جہاں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شمار دنیا کے بڑے اور اہم
ممالک میں ہوتا ہے وہیں پر مملکت خدادا پاکستان ان چند بدقسمت ترین ممالک
کی صف میں کھڑا بھی دیکھائی دیتا ہے کہ جس کے قیام کے عرصہ دراز کے بعد بھی
ملکی آئین نہ بن پایا۔ اگست 1947 سے لیکر 1956 تک ریاست پاکستان کے زیادہ
تر امور سلطنت گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935 کے تابع چلائے گئے۔ پاکستان کا
پہلا آئین 1956 میں بنا مگر ٹھیک دو سال کے عرصہ میں آئین توڑ کا ملک میں
مارشل لاء حکومت قائم ہوگئی۔ پھر آمر ایوب خان نے 1962 میں ملک کا دوسرا
آئین بنایا لیکن اس آئین کو بھی 1969 میں ختم کردیا گیا۔ اور اقتدار اک آمر
حکمران سے دوسرے آمر حکمران یحییٰ خان کے سپرد ہوگیا۔اور پھر1971 میں دنیا
کی سب سے بڑی اسلامی ریاست دوٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، باقی ماندہ موجودہ
پاکستان کا پہلا آئین جو کہ پارلیمنٹ سے 1973 میں متفقہ طور پر تمام سیاسی
جماعتوں کی مشاورت سے منظور ہوا۔ باوجود اسکے اس آئین میں آرٹیکل 6 کے تحت
آئین شکنی کو سنگین غداری جیسا جرم قرار دیا گیا تھا مگر افسوس اس آئین کو
اک مرتبہ پھرپس پشت ڈال کر ملک میں مارشل لاء حکومت قائم ہوگئی۔ برصغیر پاک
و ہند کے مسلمانان کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں قائداعظم محمد علی جناح جیسے
عظیم رہنما میسر آئے مگر افسوس اور بدقسمتی کہ مقصد آزادی حاصل کرنے کے بعد
سپہ سالار تحریک پاکستان جناب قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے وجود کے
بہت ہی قلیل عرصہ بعد دنیا فانی سے کوچ کرگئے، انکی رحلت نے بالاشبہ
پاکستانی سیاست کو یتیم کردیا۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد قائداعظم کے حقیقی
اور محبت وطن ساتھیوں کو چن چن کر کھڈے لائن لگا دیا گیا۔ کسی کو قتل کردیا
گیا تو کسی کو کرپشن کے الزامات لگاکر سیاسی منظرنامے و حکومتی امور سے ہٹا
دیاگیا۔ قائداعظم اور انکے حقیقی ساتھیوں کے بعد مملکت خداداد کے ریاستی و
حکومتی امور پر سول و ملٹری بیوروکریسی کا قبضہ ہوگیا، جس کی بناء پر صحیح
عوامی اور مقبول سیاسی قیادت پاکستان کو نصیب نہ ہوسکی، ماسوائے ذوالفقار
علی بھٹو، بے نظیر بھٹو،نواز شریف اور عمران خان۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں
ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف بھی اسی نرسری کی پیداوار ہیں جہاں
بہت سے سیاسی لیڈر اپنی نشوونما پاتے رہے ہیں۔ بہرحال یہ بات بھی تاریخ کا
حصہ بن چکی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف جن کی مہربانیوں سے
اقتدار میں پہنچے انہی کے خلاف برسرپیکار دیکھائی دیئے۔ آئیے پاکستانی
وزرائے اعظم کے حوالہ سے مختصر تاریخ کا مطالعہ کرنے کی کوشش کریں۔ پاکستان
کے پہلے وزیراعظم قائداعظم کے رفیق یار خان لیاقت علی خان تھے جن کی وزارت
عظمی کا دورانیہ 15اگست 1947 سے لیکر 16 اکتوبر 1951 انکی شہادت کے دن تک
تھا، پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین جو 17 اکتوبر 1951 سے
لیکر 17 اپریل 1953 تک اقتدار میں رہے، انہیں 1953 میں اپنے ہی مقرر کردہ
گورنر جنرل سر ملک غلام نے سفارت کار محمد علی بوگرا کے حق میں دستبردار
ہونے پر مجبور کیا تھا۔ پاکستان کے تیسرے وزیراعظم محمدعلی بوگرہ جو 17
اپریل 1953 سے لیکر 11 اگست 1955 تک برسراقتدار رہے اور پھر انکو بھی گورنر
جنرل اسکندر مرزا نے انکو عہدہ سے ہٹا دیا۔ پاکستان کے چوتھے وزیراعظم
چوہدری محمد علی 11اگست 1955 سے لیکر 12 ستمبر 1956 تک اقتدار میں رہے
جنہیں بالآخر حسین شہید سہروردی کی وجہ سے عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑا۔
پاکستان کے پہلے آئین کے بعد دو سال کی مدت میں چار وزرائے اعظم تبدیل
ہوگئے۔حسین شہید سہروردی نے 12 ستمبر 1956 میں وزیراعظم کے عہدے کا حلف
اٹھایا اور ایک سال ایک ماہ تک عہدے سے فائزہ رہنے کے بعد ان کو عہدے سے
