اسلامو فوبیا کے خلاف دن کی احمقانہ مخالفت

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ’عالمی یوم مسرت‘ کے پانچ دن قبل 15 مارچ کو پوری دنیا میں اسلاموفوبیا کے خلاف ایک دن منانے کا خوش آئند فیصلہ کیاگیا۔ اس تجویز کی منظوری نے مودی سرکار کو غمزدہ کردیا ۔ اس غم و اندوہ کی کئی وجوہات ہیں مثلاً پاکستان کہ شئے پر اس کا پیش کیا جانا اور ہندوستان اور فرانس کی مخالفت کے باوجود اسے منظوری ملنا۔ کسی قوم خلاف نفرت کے خاتمہ کی کوشش پسندید ہونی چاہیے لیکن جہاں سیاست کی بنیاد ہی اسلام کے خلاف نفرت پر ہو تو وہاں یہ بات کیسے قابلِ قبول ہوسکتی ہے؟ مودی جی اگر اسلاموفوبیا کے خلاف دن کے موقع پر ایک ٹویٹ کرنے کی جرأت کر دیں تو نہ جانے کتنے اندھے بھگت انہیں ٹاٹا بائی بائی کہہ دیں گے کیونکہ ووٹ کی خاطرمسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا پھیلا کرسنگھ پریوار نے اپنے پیروکاروں کا دماغ خراب کررکھا ہے۔ اسلاموفوبیا کی حمایت میں ہندوستان کے شانہ بشانہ فرانس یعنی دنیا کی وسیع ترین اور قدیم ترین جمہوریت نے یک زبان ہوکر اپنی مسلم دشمنی کا کھلے عام اعتراف کرلیا ۔ ویسے ان دونوں جمہوری ممالک کے درمیان رافیل بدعنوانی کاایک خفیہ رشتہ بھی ہے۔

اقوام متحدہ میں اس مسئلہ پر ہندوستانی ترجمان کے دلائل بڑے دلچسپ تھے ۔ انہوں نےیہ مضحکہ خیز انکشاف کیا کہ ہندو، بدھ اور سکھ مذاہب کے خلاف بھی فوبیا بڑھ رہا ہے۔ ایسا کائنات کے کس سیارے میں ہورہا ہے اس کا علم شاید مودی جی اور ان کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ پہلے تو ہندو وں کو مسلمانوں سے لڑایا جاتا تھا لیکن اب میانمار، سری لنکا اور چین میں بدھ مت کے ماننے والے بھی مسلم دشمنی پر اتر آئے ہیں اس لیے یہ نہایت احمقانہ دلیل ہے ۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ہندوستانی نمائندے ترومورتی نے دیگر مذاہب کے تئیں بڑھتے ہوئے فوبیا کی کئی مثالیں دیں ۔ اس میں سب سے پہلے طالبان کے ہاتھوں افغانستان میں بامیان بدھا کی تباہی کا ذکر فرمایا لیکن اس 22 سال پرانے واقعہ کے بارے میں وہ بھول گئے کہ بامیان کی حیثیت عبادتگاہ کی نہیں تھی اس لیے کہ وہاں مذہبی رسومات ادانہیں ہوتی تھیں ۔ دنیا بھر کے سیاح وہاں تفریح کے لیےضرور آتے تھے اس لیے ان کی تباہی کو کسی مذہب خاص سے جوڑنا زیادتی ہے۔ ویسے مودی سرکار نے بھی کاشی کاریڈور بنانے کی خاطر نہ جانے کتنے قدیم مندروں کو راستے سے ہٹا دیا۔ یہ کام اگر کوئی اورنگ زیب کرتا تو اس کو نہ
جانے کتنا بدنام کیا جاتا ؟

اقوام متحدہ میں ہندوستانی نمائندہ نے نہ جانے کس ’ گرودوارہ کمپلیکس کی خلاف ورزی‘ کا ذکر کیا جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نے تو کرتاپورہ گردوارہ کے لیے خصوصی راہداری کھلوا دی اور اس کے افتتاحی تقریب میں خود وزیر اعظم عمران خان نے شرکت کی ۔ یو این میں ہندی سفارتکار ’ گرودوارہ میں سکھ یاتریوں کے قتل عام‘ کا ذکر کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ وہ کام سرزمین ہند پر گولڈن ٹیمپل میں ہواتھا ۔ آپریش بلیو اسٹار ایک ایسا زخم ہے جسے سکھ قوم کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ پاکستان میں ’ مندروں پر حملے ،مندروں میں بتوں کوتوڑنے‘ کے نازیبا واقعات ضرور ہوئے لیکن اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی اور عدلیہ نے ہمیشہ ان کی مرمت کرواکر ہندو اقلیت کے حوالے کیا۔ عام باشندوں نے اس حرکت کی مخالفت کی جبکہ ہندوستان میں صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔ اس لیے دوسروں کی جانب پتھر پھینکنے سے قبل اپنے شیش محل پر ایک نگاہِ غلط ڈال لینی چاہیے۔
مودی سرکار کو اسلاموفوبیا کے دن کی تجویز سے اتنی زیادہ پریشانی تھی تو یوکرین کی مانند ووٹ دینے سے اجتناب کرلیتے تاکہ مسلم دنیا میں کچھ تو بھرم رہتا لیکن ان سے یہ بھی نہیں ہوسکا اور قلب کے اندر چھپا بغض و عناد اچھل کر باہر آگیا۔ ویسے فی الحال ہندوستان اور فرانس میں مسلم مخالفت اہل اقتدار کی ایک انتخابی ضرورت بن گئی ہے۔ اس لیے وہ دونوں مجبور ہیں ۔ اقوام متحدہ میں ہندوستانی ترجمان کی اگلی دلیل بھی کم دلچسپ نہیں تھی ۔ انہوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ قرارداد کسی مخصوص مذہب کا انتخاب کرکے مذہبی عدم برداشت کے خلاف لڑائی میں تقسیم پیدا کرتی ہے۔ انہوں نے اپنے ملک کا وکالت کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کو فخر ہے کہ اس میں تمام مذاہب کو یکساں احترام دینے کی روایت ہے۔ یہ بات ہے نہیں بلکہ اس وقت تھی جب اس ملک پر مسلمان حکومت کرتے تھے۔ انگریزوں نےوطن ِ عزیز میں پھوٹ ڈال حکومت کرنے کی جو بنیاد ڈا لی تھی اس راہ پر موجودہ حکومت روں دواں ہے ۔

