مہاراشٹر کی سیاسی کرونولوجی میں جب 6؍ اپریل کو نیشنلسٹ
کانگریس پارٹی کے قومی صدر شرد پوار وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات تو
قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا۔ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ سنجے راوت ڈر گئے
ہیں اور مصالحت کروانا چاہتے ہیں ۔ شرد پوار نے ملاقات کے بعد دیگر مسائل
کے علاوہ سنجے راوت کے معاملے پر گفتگو کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کے
ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ ان کی جائیداد ضبط کی گئی ہے۔ بی جے پی رہنما ای ڈی
کے حوالہ سے دھمکی دیتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ سنجے راوت کے خلاف
کارروائی کی کیا ضرورت تھی؟ کیا ایسا اس لیے کیا گیا کہ وہ حکومت کے خلاف
بولتے ہیں؟ مہاراشٹر میں شیوسینا، این سی پی اور کانگریس کی متحدہ حکومت کے
حوالے سے شرد پوار نے واضح کیا کہ حکومت مستحکم ہے اور آنے والے انتخابات
ایک ساتھ لڑے جائیں گے نیز یہ اتحاد اگلے اسمبلی انتخابات میں بھی کامیاب
ہو گا ۔ وزیر اعظم کے ساتھ شردپوار کی ملاقات کے ایک دن بعد 7؍ اپریل کو
مرکزی حکومت کو سنجے راؤت نے پھر سے چیلنج کرکے مصالحت کے امکان کو مسترد
کردیا ۔ انہوں نے لکھا کہ ’’ مہاراشٹر اور ہمارے خلاف جنگ چھیڑنے والوں سے
میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہم تیار ہیں۔ مہاراشٹر ای ڈی، این سی بی وغیرہ مرکزی
ایجنسیوں کے سامنے بلند و بالا رہے گا۔ ایک وقت آئے گا جب آپ ہمارے سامنے
گھنٹوں کے بل جھک جاؤ گے۔‘‘
اس ٹویٹ والے دن ایک نیا تنازع منظر عام پر آیا جس میں ایک 53 سالہ فوجی
کی شکایت پر ٹرامبے پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا ۔ اس میں کریٹ
سومیا اور ان کے بیٹے نیل کے خلاف طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس
وکرانت کو بچانے کے لیے جمع کیے گئے 57 کروڑ روپئے سے زیادہ کے چندے میں
مبینہ بے ضابطگیوں کے لیے دھوکہ دہی کاالزام لگایا گیا ہے۔ آئی این ایس
وکرانت کو 1961 میں ہندوستانی بحریہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس میجسٹک کلاس
کے طیارہ بردار جہاز نے 1971 کی پاک ہندوستان جنگ کے دوران مشرقی پاکستان
کی بحری ناکہ بندی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا مگر جنوری 2014 میں اسے آن
لائن نیلامی کے ذریعے فروخت کردیا گیا تھا۔شکایت کنندہ کے مطابق سومیا نے
آئی این ایس وکرانت کے لیےچند اکٹھا کرنے کی مہم شروع کی مگر رقم کو گورنر
کے دفتر میں جمع کرانے کے بجائے بے ضابطگی کی گئی ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے
سنجے راوت نے کہا کہ کریٹ سومیا اور ان کے بیٹے نیل کو آئی این ایس وکرانت
کیس میں جیل جانا ہوگا۔ کریٹ سومیا نہ مہاراشٹر کے غدار تو ہیں ہی ، اب
غدار وطن بھی ثابت ہوگئے ہیں۔
اس طرح یہ بات واضح ہوگئی کہ بی جے پی اور شیوسینا کے درمیان جاری سرد جنگ
اب روس اور یوکرین تنازع میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے
کہ ہندوتوا کی حامی یہ دو جماعتیں جو برسوں تک ساتھ رہنے کے بعد آخر ایک
دوسرے کےخون کی پیاسی کیوں ہوگئیں؟ اس معاملے میں سابق وزیر اعلیٰ دیویندر
فردنویس کی ضد کہ میں پھر سے شیوسینا کو رسوا کرکے اپنا عہدہ سنبھالوں گا
