3؍اور13؍کے اعداد کو عام طور پر منحوس سمجھا جاتا ہے لیکن
اسمبلی انتخابات میں زبردست کامیابی درج کرانے کے بعد وزیر اعلی یوگی
آدتیہ ناتھ نے دہلی آنے کے لیے تیسرے مہینے کی 13؍ تاریخ کا مہورت نکالا۔
انہوں نے سوچا ہوگا کہ اگر اکھلیش ، جینت اور سوامی پرساد مل کر میرا کچھ
نہیں بگاڑ سکے تو راہو ، کیتو اور شنی کیا اکھاڑ لیں گے۔ دہلی میں جس طرح
مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نےیوگی جی کا استقبال کرکے گلدستہ پیش کیا۔ اس کے
بعد ہوائی اڈے پر ایک ’ہائی ٹی ‘ کا اہتمام اور پھر صدرِ مملکت، نائب صدر،
وزیر اعظم ، وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور وزیر مواصلات سے درجہ بدرجہ ملاقات
کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی غیر ملکی سربراہ دارالخلافہ میں آیا
ہو ورنہ مختلف صوبوں کے وزرائے اعلیٰ دہلی میں آکر یہ نوٹنکی نہیں کرتے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ان کی ملاقات کا بنیادی مقصد تو نئی
حکومت کی تشکیل پر تبادلہ خیال رہا ہوگا کیونکہ ان کے دو نائبین میں سے ایک
تو انتخاب ہار چکا ہے دوسرے نے الیکشن سے کنی کاٹ لی ۔ اس کے علاوہ دس اہم
وزیر انتخاب ہار گئے تو ان کی جگہ نئے چہروں کی تلاش ضروری ہے۔ اس سے فرصت
ملے تو آوارہ مویشی ، گنا بقایہ اور دیگر ترقیاتی منصوبوں پر گفتگو پیش
نظررہی ہوگی لیکن اس کے بغیر ہی انتخابات جیتے جاسکتے ہیں تو سیاستداں ان
فضول امور پر پر اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کریں ؟ عوام کو اگر ان میں مسائل
میں دلچسپی نہیں ہے تو ان کے نمائندے اسے کیوں اہمیت دیں؟
یوگی جی جس دن دہلی آئے اسی دن لکھنو سے یہ دلچسپ خبر بھی آئی کہ اتر
پردیش کی حکومت نے شہری ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج والوں سے
جو جرمانہ وصول کیا تھا اسے متعلق لوگوں کے گھر بھجوایا جائے گا۔ اس رقم کا
چیک تحصیل دفتر کے اہلکار گھر گھر جاکر پہنچائیں گے۔ ضلع انتظامیہ کو اس کا
فرمان جاری کردیا گیا ہےاور چیک بننے شروع ہوگئے ہیں ۔ پیر سے ان کو
پہنچانے کے کام کا آغاز ہوجائے گا۔ اکیلے کانپور میں 33 لوگوں کو 3.66
لاکھ روپیہ واپس کیا جائے گا۔ کسے خبر تھی کہ یوگی کے اقتدار میں لوٹتے ہی
یہ خوشخبری آئے گی۔یہ کام اگر اکھلیش کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ہوتا
یارلوگ نہ جانے کیا کیا کہتے؟ ویسے یوگی سرکار نے اپنی دھاندلی پر قائم
رہنے کے لیے بہت سارے پاپڑ بیلے لیکن ہر مرحلے میں اسے ناکامی ہوئی ۔ سب سے
پہلے تو اس وصولی کو الہ باد ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا مگر یوگی
سرکار کمال ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں پہنچ گئی ۔ وہاں
بھی بہت ٹال مٹول سے کام لیا گیا مگر اس کی ایک نہیں چلی اور بالآخرامسال
18فروری کو سپریم کورٹ نے یوپی کی یوگی حکومت کو پھٹکار لگا کر حکم دے دیا
کہ سی اے اے مخالف احتجاج کے دوران مظاہرہ کرنے والے افراد سے ہرجانہ کے
طور پر وصول کی جانے والی رقم لوٹائی جائے۔
سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو ہراساں کرنے کی خاطر یوپی
انتظامیہ نےنہ صرف ہرجانہ وصول کیا تھا بلکہ سڑکوں پر تصویر سمیت پوسٹر اور
بینر بھی لگوا ئے تھے۔اس پر سپریم کورٹ نے یوگی حکومت کو سخت لتاڑ لگاتے
ہوئے سی اے اے مخالف مظاہرین کو وصولی کے لئے بھیجے گئے تمام نوٹس واپس
لینے کا حکم دیا تھا۔اس رسوائی کے بعد اتر پردیش حکومت نے سپریم کورٹ کو
بتایا تھا کہ اس نے 2019 میں سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف سرکاری اور
نجی املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے بھیجے گئے 274 وصولی کے نوٹس اور
کارروائی کو واپس لے لیا ہے۔اس پر سپریم کورٹ نے مزید کہا تھا کہ جب نوٹس
واپس لے لئے گئے ہیں تو مناسب طریقہ کار پر عمل ہونا چاہیے۔ اگر قرقی غیر
قانونی طور پر کی گئی ہے اور حکم واپس لے لیا گیا ہےتوجن لوگوں سے وصولی کی
گئی ہے ان کو رقم واپس کرنا ہوگی۔
اپنی حکومت کی وکالت کرتے ہوئے یو پی کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے سپریم
کورٹ سے اپیل کی تھی کہ وصولی کی رقم کو واپس کرنے کا حکم نہ سنایا جائے،
کیونکہ یہ رقم کروڑوں روپے میں ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ انتظامیہ کی
طرف سے کیا گیا پورا عمل غیر قانونی تھا۔ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرساد
چاہتے تھے کہ مظاہرین اور ریاستی حکومت کو رقم کی واپسی کی ہدایت دینے کے
بجائے اس دعویٰ کو ٹریبیونل سے رجوع کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ دراصل ٹال
مٹول کر کے عوام کو پریشان کرنے کی آخری کوشش تھی لیکن اس درخواست کو
عدالت عظمیٰ کی بنچ نے مستردکر دیا ۔ اس وحشیانہ سرکاری فیصلے کی حماقت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ نوٹس ایک ایسے شخص کے خلاف بھی
بھیجا گیا جو 6 سال قبل 94 سال کی عمر میں فوت ہو چکا تھا اور 90 سال سے
زیادہ عمر کے دو دیگر افراد کو بھی نوٹس بھیجا گیا ۔ سپریم کورٹ نے اس پر
یوپی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے ناراضی سے کہا تھا کہ ریاستی حکومت سی اے
اے مخالف مظاہرین کو بھیجے گئے ریکوری نوٹس فوراً واپس لے، ورنہ عدالت اسے
منسوخ کر دے گی ۔ سپریم کورٹ کی دلیل یہ تھی کہ اس معاملے میں اتر پردیش
حکومت نے ملزمین کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کی کارروائی کے دوران خود ہی
شکایت کنندہ، استغاثہ اور منصف کے طور پر کام کیا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو کسی
نامعلوم شاعر نے اس شعر میں کہی ہے؎
وہی قاتل وہی شاہد وہی منصف ٹھہرے
اقربا میرے کریں قتل کا دعویٰ کس پر
خیر اگر انتخابی نتائج کی جانب لوٹیں تو اس کا ایک منفرد پہلو یہ ہے کہ
گزشتہ مرتبہ کے مقابلے زعفرانی ووٹ میں اضافہ ہوا۔ اس کا انکشاف ایکزٹ پول
میں ہوا تھا اس کے باوجود بیشتر لوگوں نے کم نشستوں پر کا میابی کی
پیشنگوئی کی تھی۔ یہ ایک غیر منطقی بات تھی کیونکہ عام طور پر ایسا نہیں
ہوتا لیکن یہ بھی ہوگیا۔ مسلمان چونکہ بی جے پی سے بیر رکھتے ہیں اس لیے
