بی جے پی نے اپنی مدت کار میں وکاس دوبے جیسے نہ جانے
کتنے برہمن مافیا کا انکاونٹر کیا مگر انتخاب کے وقت برہمنوں کا ووٹ حاصل
کرنے کی خاطر انہیں بھلا کر مختار انصاری کا نام خوب اچھالا گیا۔ پنجاب سے
ان کو اترپردیش لانے کی کہانی اس طرح پیش کی گئی گویا داود ابراہیم کو
پاکستان سے لے آیا گیا ہے۔ یوگی ادیتیہ ناتھ سے لے کر امیت شاہ تک بلواسطہ
اور مودی خود بلاواسطہ مختار انصاری سے ہندو سماج کو ڈرا ڈرا کر ووٹ مانگتے
رہے ۔ اس مقصد کی خاطر گودی میڈیا کے ذریعہ یوگی کو ہیرو بنانے کی خاطر
انہیں ولن بنایا گیا ۔ مختار انصاری کو لے کر سیاسی دباو اس قدر زیادہ تھا
کہ لوگ سوچ رہے تھے کہ اس بار راجہ بھیا جیسا باہو بلی تو انتخاب لڑے گا
لیکن کوئی پارٹی مختار انصاری کے قریب نہیں پھٹکے گی مگر ایسا نہیں ہوا۔
سماجوادی پارٹی کی حلیف ایس بی ایس پی نے مؤ اسمبلی سیٹ سے مختارانصاری
کےبیٹے عباس انصاری کو ٹکٹ دیا اور انہوں نے بی جے پی کے اشوک کمار سنگھ کو
38,227 ووٹوں سے ہرادیا۔
اترپردیش میں فی الحال ’سنگھ از کنگ‘ یعنی ٹھاکروں کا بول بالہ ہے ۔
رگھوراج پرتاپ سنگھ عرف راجہ بھیا ایک ٹھاکر باہو بلی ہیں ۔ اپنی غنڈائی کے
بل بوتے پر وہ ۷ مرتبہ انتخاب جیت چکے ہیں ۔ اس بار انہیں بی جے پی نے ان
کی بلاواسطہ حمایت کرنے کے لیے ٹھاکروں کے حلقہ میں ایک برہمن امیدوار
سندھو جا مشرا کو میدان میں اتار دیا اور وہ صرف 16347ووٹ حاصل کرسکے۔
پچھلی بار راجہ بھیا کے سامنے سماجوادی پارٹی نے اپنا امیدوار نہیں اتارا
تھا اور وہ ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے ۔ اس بار ایس
پی نے ان کے ایک سابق شاگرد گلشن یادو کو میدان میں اتار دیا ۔
اکھلیش یادو نے کنڈا کے جلسۂ عام میں عوام سے پوچھا کہ ’’کنڈا کو لوگو اس
بار خود کو آزاد کروگے یا نہیں اور جو لوگ کنڈا میں راج کرتے ہیں ان کو
کنڈی لگا کر جواب دوگے یا نہیں‘‘۔ اس مہم کے باوجود گلشن یادو جیت تو نہیں
سکے مگر راجہ بھیا کے کامیابی کا فرق ایک لاکھ سے گھٹ کر 30,418پر آگیا ۔
ڈیڑھ لاکھ کے فرق سے گلشن یادو کو ہرانے کا خواب دیکھنے والے راجہ بھیا ایک
لاکھ ووٹ نہیں پاسکے جبکہ سماجوادی امیدوار کو 68843 ووٹ مل گئے۔ اسے کہتے
ہیں ہارنے کے باوجود ایک ہیرو کو زیرو بنا دینا۔ عباس انصاری کی جیت کے
سامنے راجہ بھیا کی یہ کامیابی پھیکی لگتی ہے۔
عباس انصاری کے علاوہ غازی پور کے محمد آباد سے سابق ایم ایل اے صبغت اللہ
انصاری کے فرزند اور مختار انصاری کے بھتیجے صُہیب انصاری نے بھی بی جے پی
کی ایم ایل اے الکا رائے کو 18,199 ووٹوں سے شکست دے کر بتا دیا کہ یوگی جی
ذرا سنبھال کر قدم بڑجائیے کیونکہ ٹائیگر اب بھی زندہ ہے۔ اس بار نہ سہی
اگلی بار تو کھاہی جائے گا ان شاءا للہ۔ اس بار اسمبلی انتخاب میں کامیاب
ہونے والے مسلم رہنماوں میں ایک نہایت محترم نام نظا م آباد (اعظم گڑھ) کے
85 سالہ عالم بدیع صاحب کا بھی ہے۔ اس بے لوث سماجی خادم نے اپنی عمر کا