بی جے پی کا دھرم سنکٹ بن گیا۔ اجیت پوار کو نائب وزیر اعلیٰ بناکر 72؍
گھنٹے کی رسواکن حلف برداری کے بجائے اگر وہ ادھو ٹھاکرے کے بیٹے ادیتیہ کو
اس عہدے پر فائز کردیتے توشاید یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ شیوسینا کی جانب سے
ڈھائی سال وزارت اعلیٰ کے عہدے کا مطالبہ تو صرف مول بھاو کے لیے تھا مگر
فردنویس نے اسے انا مسئلہ بنا لیا اور ہنوز اس آگ میں جل رہے ہیں۔ اجیت
پوار تو نئی حکومت میں پھر سے نائب وزیر اعلیٰ بن گئے مگر فردنویس منہ تکتے
رہ گئے۔
مہا وکاس اگھاڑی میں شامل تینوں جماعتوں کے اندربظاہر بڑے اختلافات نظر
آتے ہیں لیکن وہ ہیں نہیں ۔ دوجماعتوں میں سے ایک کا نام نیشنلسٹ کانگریس
پارٹی اور دوسری کا نام انڈین نیشنل کانگریس ہے۔ شر دپوار کانگریسی تھے ،
ہیں اور رہیں گے۔ شیوسینا کی کانگریس سے قربت جگ ظاہر ہے۔ یہ حقیقت کون
نہیں جانتا کہ مہاراشٹر میں اشتراکیوں کا اثر زائل کرنے کی خاطر کانگریس نے
سینا کو پال پوس کر بڑا کیا ۔عبدالرحمٰن انتولے اور وسنت داداپاٹل کے
آشیرواد سے ہی یہ بلی شیر بن گئی۔ جہاں تک ہندوتوا اور سیکولرزم کا تعلق
ہے یہ سب اقتدار کی خاطر استعمال کیےجانے والے ہتھکنڈے ہیں جنہیں حسب ضرورت
اختیار کیا جاتا ہے اور ترک بھی کردیا جاتا ہے۔ ہندوستانی سیاست فی الحال
ابن الوقتی اور موقع پرستی کی بنیادوں پر پھل پھول رہی ہے اور نظریہ کا
انتقالِ پرملال ہوچکا ہے۔
مہا وکاس اگھاڑی کا بیرونی تضاد بی جے پی کے اندر بھی سرائیت کرچکا ہے۔ فرد
نویس نے پچھلے الیکشن سے قبل بہت سارے کانگریسیوں اور این سی پی رہنماوں کو
اپنی پارٹی میں شامل کیا مثلاً کرپا شنکر سنگھ اور نارائن رانے تو شیوسینا
چھوڑ کر کانگریس میں آئے تھے۔ اسی طرح این سی پی کے گنیش نائک اورمہاراشٹر
نونرمان سینا کے پروین دریکر سمیت کئی لوگوں کو بی جے پی نے اپنی پناہ میں
لے لیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پہلے زمانوں میں بی جے پی خود ان پر بدعنوانی
کے الزامات لگاچکی ہے مگر اب بھول گئی۔ مہا وکاس اگھاڑی انہیں گڑے مردوں کو
اکھاڑ رہی ہے۔ مہاراشٹر کے اندر بی جے پی رہنما کریٹ سومیا بدعنوانی کا
الزام لگانے میں پیش پیش ہوا کرتے تھے اب وہی بہتان طرازی پارٹی کے پیروں
کی زنجیر بن گئی ہے مثلاً کانگریس کے سابق صوبائی وزیر مملکت برائے داخلہ
کرپا شنکر سنگھ پر 300 کروڈ سے زیادہ کی غیر قانونی جائیداد جمع کرنے کا
الزام لگایا گیا تھا لیکن 2016 میں فردنویس کے آشیرواد سے وہ بری ہوکر بی
جے پی میں چلے آئے۔ اب اگر نئی حکومت اس کی تفتیش شروع کردے تو کریٹ سومیا
کو اپنا الزام واپس لینا ہوگا ۔
کریٹ سومیا نے 2017 میں نارائن رانے کی سات کمپنیوں کا کچاّ چھٹاّ بھی ای
ڈی کو سونپا تھا اور اس پر کارروائی کا آغاز بھی ہوگیا تھا مگر 2019 میں
وہ بی جے پی میں آگئےاور اب انہیں مرکزی وزیر بنادیا گیا۔ اس لیے ان کے
سارے پاپ دھل گئے ۔ ای ڈی کو وہ نظر ہی نہیں آتے ۔ اس معاملہ کی تفتیش میں
بیچارے کریٹ سومیاّ کو اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑے گا ۔ رانے اور ان کے بیٹے
نتیش کی گردن سشانت سنگھ راجپوت کی منیجر دِشا سالیان کے معاملے میں بھی
پھنسی ہوئی ہے۔ ان باپ بیٹوں نے بلا ثبوت خودکشی سے قبل دشا کی عصمت دری کا
الزام لگا دیا تھا ۔ اس پر دشا کے والدین نے بھی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کو
