اکثر ہم محاورے کے طور پر ایک عرصے سے سنتے چلے
آرہے ہیں اور خاص طور پر مختلف جماعتوں کے رہنماؤں اور دیگر لوگوں سے کہ
مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑدی ہے۔ لیکن یہاں صورت حال اب دوسری ہے
۔پہلے تو یہ بتائیں کے مہنگائی کرتا کون ہے ۔
جب ہر کوئی کہتا ہے مہنگائی نے غریب عوام کی کمر توڑدی ہے۔ آج کی اپوزیشن
یا کل کی اپوزیشن میں شامل لوگ غریب عوام کا سہارا لیکریہی راگ سناتے تھے
اور سنا رہے ہیں۔ پورا پاکستان مہنگائی کی زد میں آ جاتا ہے۔ تو پھر تلاش
کیا جائے یہ کون لوگ ہیں جو آئے دن مہنگائی مہنگائی مہنگائی آسمان سے باتیں
کرتی ہیں۔
بقول اِن لوگوں کے دراصل مہنگائی بڑی بات نہیں بلکہ عوام کی قوت خرید تک
پہنچانا ہر ارباب اختیار کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے لیکن اس میں ہم ناقص
ٹھہرے جب مہنگائی کا رونا ہر کوئی روتا ہے تو پھر مہنگائی کون کررہا ہے کیا
دیگر مخلوق کرتی ہے جو نظر نہیں آتی تا ہم لوگ مہنگائی کے عذاب سے بالکل
تنگ ہیں اور اسی کو بہانا بنا کر آج کی اپوزیشن بھی عوام کی مہنگائی نے کمر
توڑدی ہے کا سہارا لے رہی ہے روزمرہ کی اشیاء میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے
کسی حد تک تو صحیح ہے لیکن انہیں حکومت اور اپوزیشن کو اپنے گریبان میں
جھانکنا ضروری ہے کہ کل کی اپوزیشن پی ٹی آئی جو آج کی حکومت ہے اوریہ
سلسلہ عرصے سے جاری ہے پھر بھی عوام۔۔ وہیں کی وہیں۔۔کھڑی ہے۔ عوام کا کوئی
پرسان حال نہیں اگر ہم رزق حلال کی تلاش میں روزمرہ زندگی میں جو ضروریاتی
اشیاء استعمال ہوتی ہیں اس میں لگے رہیں تو مہنگائی کا تصور ختم ہو جائے گا
۔منافع خوری ۔ذخیرہ اندوزی سے گریز کریں اپنے مال کو جھوٹ دھوکہ دہی سے نہ
خرید و فروخت کریں اور نہ ہی بے ایمانی کا عنصر اپنے اندر پیدا کریں۔ رزق
حلال کو تلاش کرنا اور اس کو اپنے خاندان میں تقسیم کرنا فرض میں شامل کے
ساتھ ساتھ رزق میں برکت کا ذریعہ بھی ہے۔ جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ امیر غریب
قدرت کا ایک عمل ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ بے شک اﷲ جس کو چاہتا ہے بے حساب
رزق عطا کرتا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے یعنی روزی بندے کو ایسے تلاش کرتی
ہے جیسے اسے اس کی موت کرتی ہے ۔ مہنگائی کو سستائی میں تبدیل کرنے کا
اصولی نظام کوئی بھی حکومت ہو اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے انجام دیں
۔اور خاص طورپر انتظامی امور کو بہتر سے بہتر بنانے کے اقدامات پر عمل
درآمد کرانے کے لیے مربوط پالیسی ہوگی تو مہنگائی مہنگائی مہنگائی کا رونا
رونے کاآج کی اپوزیشن یا پھر کل جو اپوزیشن ہوگی اسے موقع نہیں ملے گا
۔کیونکہ یہ عوام کا سردرد نہیں متعلقہ اداروں کی ذمہ داری میں شامل ہے۔ جب
ملک کی عوام کو اس کے جائز حقوق ملیں گے تو عوام خوش حال بھی ہوگی اور ملک
