کاش عثمان بزدار کو ’’سیاست‘‘ آتی ہوتی تو آج وہ اس سیاسی
تعفن زدہ ماحول میں یوں ’’اَن فٹ‘‘ تصور نہ ہوتا ۔ بزدار اگر سیاست کا قائل
ہوتا تو آج وہ سب کیلئے قابل قبول بھی ہوتا اور صحیح معنوں میں ڈیلیور بھی
کر رہا ہوتا ۔ کیونکہ ہمیں وہم ہے کہ بزدار بطور وزیر اعلیٰ ڈیلیور نہیں کر
سکے ۔ شاید ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ فقط تشہیری حربے استعمال کرنے والے ہی
ڈیلیور کر پاتے ہیں ۔ درست ہے ، کیونکہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب مور اپنے پنکھ پھیلاتا ہے تو اس کی خوبصورتی
دنیا کو دکھائی دینے لگتی ہے۔ صرف مور کے ناچنے پر ہی فوکس رکھنے والے اس
کی اصل خوبصورتی دیکھنے سے بوجوہ محروم ہی رہتے ہیں ۔
بزدار کا قصور شاید یہ ہے کہ اس نے اپنے تئیں جو ’’ڈیلیور‘‘ کیا ، اس کی
مناسب تشہیر نہ کر سکا ، یا پھر شاید اس انداز میں نہ کر سکا جو ’’بعض
حلقوں‘‘ کی ’’ڈیمانڈ‘‘ ہے ۔ بزدار کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ وہ باریاں لگا
کر وزیر اعلیٰ نہیں بنا ۔ پہلی مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے والا عثمان بزدار ،
پہلی باری لینے والے وزیر اعظم عمران خان کا انتخاب ہے ۔ وہ ایک سادہ مزاج
انسان ہے ، جسے دوسروں کی طرح چالاکیاں نہیں آتیں ۔ اس وجہ سے بزدار کو وہ
’’تجربہ‘‘ حاصل نہیں ، جو تین چار مرتبہ باریاں لینے والوں کو حاصل ہے ۔
اپنے ساڑھے 3 سالہ دور میں بزدار نے صوبے کو بیشتر نئے کالجوں ،
یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں کے قیام ، مراکز صحت اور تعلیمی اداروں کی اپ
گریڈیشن ، نئے انڈر پاسز اور اوور ہیڈ برجز کا تحفہ دیا ۔ لیکن ہم کہتے ہیں
کہ بزدار نے ڈیلیور نہیں کیا …… پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بارشی
پانی کے ذخیرہ کیلئے سمال ڈیمز کی تعمیر کر کے ایک انقلابی تبدیلی کا آغاز
ہوا …… صحت کارڈ ، احساس راشن پروگرام ، پناہ گاہوں کے قیام ، نوجوانوں میں
روزگار کیلئے قرضوں کی تقسیم کا آغاز ، کسان کارڈ جیسے دیگر فلاحی
پروگرامات بھی بزدار کا خاصہ ہیں لیکن یہ شاید پراجیکٹس بھی اس قابل نہیں
جو بزدار کو اچھی سروس ڈیلیوری کا سرٹیفیکیٹ تھما سکیں …… بزدار دور میں
قومی خزانے کو چونا لگانے کی بجائے ترقیاتی کاموں کی لاگت پر ماضی کے
مقابلے میں قومی خزانے کی ریکارڈ بچت کی گئی ۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود
شاید بزدار درست طریقے سے ڈیلیور نہیں کر سکا اور ہم اس سے ڈو مور کا تقاضہ
کرتے رہے ۔
بزدار نے لوگوں کے مسائل کے ازالے کیلئے اقدامات کئے اور پہلی مرتبہ ایوان
وزیر اعلیٰ کا دروازہ عوام کیلئے کھولا ۔ عوامی ریلیف کی مد میں اشیائے
خوردونوش پر ریکارڈ سبسڈی دی ۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ بزدار ڈیلیور نہیں کر
سکا …… عثمان بزدار واحد وزیر اعلیٰ ہے ، جس کے دور میں تشہیر پر سب سے کم
بجٹ خرچ کیا گیا اور اداروں میں ریفارمز لائی گئیں ۔ لیکن شاید یہ کاوشیں
بھی اس کی بہترین سروس کی مد میں شمار نہیں کی جا سکتیں ۔
ہم نے ’’بھلے مانس‘‘ بزدار کی ’’سادگی‘‘ کا مذاق بنایا ، صوبے کی ترقی اور
عوام کی فلاح کیلئے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے
ہے ، مگر بزدار کسی کی سازش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خاموشی سے سر جھکائے
اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا رہا ۔ کیونکہ اسے ایسی سیاست نہیں آتی جیسی ہمارا
وطیرہ بن چکی ہے ۔ اُس نے اِس حمام میں نہانے کی بجائے خود کو صوبے کی عوام
کیلئے وقف کئے رکھا ۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ بزدار ڈیلیور نہیں کر سکا ۔
ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہماری دشنام طرازی کا جواب ہماری ہی زبان میں دے اور
تعمیری کی بجائے ہمارے ہاں رائج تنقیدی اور منفی سیاست کا حصہ بن جائے ۔
ہاں سب ٹھیک ہی کہتے ہیں ، بزدار جیسا شخص ایسے ماحول میں اَن فٹ ہے ۔ جو
شخص ایسی سیاست کا حصہ نہیں بن سکتا ، اس کا وزارت اعلیٰ کے منصب سے ہٹ
جانا ہی بہتر ہے ۔ تاہم یہ امر بھی حقیقت ہے کہ بزدار جیسا ٹھنڈے مزاج کا
حامل ’’بے ضرر‘‘ وزیر اعلیٰ ہمیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا ۔
بہرحال جانے والوں کو الوداع کہنا اور آنے والے کا استقبال کرنا ہی دنیا کا
دستو ر ہے ۔ مگر یہ طے ہے کہ بقیہ ماندہ حکومتی سیشن کیلئے بزدار سے اگلا
وزیر اعلیٰ کوئی بھی ہو ، یقینی طور پر وہ صوبے کو ترقی کے بام عروج پر لے
جانے کی کوشش کرے گا اور چاہے گا کہ اپنے اقدامات سے اپوزیشن کو مزید
پچھتانے اور پیچ و تاب کھانے پر مجبور کرے ۔ تاہم فقط اپنے مفادات کی خاطر
ایسے شریف طبعیت افراد کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والوں کو یاد رکھنا
چاہئے کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک نہیں لا رہے بلکہ جمہوریت کو عدم استحکام
سے دوچار کرنے جا رہے ہیں۔
|