بنیاد بناکر اعتراض کیا ہے۔ اس معاملے میں پولس ۹ گھنٹوں تک نارائن رانے سے
تفتیش کرچکی ہے ۔ بی جے پی رہنما موہت کمبوج پر آرین خان معاملے میں اغواء
اور تاوان وصول کرنے کا الزام ہے۔ اس سے بچنے کے لیے وہ ہنومان چالیسا
بجانے والوں کو مفت میں لاوڈ اسپیکر بانٹنے کا تماشا کررہے ہیں تاکہ اپنے
گناہ چھپا سکیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ساری دنیا پر بدعنوانی کا الزام لگانے والے کریٹ سومیاّ
کا دامن بھی داغدار ہے ۔ شیوسینا رہنما سنجئے راوت نے کریٹ سومیا اور بیٹے
نیل کے پی ایم سی بنک بدعنوانی کے ملزم راکیش بادھوان سے قریبی تعلقات کا
پردہ بہت پہلے فاش کردیا تھا ۔ خیر یہ سب تو چھوٹی مچھلیاں ہیں لیکن
مہاوکاس اگھاڑی کی نظر اب دیویندر فردنویس جیسی بڑی مچھلی پر بھی ہے۔ دو
معاملات میں فردنویس کی گردن پھنس سکتی ہے۔ ان پسندیدہ ’جل یکت شوار‘
پروجکٹ کے اندر کئی معاشی اور انتظامی کوتاہیاں سامنے آئی ہیں ۔ اس معاملے
سابق وزیر اعلیٰ پر مقدمہ درج کرنے کے بعد ان کا بیان لیا جاچکا ہے۔ دوسرا
اور بھی سنگین معاملہ فون ٹیپنگ کا ہے۔ ممبئی پولس کو تشویش ہے کہ آخر
خفیہ شعبے کی معلومات ان تک کیسے پہنچیں؟ اس معاملے میں آئی پی ایس افسر
رشمی شکلا پر غیر قانونی طریقہ پر سیاسی رہنماوں کے فون ٹیپ کرنے کا الزام
ہے اور اس معاملہ کی بھی جانچ چل رہی ہے۔ ابھی حال میں سابق بی جے پی وزیر
ایکناتھ کھڑسے رشمی کے خلاف اپنی گواہی دے چکے ہیں ۔ ایسے میں اگر یہ ثابت
ہوجائے کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس کے ایماء پر یہ گھناونی حرکت
کررہی تھیں تو دونوں مشکل میں پھنس سکتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے مہاراشٹر کے اندر کرپشن کا قلع قمع کرنے والی ای ڈی کو
زعفرانی بدعنوانی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ اس نے بھی نارنگی عینک لگا رکھی
ہے۔ پچھلے سال یہ پوچھے جانے پر کہ کیا عدالت عظمیٰ میں بھی بدعنوانی
ہےسابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ٹیلی ویژن پر برملا کہا تھا کہ ’ جج آسمان
سے نہیں گرتے ۔ بدعنوانی اتنی ہی قدیم ہے کہ جتنی ہمارا معاشرہ ہے۔
بدعنوانی زندگی گزارنے کا ایک طریقہ بن گئی ہے۔ ایک ایسا طرز حیات جسے اب
لوگ تسلیم کرتے ہیں ‘۔ عدلیہ کی اگر یہ حالت ہے کہ جسے اپنی کرسی کے لیے
کروڈوں روپئے خرچ کرکے انتخاب نہیں لڑنا پڑتا تو سیاستدانوں کا کیا کہنا ؟
اس لیے وہ بیچارے تو گلے گلے تک اس میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن مرکزی سرکار ان
سب کو نظر انداز کرکے مہاراشٹر کے سیاستدانوں کی پیچھے پڑی رہتی ہے۔ یہ
واحد صوبہ ہے جس کے اکہتر ّسالہ وزیر داخلہ انل دیشمکھ اور اقلیتی امور کے
وزیر نواب ملک جیل کی چکی پیس رہے ہیں۔ اس کی وجہ موجودہ چیف جسٹس این وی
رمنا کی حالیہ تقریر میں ملتی ہے ۔ انہوں نے سی بی آئی کے زیر اہتمام
کوہلی لیکچر میں خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ اس کی غیر جانبداری عوام کی نظروں
میں مشکوک ہوگئی ہے ۔ یہ درست بات ہے کیونکہ اگر آئینی ادارے مرکزی حکومت
کے آلۂ کار بن کر اسے سیاسی فائدہ پہنچانے لگیں تو یہی ہوگا۔ اس کا سب سے
بڑا ثبوت مہاراشٹر کی سیاست ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|