ہٹادیا گیا جس کے بعد ابراہیم اسماعیل چندریگر وزیراعظم بنے لیکن گورنر
جنرل سکندر مرزا سے اختلافات کے باعث انہیں دو ماہ بعد ہی اپنے عہدے سے
مستعفیٰ ہونا پڑا۔ پاکستان میں جس وقت مارشل لا لگا کر آئین کو منسوخ کیا
گیا تو اس وقت ملک کے وزیراعظم فیروز خان نون تھے۔وہ سولہ دسمبر انیس سو
ستاون سے سات اکتوبر اٹھاون تک وزیراعظم کے عہدے پر رہے۔ 1958 میں مارشل لا
کے نفاذ کے بعد آئین منسوخ ہونے کے ساتھ وزیر اعظم کا عہدہ بھی ختم ہوگیا
اور 1962 میں اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے نیا آئین متعارف کرایا جس میں
پارلیمانی نظام حکومت کو ختم کر کے اس کی جگہ صدارتی نظام رائج کردیا گیا۔
13 برس کے وقفے کے بعد جب وزیراعظم کا عہدہ بحال کیا گیا تو نورالامین کو
وزیراعظم مقرر کیا گیا لیکن مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے چار روز بعد
نورالامین 13 دنوں تک وزیراعظم رہنے کے بعد اس عہدے سے الگ ہوگئے اور
ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ نائب صدر بن گئے اور وزیراعظم کا منصب پھر ختم
ہوگیا۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 14اگست 1973 کو نیا آئین وجود میں
آیا اور ملک میں ایک مرتبہ پھر پارلیمانی نظام حکومت رائج کردیا گیا اور
ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے
جنہوں نے اپنی عہدے کی آئینی مدت پوری کی۔ذوالفقار علی بھٹو دو مرتبہ
وزیراعظم منتخب ہوئے اور پانچ جولائی انیس سو ستتر کو جنرل ضیاء الحق نے
مارشل لاء کر ان کی حکومت کو برطرف کردیا اور چار اپریل انیس سواناسی کو
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ ضیاء الحق کے مارشل لا اور آئین کی
معطلی کی وجہ سے وزیراعظم کا عہدہ ایک مرتبہ پھر متروک ہوگیا اور لگ بھگ
سات برس سے زائد عرصہ کے بعد ملک میں آئین بحال ہوا تو وزیراعظم کا عہدہ
بھی بحال ہوگیا اور 23 مارچ 1985 کو محمد خان جونیجو وزیر اعظم بنے۔ جنرل
ضیاء الحق نے آئین کی بحالی سے پہلے اس میں ترمیم کی جس سے صدر کو اسمبلی
تحلیل کرنے کا اختیار مل گیا۔اس صدارتی اختیار کا پہلا شکار محمدخان جونیجو
ہوئے اور ان کی حکومت 29 مئی 1988 کو ختم ہوگئی۔ جنرل ضیاء الحق نے جونیجو
کی حکومت تحلیل کرنے کے بعد نگران کابینہ تو تشکیل دی لیکن نگران وزیراعظم
کا تقرر نہیں کیا گیا جو پاکستانی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔ 1988 کے
انتخابات میں بینظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم
بنیں تاہم ان کی حکومت بھی اٹھارہ ماہ بعد ہی اٹھاون ٹو بی کا شکار
ہوگئی۔نوے کے انتخابات میں نواز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن غلام اسحاق
خان نے اختلافات کی بناء پر ان کی حکومت کو اٹھارہ اپریل 1993 کو تحلیل
کردیا اور بلخ شیرمرزاری کو نگران وزیراعظم مقرر کیا لیکن نواز شریف نے اس
اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور عدالت نے ایک ماہ اور آٹھ دن کے بعد
انہیں بحال کردیا اس طرح بلخ شیر مرزاری پاکستان کے واحد نگران وزیر اعظم
ہیں جو نہ صرف سب سے کم عرصے کے لیے نگران وزیر اعظم بنے بلکہ اپنی آئینی
مدت بھی مکمل نہ کرسکے۔ عدالتی حکم پر اسمبلی کی بحالی کے باوجود بھی یہ
اسمبلی نہ چل سکی تاہم اس مرتبہ پہلی بار وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ صدر
مملکت یعنی غلام اسحاق کو بھی مستعفی ہونا پڑا اور اس طرح غلام اسحاق خان
نے اسمبلی تحلیل کرنے کے بعد خود بھی استعفی دے دیا۔چیئرمین سینیٹ وسیم
سجاد قائم مقام صدر بنے اور معین قریشی کو نگران وزیراعظم بنایا گیا۔انیس
سوترانوے میں بینظیر بھٹو دوبارہ وزیراعظم بنیں اور اٹھاون ٹو بی کی
موجودگی کی وجہ سے اپنے قابل بھروسہ پارٹی رہنما سردار فاروق احمد خان
لغاری کو صدر منتخب کرایا لیکن بینظیر بھٹو کی یہ حکمت عملی بھی ان کے کام
نہیں آئی اور فاروق لغاری نے ان کی حکومت تحلیل کر کے پیپلز پارٹی کے
