حکومت کہتی ہے اسکے پاس 172 ووٹ ہیں جسکی بناء پر حکومت
قائم ہے اور حزب ِ مخالف کہتے ہیں ان کے پاس 162 ووٹ ہیں اگر دس یا بارہ
ووٹ انہیں ملجائیں تو وہ موجود پی ٹی آئی حکومت کو گراسکتے ہیں یہ دسی بارہ
ووٹ حاصل کرلیں کے لئے انہوں نے پی ٹی آئی ان لوگوں سے رابطہ کیا اپنی
قیادت سے شاکی ہیں ۔یا پی ٹی آئی کے سابقہ اہم راہنما جہانگیر ترین سے بھی
رابطہ کیا جنہوں پی ٹی آئی کے بعض شاکی ارکان کا ایک گروپ بنایا ہوا ہے
اسکے علاوہ حزبِ اختلاف والوں چودھری برادران ۔ ایم کیوایم اور حتی کے
جماعت اسلامی سے بھی رابطہ کیا۔ہمارے وطن تعداد کے لحاظ سے تو تین سو
جماعتیں سیاسی طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ مگران میں سے سب سے بڑی موجودہ جماعت پی
ٹی آئی ہے اسکے بعد انہیں بیس کے فرق سے مسلم لیگ نواز شریف ہے پھر پی پی
پی اور جمعیت علمائے اسلام ان جماعتوں کبھی پی پی پی ایک جمہوری پارٹی ہوا
کرتی تھی ۔ مگر آج وہ بھی اپنے اصولوں سے ہٹ کر چل رہی ہے ۔ مسلم لیگ نواز
میں ۔ جمعیت اسلام میں جمہوری فکر بالکل نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو پی ڈی
ایم کی قیادت مسلم لیگ نواز کے ہاتھ میں ہوتی تھی ۔یہ ساری جماعتیں وہی
کردار ادا کررہی جو پاکستان کی تاریخ میں سابقہ حزف اختلاف کرتی رہی کہ جو
بھی لنگڑی لولی جمہوری حکومت ہے اگر ہم اسکا حصہ نہیں تو انہیں ہٹا نا بہتر
ہوگا۔جیسے1977 ذوالفقار علی بھٹو کی مقبول جمہوری حکومت کو ہٹانے کے لئے
MNA نو جماعتوں کا اتحاد بنا۔جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کا حزب اختلاف سے
معاہدہ طے ہوگیا تھا ۔ وہ متنازعہ الیکشن کو دوبارہ کرنے پر راضی تھے ۔ مگر
اسوقت کی حزب اختلاف نے امریکہ سے ملکر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ
الٹوایا ۔ مگر نتیجہ کیا ملا کیا حزب اختلاف کو حکومت ملی ۔ کیا بھٹو کے
زمانے کی مہنگائی جو 1977 میں جسکا دعویٰ حزب اختلاف یہ کرتی تھی اصغر خان
کہتے تھے ہم اس گے 1970 کی قمتیں بحال کریں گے ۔ کیا وہ بحال ہوئی۔نتیجہ
کیا ہوگا ۔ جس راہنما نے ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان کو نہ پختو
نستان بننے دیا نہ بلو چستان گریٹر بلوچستان بننے دیا نہ سندھو دیش بننے
دیا۔ پورا پاکستان بھی بچایا ۔90 ہزار ہمارے POWS بھارت رہا کروائے مقبوضہ
علاقہ خالی کروائے ۔ 20 سالہ جنگ نہ کرنے کا شملہ معاہدہ کیا ۔ اسٹیل کو
کراچی میں لگوایا ۔
عباسی شہید ہسپتال کا اضافہ کراچی میں کیا ۔ ہر ممکن انفرا اسٹکچر بنایا
بڑے شہروں میں اور سب سے بڑ کر پاکستان کو پہلا مسلم جوہری ملک بنایا۔
اس کو حزب اختلاف پھانسی کے پھندے تک لیجایا۔
پھر اسکے بعد دو حکومتیں مسلم لیگ نواز شریف اور دو حکومت بے نظیر کی تھیں
جسمیں عدم اعتماد کو بری طرح ناکام ہوئی مگرHORSE TRADING کا بازار سب نے
