان آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتمادکی ناکامی کے بعد میں ان کو چھوڑوں گا نہیں۔ انہوں نے اپنی للکار کے ذریعہ ان قائدین سے کہا کہ اب تمہارا وقت آ گیا ہے۔ میں تم لوگوں کو وہاں پہنچاؤں گا جہاں تمہیں بہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔‘روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے وقت اتفاقاً عمران خان روس کے دورے پر تھے اسی دوران روس نے یوکرین پر حملہ کردیا ۔ انکی واپسی کے بعد یورپی یونین پاکستان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے جو الفاظ ادا کئے اس کے خلاف اپوزیشن اتحاد نے یورپی یونین کو ناراض کرنے کی بات کی ہے۔ اس پرعمران خان ے کراچی میں تقریر کے دوران اپوزیشن قائدین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ’جنھوں نے 40 سال ملک کو لوٹا وہ اب عمران خان سے ملک بچانے نکلے ہیں۔ یہ کہتے ہیں میں نے یورپی یونین کو ناراض کر دیا۔ میں نے یورپی یونین کو کچھ نہیں صرف ان کو یاد دہانی کروائی ہے کہ وہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی مذمت بھی کریں۔‘ادھر اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’ہم پُر اعتماد ہیں کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی‘‘۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ’’عمران خان مخالفین کا نام بگاڑتے ہیں، انہیں گالیاں دیتے ہیں، بُرا بھلا کہتے ہیں، وہ جس طرح کی غیر اخلاقی زبان استعمال کرتے ہیں وہ اس عہدے پر رہنے کے قابل نہیں‘‘۔ اسی طرح قائد اپوزیشن شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان کو تنبیہہ کرتا ہوں کہ وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھیں، اپنی زبان کو لگام دیں ورنہ انکا انجام بہت بُرا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ’’اگر ہم نے انکے خلاف باتیں کیں تو انہیں کہیں منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی، ہمیں پتا ہے کہ بنی گالہ میں کیا ہوتا ہے، عمران نیازی اپنے گریبان میں جھانکیں ورنہ ہمیں زبان کو لگام دینا بھی آتی ہے‘‘۔ذرائع ابلاغ کے مطابقحکمراں جماعت اور اتحادی جماعتوں کے بعض ارکانِ پارلیمنٹ بھی حکومت سے نالاں دکھائی دیتے ہیں اور اگر حکمراں اتحادپھوٹ پڑجاتی ہے تو اس کا خمیازہ عمران خان کو بھگتنا پڑے گا اور اپوزیشن اتحاد کو یہ یقین ہے کہ حکمراں اتحاد کے اراکین تحریک عدم اعتماد کے موقع پر حکومت حکومت سے بغاوت کرسکتے ہیں ۔ فی الحال پاکستان کے سیاسی حالات کشیدہ ہیں، حکمراں اتحاد میں اگر کوئی بغاوت کرکے اپوزیشن اتحاد میں چلا جاتا ہے کہ عمران خان کی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سے چلی جائے گی۔ اب دیکھنا ہیکہ عمران خان تحریک عدم اعتماد میں کامیابی حاصل کرتے ہیں یا پھر اپوزیشن کامیاب ہوجاتی ہے ویسے حکمراں اتحاد کو 272اراکین کی ضرورت ہے جبکہ حکمراں اتحاد میں 279اراکین شامل ہیں جسے توڑنے کی کوششیں بتائی جارہی ہے ۔
****
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210214 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.