ترقی کریگا۔ اس مہنگائی کے حوالے سے کل کی اپوزیشن پی ٹی آئی جو کہ حکمراں
جماعت ہے اس نے دعوے وعدے عوام کو سبز باغ دکھائے تھے کیا اور کیاکچھ نہیں
کہا تھا عوام نے اس کا نتیجہ دیکھ لیا اور اب اپوزیشن جس میں شامل جماعتیں
مسلم لیگ پی پی پی جے یو آئی اور دیگر جس کا نام پی ڈی ایم رکھا گیا ہے وہ
موجودہ صورت حال میں حکومت کی ناقص کارکردگی کی بنیاد پر سراپا احتجاج ہے ۔
موجودہ حکومت کو معزول کرنے کے لیے پی ڈی ایم اپوزیشن نے پی ٹی آئی حکومت
کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی
اجلاس بلانے کی ریکوزیشن 8 مارچ کو اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی تھی
جو کہ چودہ دن کے بعد رکن قومی اسمبلی خیال زمان سابق صدر رفیق تارڈ ،مرحوم
سینیٹر رحمن ملک پشاور مسجد دھماکے کے شہدا کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ
خوانی کے بعد اسپیکر نے ماضی کی روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی اسمبلی کا
اجلاس پیر تک ملتوی کردیا۔ ملک کی موجودہ صورتحال کو قریب سے دیکھنے والے
ہمارے معززین اپنے کالموں میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں ۔محمود شام لکھتے ہیں
کہ گھر کے بڑوں کو مخاطب کرکے کہ آج اتوار ہے۔ دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوکر
ایک کام کریں اپنی اولادوں کو پنسل کاغذ دیں اور یہ کہیں کہ سیاستدان کے
بارے میں ان کے ذہن میں جو آتا ہے پنسل کی مدد سے کاغذ پر اس کی ڈرائنگ
بنائیں۔ پھر دیکھئے کیا ظہور میں آتا ہے ان کے ذہن میں معزز رہنماؤں کا جو
بھی تصور آتا ہے وہ سیاستدانوں کی باہمی قصیدہ گوئی سے جنم لے رہا ہے۔ کیا
قابل احترام خواتین و حضرات جو ہماری قیادت کے دعویدار ہیں۔ اپنے ذخیرۂ
الفاظ۔ اپنی زبان۔ اپنے تکیۂ کلام کے بارے میں سوچتے ہیں کہ اس سے ان کا
کیا تصور ابھرا ہے بہت پُر ہجوم تماشا لگا ہوا ہے کھڑکی توڑ اتوار ہے دو
تین روز میں تخت یا تختہ ہونے والا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ عمران خان ارکان اسمبلی کی
ایک بڑی تعداد سے باقاعدگی سے ملنے سے گریز کرتے رہے ہیں۔انہوں نے لکھا کہ
پارلیمانی نظام سے اولیں تقاضا یہی ہے کہ ایم این اے کا اپنے حلقے کے لوگوں
سے فعال رابط ہونا چاہئے۔ پارٹی لیڈر کا اپنے منتخب ارکان سے چاہے حکومت
میں ہوں یا اپوزیشن میں۔اگر یہ رشتہ کمزور ہوتا ہے ۔توجمہوریت کمزور ہوتی
ہے
محمد عرفان صدیقی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا ؟
اچانک ہی ملک کی سیاست میں رونما ہونے والی افراتفری نے بہت سے سوالات نہ
صرف پیدا کردیئے ہیں بلکہ بہت سے سوالات کے جواب بھی دے دیئے ہیں جن کا
اندازہ مستقبل قریب عوام کو ہوجائے گا، اب حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت
بھنور میں پھنس چکی ہے اور کچھ پتہ نہیں اس بھنور سے نکل بھی سکے گی یا
نہیں خیر وقت ہی بتائے گا ، لیکن فی الوقت کپتان کی حکومت ڈانواں ڈول ہوچکی
ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ اتحادی سمیت کوئی اسے سہارا دینے کو تیار نہیں
دوسری جانب حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی پائیدار نہیں
ہوسکی کہ اگر حکمراں جماعت کی قیادت پر عدم اعتماد کامیاب ہوجائے تو اسی
جماعت کا دوسرا لیڈر ملک کی قیادت سنبھال سکے پاکستان کے مقابلے میں جاپان،
امریکہ اور برطانیہ میں ایک ہی حکمراں جماعت میں کئی کئی لیڈر : وزارت
عظمیٰ یا منصب صدارت کے اہل سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اب تک یہ
روایت نہیں پڑی، محمد عرفان صدیقی آخر میں لکھتے ہیں کہ کپتان کے خلاف عدم
اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کی صورت میں ملک میں کون سا نیا سیٹ اپ آتا ہے
اور جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا؟ سررہ گزر میں پروفیسر سید اسرار بخاری
لکھتے ہیں کہ عوام اور حکومت کو مہنگائی مار گئی جس طبقے میں بھوک ہوگی وہ
کسی کا نہیں ہوسکتا پیٹ کے بگڑنے سنور نے کا تعلق مہنگائی، ارزانی سے ہے سب
سے پہلے اگر قیمتوں کو نیچے لانے پر توجہ دی جاتی تو حکومت، عوام جڑے رہتے
مہنگائی وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر وہ ایوان اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ آج کا
عدم اعتماد سے ہر کوئی اپنا اپنا مطلب پورا کر رہا ہے صرف عوام ہی بے مراد
ہیں۔
رسولﷺ کا فرمان ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ محرومی کفر سے نہ جا ملے اس حدیث میں
حکمرانی کا ایسا گُر ہے کہ آج تک کسی گرو نے نہیں بتایا۔ ریاست مدینہ کا
نام جپنا کسی ریاست کو نہیں بچا سکتا کرپشن کے خاتمے سے پہلے عوام کو پیٹ
بھر کر کھانے کا اہتمام کرنا چاہیے تھا۔ لنگر کھانے قوموں کو بھکاری اور
عیش کوش بنادیتے ہیں تماشائی اکٹھا کرنے سے بھی حکومت کی بدنیتی ظاہر
ہوجاتی ہے سیانے کہتے ہیں کہ اول طعام پھر کلام اور جب اول آخر کلام ہو تو
سمجھ لیں کہ حکمران آپ کے لیے پیٹ کا سامان نہ کرنے کے لیے آیا ہے جبکہ اس
سے قبل پروفیسر سید اسرار بخاری نے عمران خان کے متعلق لکھا تھا کہ عمران
خان بلے باز کے بجائے پنجابی فلم کے ہیرو کا روپ اختیار کرچکے ہیں شاید وہ
اب سمجھتے ہیں کہ سلطان راہی کیوں کامیاب ہیرو تھا اور ضعیف العمری کے
باوجود شباب کے ہمراہ اپنے جوہریوں دکھاتا تھا کہ جیسے انہوں نے بڑکیں
مارنے میں ورلڈ کپ حاصل کیا ٭۔۔۔((( روزنِ دیوار سے عطاالحق قاسمی نے نئے
پاکستان کے بانی کے عنوان سے اپنے کالم میں منیر نیازی کا ایک واقعہ کا ذکر
کیا کہ ان کا ایک نوجوان مداح ان سے ایک دن کہنے لگا خان صاحب میرا جی
چاہتا ہے کہ دریا کا کنارہ ہو ایک خوبصورت رقاصہ ہو جس کا ہاتھ رباب کے
تاروں پر ہو شام کا وقت ہو اور ہمارے ہاتھوں میں جام ہوں: منیر نیازی نے
کہا بچے! یہ سب کچھ ہو مگر تم وہاں نہ ہو٭ تحریر کا سلسلہ جاری ہے؛۔
|