انہیں اس معاملے میں کوئی افسوس نہیں ہوا لیکن بی جے پی کے حامی تو ضرور
پریشان ہوں گے کہ ووٹ بڑ ھانے کے باوجود نشستوں میں کمی کیوں ہوگئی؟ اس سے
یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ انتخابی سیاست میں دو جمع دو چار ہی نہیں
ہوتے۔بہت سارے مسلمانوں کو اس بات کا افسوس ہے کہ سماجوادی پارٹی نے انہیں
خاطر خواہ اہمیت نہیں دی اس کے باوجود سائیکل پر مہر لگانے کی مجبوری ان پر
مسلط ہوگئی۔ یہ اچھی صورتحال نہیں ہے لیکن اگر اس کا موازنہ برہمنوں یا
دلتوں سے کیا جائے تو ان کی حالت اور بھی دگرگوں نظر آتی ہے۔
یوگی سرکار کا بلڈوزر مسلمانوں کے علاوہ برہمنوں پر بھی چلا ۔ سرکاری مظالم
کا شکار دلت بھی بڑے پیمانے پر ہوئے اس کے باوجود انہیں مسلمانوں کے خوف سے
اپنے اوپر ظلم کرنے والے کو ووٹ دینا پڑا۔ یہ کس قدر افسوسناک صورتحال ہے
کہ ایک گروہ کسی خیالی ڈر میں مبتلا ہوکر اپنے دشمن کی حمایت پر مجبور
ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں نے کم ازکم اپنے دشمن کے خلاف اپنی رائے کا استعمال
کرکے اپنی حالت کو پہلے سے بہتر بنایا ۔ موجودہ جمہوری نظام میں ہر کوئی
کسی نہ کسی درجہ میں مجبور ہے اس لیے مجبوری کا اندازہ کرنے کی خاطردوسرے
گروہوں اور پچھلے وقتوں سے موازنہ کرنا پڑتا ہے۔ 2017 کے اندر یو پی میں
مسلم ارکانِ اسمبلی کی تعداد تاریخ میں سب سے نچلے درجہ پر پہنچ گئی تھی
یعنی صرف 24؍ امیدوار کامیاب ہوسکے تھے جبکہ اس سے قبل سن 2012 میں ہونے
والے انتخابات میں سب سے زیادہ یعنی 68 مسلم ارکان منتخب ہوکر اسمبلی میں
پہنچے تھے۔ اس کا مطلب تو یہی ہے کہ عروج کے بعد زوال آگیا تھا ۔ اس کیفیت
پر غالب ایاز کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
ہم اس کے جبر کا قصہ تمام چاہتے ہیں
اور اس کی تیغ ہمارا زوال چاہتی ہے
اس بار مسلمانوں نے اپنے آپ کو سنبھالا ہے اور 36 مسلم اُمیدوار اپنی جیت
درج کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس تعداد کو اطمینان بخش تو نہیں کہا
جاسکتا لیکن پہلے سے بہتر تو ضرور ہے۔ صحت کی مانند سیاست کی کیفیت کا
جائزہ بھی موازنہ کرکے کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اگر کسی فرد
کوگھر سے لے جاکر اسپتال کے جنرل وارڈ میں داخل کردیا جائے تو اعزہ و اقارب
فکرمند ہوجاتے ہیں لیکن اگراسی مریض کو جب انتہائی نگہداشت کے کمرے (آئی
سی یو) سے جنرل وارڈ میں لایا جاتاہے تو اہل خانہ اور دوست و احباب اطمینان
کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں اب حالت بہتری کی جانب مائل ہے۔ اس لیے کہ
انہیں توقع ہوتی ہے مشکل ترین وقت ٹل گیا ہے۔ یہ مریض بہت جلد صحت یاب ہوکر
گھر آجائے گا ۔ان انتخابی نتائج سے فی الحال تو یہی اشارہ ملتا ہے کہ اتر
پردیش کے سیاسی دواخانے میں مسلمان آئی سی یو سے نکل کر عام وارڈ میں
آچکا ہے۔ اب کوئی نہیں جانتا کہ یہ مریض کب صحت یاب ہوکر گھر جائے گا؟ اور
گھر بھی جائے گا کہ سیدھا قبرستان جائے گا ؟ ویسے موت بھی ایک ایسی حقیقت
ہے جو ہر کس و ناکس کا مقدر ہے۔
|