طویل حصہ عوام کی خدمت میں کھپا دیا لیکن کبھی کوئی داغ ان کے دامن پر نہیں
لگا ۔ اسی لیے کبر سنی کے عالم میں بھی عوام نے انہیں دوبارہ منتخب کرکے
اپنے اعتماد کا اظہار کیا ۔ انہوں نے بی جےپی کے منوج کو34,187 ووٹوں سے
شکست دی۔ میرٹھ کے کیتھور اسمبلی سیٹ پر سماج وادی کےشاہد منظور نے بی جے
پی کے ستویر سنگھ کو 2,180 ووٹوں کے فرق سے ہرا کر بتا دیا کہ اصلی ہیرو
ایسا ہوتا ہے ۔
مغربی اترپردیش سے بی جے پی کے ہیرو سنگیت سوم اور صوبائی وزیر سریش رانا
کو شکست فاش سے ہندوتوا کی بہت بڑی شکست تھی ۔ یہ دونوں 2013 میں ہونے والے
مظفر نگر فسادات کے ملزم ہیں۔ سنگیت سوم کو میرٹھ کی سردھنا سیٹ سے ایس پی
امیدوار اتل پردھان نے ہرایا۔ سردھنا بی جے پی کا گڑھ ہے۔ اس سیٹ پر بی جے
پی ایم ایل اے سنگیت سوم نے سال 2012 اور 2017 میں اتل پردھان کو شکست دے
چکے ہیں مگر اس بار پردھان کی جیت نے گویا مظفرنگر فساد کی بنیاد پر
پھیلائی جانے والی نفرت انگیزی کو بے اثر کر دیا۔ سردھنا سیٹ پر پہلی بار
کسی ایس پی امیدوار نے کامیابی حاصل کی ہے۔ سنگیت سوم کا ہیرو سے زیرو
ہوجانا ہندوتوا کی سیاست پر کلنک ہے۔ سنگیت سوم کے علاوہ مظفر نگر فسادات
کے ایک اور ملزم امیش ملک کو بدھانا سیٹ پر راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) کے
راج پال سنگھ بالیان نے 8444 ووٹوں سے شکست دے دی۔
سنگیت سوم کے ساتھ امیش ملک پر بھی 2013 کے مظفر نگر فسادات کے دوران فرقہ
وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑ کر فسادات بھڑکانے اور نفرت پھیلانے کا الزام
تھا۔ بی جے پی کے ان دونوں ہی ارکان اسمبلی کو اس وقت کی ایس پی حکومت نے
گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا، لیکن 2017 میں دونوں ہی جیت گئے
تھے۔مظفر نگر فسادات کے ایک اور ملزم حکم سنگھ بھی تھے۔ ان کی بیٹی مرگانکا
سنگھ کو کیرانہ سیٹ پر ہار ملی ۔ ہندوتوا نوازوں کی شکست و ریخت صرف مغربی
اترپردیش تک محدود نہیں رہی بلکہ مشرقی اترپردیش کے بلیا نگر اسمبلی حلقہ
میں بھی اس کا اثر نظر آیا ۔ کٹر ہندو شبیہ کے مالک ریاستی وزیر آنند
سوروپ شکلا کو بیریا سیٹ پر ایس پی کے جئے پرکاش آنچل نے 12951 ووٹوں سے
شکست دے دی۔موصوف نے اذان کے خلاف قدم اٹھانے کی دھمکی دینے کے بعد
مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ رام اور شیو کو معبود مان لیں اور ہندوستانی
ثقافت کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں۔ تبلیغی جماعت کو ’انسانی بم‘ کہنے والا
یہ زعفرانی بم بھی پھسکا نکلا اور پھٹے بغیر بجھ گیا ۔ کیا یہ ہندوتوا کی
شکست نہیں ہے؟
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سارے عالم میں فی الحال ہندوتوا کا سب سے بڑا
چہرا ہیں۔ ان کے قریبی اور پوروانچل میں ہندو یوا واہنی کے رہنما راگھویندر
سنگھ بھی الیکشن ہار گئے۔ یوگی کے اقتدار میں رہتے ہندو یوا واہنی کے لیڈر
