تاریخ گواہ ھے ۔۔۔

میں سیاسیات کا ایک ادنٰی سا طلب علم رہا ھوں ۔۔
خان صاحب جس ملک ولائت کی آپ مثالیں دیا کرتے تھے کیا وہاں اسیا کبھی ھوا ھے نہیں ۔
ایک دفعہ وہاں ایک
un constitutional کام ایک فوجی جنرل نے کیا تھا اور اس کو کئی سال بعد قبر سے نکال اس کی ڈیڈ باڈی کو بھی سزا دی کئی تھی ۔۔
سقراط وہ پہلا یونانی مفکر تھا جس نے سیاست اور مہذب کو الگ الگ کیا تھا ۔۔
وہ اس وقت مذہبی پشواوں کے سامنے کھڑا ھو گیا تھا جب کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔اس وقت سیاست پر کلیساؤں کا راج تھا ۔۔
سب نے اس کو سمجھایا کہ آپ اپنے فلسفے سے باز آ جاوں ورنہ انجام کچھ اچھا نیہں ھو گا۔۔
لیکن اس نے صاف انکار کر دیا اور اس پر ڈٹ گیا تھا کہ مذہب ایک سچ ھے اور سیاست جھوٹ اور فریب کا دوسرا نام ھے یہ دونوں کام ایک مذہبی پیشوا سر انجام نہیں سے سکتا ۔۔
آخر اس وقت کے بادشاہ کے دربار میں جب اس کو طلب کیا گیا تو اس سے پوچھا گیا کیا تم اپنی بات سے منحرف ھو یا قائم تمام اس وقت کی قوم یوتھ جو اس کے ساتھ کھڑی تھی اس کو کہا کہ آپ اپنے افکار سے منحرف ھو جاو چلوں ھم یہاں سے باگ جاتے ھیں۔۔
لیکن جابر بادشاہ نے سقراط کے سامنے دو پیالے رکھے اور سقراط کو کہا گیا کہ ایک کا انتخاب کرو وہ وہاں یو ٹرن لینا چاہتا تو لے لیتا لیکن اس نے ہنسی خوشی شراب اور زہر کے پیالے کا انتخاب کیا اور بادشاہ کے سامنے یہ ہنس کر آخری لفظ بولے کہ سچ ھمشہ زندہ رہتا ھے اور چھوٹ فریب کی کوئی زندگی نیہں۔
آج کے بعد ایک سقراط جب ایک سقراط اس دنیا سے چلا جائے گا حق اور سچ کہتے ھوئے تو میرے مرنے کے بعد میرا ہر شاگرد سقراط ھو گا۔
اور پھر ایسا ہی ھوا اس کی موت کے بعد بڑے بڑے بادشاہوں کے محل ٹوٹنے لگے۔
خان صاحب دنیا آج اس بادشاہ کے نام سے بھی ناواقف اور آخر کار بادشاہ بھی اس دنیا سے چلا گیا سچ و حق کی بات کرنے والے کو آج بھی ہر جگہ یاد کیا جاتا ۔۔اور بادشاہ کی قبر آج بھی لوگ لعن تعن کرتے ھیں۔۔۔
خان صاحب آپ اور کچھ نہ کرتے صرف اپنے فلسفے پر قائم رہتے ۔آپ چند دنوں کے اقتدار کے لیے پوری ملک کے کے قانون کو پامال نہ کرتے ۔۔
اس ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہاں جو ایک دفعہ آیا وہ دوبارہ نہیں اسکا۔
آپ نے چند دنوں کے اقتدار کے لیے اس ساری بساط کو لپیٹنے کی جو کوشش کی ھے وہ تاریخ میں ھمشہ لکھی جائے گئ سیاسیات کے طالب علم اس کو پڑتے رہیں گے۔
خان صاحب آپ جس کو آپ لوٹا کریسی یا dirty politics نام دیا کرتے تھے اس سے آپنے آپ کو بچا کر آپ تاریخ میں امر ھو سکتے تھے لیکن آپ نے کہا اسیا نہ کیا بلکہ چند دنوں کے اقتدار کو ترجیح دی ۔
تاریخ گواہ ھے جس نے بھی اپنا فلسفہ اور ضمیر بدلا وہ تاریخ میں گمنام ھو گیا ۔
اس سے پہلے بھی ھمارے کئی وزیراعظم چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھر چلے گئے کسی نے شور نیہں ڈالا ۔
آپ عزت کے ساتھ گھر چلے جاتے اور اس چند دنوں کے اقتدار کو لات مار دیتے تو آپ ھمشہ سقراط کی طرح تاریخ میں زندہ رہتے آپ کی پارٹی ھمشہ قائم رہتی لیکن افسوس کہ ایسا نہ ھوا ۔۔
اب آپ کی تاریخ بھی ان جابر اور ابن وقت ڈکٹیٹر سے کچھ مختلف نیہں ھو گئ جن کو تاریخ آج بھی اچھے الفاظ میں یاد نیہں کرتی ۔
آخر میں خان صاحب مذہب اور سیاست دو الگ چیزیں ھیں ان دونوں کو اکھٹا نہیں کیا جاسکتا ایک وقت میں ایک ہی کارڈ کھلا جا سکتا مذہب یا سیاست۔۔
اگر آپ سیاست کے رموز افکار سے ناواقف ہی سہی لیکن آپ کھیل کے میدان کے تو بہت بڑے کھلاڑی ھیں آپ نے بہت میچ جیتے اور کئی ہارے ۔۔جیت اور ہار کیھل کا حصہ ہوتا ھے ۔۔
لیکن اسیا کبھی نہیں ھوا کہ جب دوسرے کی باری آئے اور آپ کو لگے کہ وہ جیت رہا ھے تو آپ وکٹیں ہی لے کر باگ جائیں۔۔
 

Malik Khan
About the Author: Malik Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.