دیکھا۔ہمیں جب بھی سوچنا بحثیت شہری کے یہ سوچنا ہے ہمارا وطن کیسے ترقی
کرسکتا ہے۔ ہماری ریاست کیسے مضبوط ہوسکتی ہمیں ایسی قیادت ہو وطن میں
پیداوار بڑھائے ۔ بجلی پانی گیس کی روانی بحال رکھے یا اسکے متبال جو بھی
انرجی وہ سستی کرے کاٹج انڈسٹری کا حال بچھائے ،چھوٹی چھوٹی انڈسٹری بنائے
ملک میں انفرا اسٹکچر اب رسانی ۔ کھیل کے میدان پارک تفریح کا ہوں کی سہولت
ہے سٹی حکومت بنائے اور ایسا الیکشن کمیشن بنائے جومعمولی سے کریٹ امیدوار
کو پیلے ہی نا اہل کردے ۔ تمام سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ قیادت جو سربراہ
ہیں وہ ہر چار سال بعد پارٹی کے الیکشن کے کے منتخب ہوں ۔ کیونکہ موجود
پارٹیوں پر نظر کریں سب کی سب کسی نہ کسی طرح فیملی لمیٹڈ بنی ہوئی ہیں ۔
اسلئے جب کوئی ہٹتا ہے یا نہ اہل ہوتا ہے یا شھید ہوتا اسکی جگہ وہ جانشیں
ہیں تھا جو اسکی سینٹرل ایگزیٹو پارٹی کا ممبر ہوتا ہے۔جب تک ہم خود کونہ
بدلیں گے ہمارے حکمراں ہمیں ایسے ہی لالی پاپ دیتے ہویں گے اور ہم اسی طرح
بے وقوف بنتے رہیں گے ۔ اسی وجہ سے ملک ترقی کے بجائے تنزلی کیطرف بڑھنے
لگا۔ ہمیں اپنے پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام کو لانا ہوتا اسی دور
میں پاکستان ترقی بھی کر رہا تھا ۔ اور ریاست بھی مضبوط تھی اسکے ہمیں
بحثیت قوم کے فیصلے کرنا ہوگا ہمیں عدلیہ اور فوج سے بھی مشورہ کرنا ہوگا۔
ایک بترین پارلیمنٹ بتائی ہوگی جو صرف SANATE سینٹ پر مشتمل ہو۔ دوسری یہ
کہ CITY حکومت ہو بس یہ ملک حیرت انگریز طور پر ترقی کرے گا ہمارے وطن میں
بہت TALENT بھی بہترین کا ریگر مزدور ۔مھندس طیب سائسدان سب ہی۔اگر موجود
حذب اختلاف اپنے ذاتی معاملات سے باہر آجائے یا محب وطن پارٹی ورکر ان کو
ذاتی معاملات کی وجہ وقتی طور پر علیحدہ کردیں تو بہتر ہوگا۔ورنہ عدم
اعتماد وہ گل کھلائے گی کہ لوگ بچھتائے گے بھی اورملک کی Good Governers
بھی جو پہلے خراب ہے مزید خراب ہوجائے۔ حکومت کو بھی چاہیئے عوام کی مشکلات
کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات کرے جس سے عوام کو زیادہ سہولت ملے
اسکے لئے پاکستان میں نظام ٹیکس کو بدلنا ہوگا۔ سب سے پہلے جو بھی
Retailers ہیں چاہے وہ خونچہ لگاتا ہو یا فٹ پاتھ پریا ٹھیلے پر کاروبار
کرتا ہو چاہے کوئی چھوٹی سے چھٹوی دکان ہو چاہے بڑے بڑے شاپنگ مال ہوں۔ یا
پرائیوٹ ڈاکٹر جو کسی ہسپتال میں کلینک چلاتے ہو ں۔ان سب کو پہلے رجسٹرڈ
کریں ان CNIC کی مانند کاروبار یا ذریعہ آمدنی سے صرف منافع پر ٹیکس لیا
جائے جسکا نام INCOME TAX جو باقی جتنے بھی TAXES ہماریUTILITY بلز پر وصول
کئے جاتے ہیں وہاںTAXکا جواز نہیں بلکہ بہت مناسب Services Charges لئے
جائیں اسطرح قدم اٹھانے سے 22 کروڑ عوام میں ایک کڑوڑوں عوام سے خاصہ ٹیکس
مل سکتا ہے۔ختم شد
|