کا ہار جانا ہندوتوا کے ساتھ ساتھ خود وزیر اعلیٰ کے لیے باعثِ شرم ہے ۔ یہ
وہی سابق رکن اسمبلی ہے جس نے ڈومریا گنج میں ‘ہندو سماج کو نیچا دکھانے کی
کوشش کرنے والوں کو برباد کرنے’ کی دھمکی د ی تھی ۔’ہندو یووا واہنی‘ نامی
بدنامِ زمانہ تنظیم کو یوپی کے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 2002
میں قائم کیا تھا۔نوجوانوں کی اس تنظیم نے 2004، 2009 اور 2014 میں آدتیہ
ناتھ کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے رہنما رگھویندر سنگھ
کو یوگی نے ڈومریا گنج سے میدان میں اتارا جہاں جملہ رائے دہندگان کا
تقریباً 39.8 فیصد (یعنی لگ بھگ ایک لاکھ 73 ہزار) مسلم ووٹرز ہیں۔ یہ
استاد اور شاگرد کی بیجا خود اعتمادی تھی جس نے دونوں کو رسوا کردیا ۔
وزیر اعلیٰ کے اس بدزبان شاگرد نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس گاؤں کا ہندو
اگردوسری طرف جاتا ہےتو جان لو کہ اس کے اندر میاں کا خون دوڑ رہا ہے…وہ
غدار ہے، جئے چند کی ناجائز اولا ہے۔ وہ اپنے باپ کی حر…می اولادہے۔انہوں
نے مزید کہا تھا کہ ، ہندو دوسری طرف جاتا ہے تو اس کو سڑک پر منہ دکھانے
لائق نہیں رکھنا چاہیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ووٹ نہیں دینے والوں کے ساتھ
کیا سلوک کرتے ہیں؟ رگھویر نے دعویٰ کیا تھا کہ ،اگر وہ دوبارہ ایم ایل اے
بنتے ہیں تو میاں لوگوں کے سر سے گول ٹوپی غائب ہو جائے گی اور وہ تلک
لگانا شروع کردیں گے۔ اب رگھویر انتخاب ہار چکے ہیں اس لیے انہیں تلک لگانا
ترک کرکے گول ٹوپی پہننا شروع کردینا چاہیے ۔ مسلمانوں کی خود ساختہ دہشت
گردی کے خاتمہ کا اعلان کرنے والے کی دہشت گردی رائے دہندگان نے ختم کردی
ہے۔
راگھویندر نے یہاں تک کہا تھا کہ یہاں جے شری رام کا نعرہ لگے گا یا وعلیکم
السلام کا؟تو ان کے حامیوں نےجواب دیا تھا جے شری رام کا۔ انھوں نے لوگوں
سے اپیل کی کہ وہ درگا دیوی کی قسم کھائیں کہ وہ بی جے پی کو ہی ووٹ دیں
گے۔تقریر دوران اذان ہونے لگی تو مسلمانوں کو گالیاں دیتے ہوئے کہا کہ اذان
دینے کے لیے کس سے اجازت لی ہےاور پھر مسجدوں سے لاوڈ اسپیکر اتروا نے کی
دھمکی دی۔ پچھلی بار حلقہ ڈومریا گنج سے بی جے پی کے راگھویندر پرتاپ سنگھ
مودی لہر کے باوجود سماجوادی پارٹی کی امیدوار سیدہ خاتون سے محض 171 ووٹوں
کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے۔ یہ ان کی دوسری فتح تھی لیکن اس بار وہ اپنے
پرانے حریف سیدہ خاتون سے 56 ہزار کے فرق سے ہار گئے ۔ عوام نے اترپردیش کے
مشرق و مغرب سے ہندوتوا کے پوسٹر بوائز کو دھول چٹا دی ہے ان میں سب سے بڑا
چہرا سابق نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ کا ہے جو سابق ریاستی صدر بھی
تھے اور اپنے آبائی گاوں میں ۷ہزار تین سو ووٹ سے ہار گئے ۔ اس لیے بی جے
پی کی اس فتح کا سہرا ہندوتوا کے سر باندھنا درست نہیں ہے۔ |