اس بیان میں تمام مذاہب کا یکساں احترام کرنے کی روایت کا ذکر ہے لیکن اسے جس طرح فی الحال پامال کیا جارہا ہے اس کی مثال مسلمانوں کی آمد سے پہلے والی تاریخ میں شودروں اور اچھوتوں کے خلاف تو ملتی ہے لیکن بعد میں یہ سلسلہ بند یا بڑی حد تک کم ہوگیا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ اب پھر سے نسلی تشدد میں اضافہ ہورہا ہے ۔ اس کے علاوہ دنیا کے نقشے پر غالباً ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں ہجومی تشدد کے بعد دہشت گردوں کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ ان کو سزا دینے کے بجائے سیاسی پشت پناہی کی جاتی ہے۔ کرناٹک جیسے صوبے میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ طالبات کے سرپر دوپٹہ دیکھنے تک کا روادار بھی نہیں ہے ایسے میں برداشتِ باہم کے الفاظ بے معنیٰ ہوجاتے ہیں ۔ ترومورتی اگر ملازمت کے خوف سے شتر مرغ کی مانند اپنے دامن پر لگے داغ نہ دیکھ پا رہے ہوں تب بھی دنیا نہ صرف دیکھ رہی ہے بلکہ ان کے بیان کو پڑھ کر ہنس رہی ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی جانب سے پیش کردہ اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوستان کے مستقل ترجمان ترومورتی نےیہ بھی کہا کہ ،’’ہندو مت کے 1.2 ارب سے زیادہ پیروکار ہیں، 535 کروڑ سے زیادہ بدھ مت کے اور 30 ​​کروڑ سے زیادہ سکھ مذہب کے ماننے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم مذہبی بنیادوں پر فوبیا کی موجودگی کو قبول کریں ناکہ کسی ایک مذہب کے خلاف فوبیا کی بات کریں‘‘۔ پچھلے آٹھ سالوں کے اندر اگر ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان نہیں اٹھایا جاتا تو شاید اس دن کا اہتمام کرکے اسے کم کرنے کا فیصلہ نہ کرنا پڑتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ’’ اقوام متحدہ کو ایسے مذہبی معاملات میں نہیں پڑنا چاہیے‘‘۔ یہ اس ملک کا نمائندہ کہہ رہا ہے جہاں وزیر اعظم رام مندر کے تیسرے بھومی پوجن(سنگ بنیاد) میں شرکت کرتا ہے تو سارے چینلس پر اس کا جشن منایا جاتا ہے۔ انتخاب جیتنے کے لیے گنگا میں ڈبکی لگائی جاتی ہے اورالیکشن سے پہلے کیمرے کے سامنے پوجاہوتی ہے۔ گجرات کے اندر ایک مذہبی کتاب مہابھارت کو نصاب میں شامل کروادیاجاتا ہے اور جھوٹ پر مبنی ایک نفرت انگیز فلم کشمیر فائلس کی کھلے عام تشہیر کی جاتی ہے ۔ ایسی منافقت کا مظاہرہ انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہوگا۔

اقوام متحدہ میں ہندوستانی نمائندے نے کہا کہ تمام مذاہب کا احترام کرنے والے جمہوری ملک کے طور پر ہندوستان نے صدیوں سے دنیا بھر میں ان کے مذہب اور عقائد کی وجہ سے ستائے جانے والے لوگوں کا ہمیشہ خیرمقدم کیا ہے۔یہ بھی ماضی کی داستانِ پارینہ ہے۔ترومورتی کو یہ کھوکھلا دعویٰ کرنے سے قبل اپنے گریبان میں جھانک کر شہریت ترمیم قانون (سی اے اے ) پر نظر ڈال لینی چاہیے ۔ اس قانون کے اندر پہلے تو ڈھٹائی کے ساتھ تین مسلم پڑوسی ممالک کو دیگر غیر مسلم ممالک سے الگ کیا گیا۔ اس تفریق کے بعد مسلمانوں کے علاوہ ہر مذہب کا نام لے کر اس کے پیروکاروں کو تحفظ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی مخصوص مذہب کا نام لے کر اس کے خلاف ہونے والی نفرت انگیزی کی مخالفت عدم برداشت کو فروغ دیتی ہے تو اسی مذہب کے لوگوں کو منتخب کرکے انہیں خصوصی مراعات سے محروم کردینا کیا کرتا ہے؟ ترومورتی کی حالت زار پر مصطفیٰ خان شیفتہ کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449541 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.