سینئیر رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد کو نگران وزیراعظم
بنادیا۔ 1997 کے انتخابات میں نواز شریف بھی دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے
اور بینظیر بھٹو کی مدد سے اسمبلی تحلیل کرنے کے صدر کے اختیار کو ایک
آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کردیا لیکن یہ آئینی بندوبست بھی ان کی حکومت کو
بچانے میں مدد گارثابت نہ ہوا اورجنرل پرویز مشرف نے بارہ اکتوبر کو آئین
معطل کرکے مارشل لاء لگادیا۔ جنرل پرویز مشرف نے وزیراعظم کی جگہ اپنے لیے
چیف ایگزیکٹو کا عہدہ تخلیق کیا اور اس طرح تین برس کے لیے وزیراعظم نام کی
کوئی چیز نہیں رہی۔ اکتوبر دو ہزار دو کے انتخابات میں جہاں نئی اسمبلی
وجود میں آئی وہیں اسمبلی کی تحلیل کا صدارتی اختیار بھی جنرل مشرف کے ایل
ایف او کے ذریعے بحال ہوگیا تاہم صدر مشرف نے اپنے پیش رو کی طرح یہ اختیار
استعمال نہیں کیا لیکن اس کے باوجود اسمبلی نے اپنی آئینی مدت میں تین
وزیراعظم منتخب کیے جن میں میر ظفر اللہ خان جمالی نے ڈ یڑھ سال تک وزیر
اعظم کے منصب پر فائز رہنے کے ان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ شجاعت حسین ڈیڑھ
ماہ کے لیے وزیر اعظم بنے اور اسی دوران سینیٹر شوکت عزیز نے ضمنی انتخاب
لڑا اور اسمبلی کی باقی باندہ مدت کے وزیراعظم چنے گئے۔ صدر پرویز مشرف نے
اسمبلی کی مدت مکمل ہونے پر اس کو تحلیل کر دیا اور چیئرمین سینیٹ میاں
محمد سرمرو کو نگراں وزیراعظم کو بنا دیا جو جنرل ضیا الحق کی نگران وزیر
اعظم مقرر نہ کرنے کے بعد اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ تھا۔اس وقت کے فوجی
صدر نے پندرہ نومبر سال دو ہزار سات کو میاں محمد سرمروکو نگراں وزیراعظم
مقرر کیا۔ انتخابات کی تاریخ آٹھ جنوری دی گئی لیکن ستائیس دسمبر کو پیپلز
پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک خودکش
حملے اور فائرنگ کے نتیجہ میں وفات کے بعد انتخابات کی تاریخ کو آگے بڑھا
کر اٹھارہ فروری کر دی گئی۔انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے
یوسف رضا گیلانی وزیراعظم منتخب ہوئے۔ وزیراعظم گیلانی کو قومی مفاہمی
آرڈیننس یعنی این آر او کے کیس پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے سپریم کورٹ
کے سخت دباؤ کا سامنا رہا اور 19 جون 2012 کو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ
کسی وزیراعظم کو اٹھاون ٹوبی یا فوجی بغاوت کے نتیجے میں نہیں بلکہ قانونی
جنگ میں اپنا عہدہ کھونا پڑا۔سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے این آر عمل
درآمد کیس میں توہین عدالت کا مرتکب پانے پر وزیراعظم گیلانی کو نااہل قرار
دے دیا۔اس کے بعد 22 جون کو پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے
وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔11 مئی کے انتخابات سے قبل سے 16 مارچ کو
قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی اور ملک کی 66 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک
جمہوری حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد نگراں وزیراعظم جسٹس ریٹائرڈ
میر ہزار خان کھوسوکا تقرر کیا گیا۔11 مئی 2013 کے انتخاب میں مسلم لیگ نون
نے اکثریت حاصل کی اور پانچ جون کو جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف نے
تیسری بار وزارتِ اعظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔ مگر نواز شریف کا اقتدار 2017
میں پانامہ اسکینڈل کی بھینٹ چڑھ گیا، نون لیگی حکومتی کی باقی ماندہ آئینی
مدت کے لئے شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیراعظم بنے۔ اور 2018 کے انتخابات
میں پاکستان کے مشہور کرکٹر عمران خان برسراقتدار آئے، جو کہ ابھی تک اس
عہدہ پر براجمان ہیں۔بہرحال یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عمران خان
صاحب بھی درج بالا بدقسمت ترین وزرائے اعظم کلب کا حصہ بنتے ہیں یا نہیں۔
|