عید تو ابھی کئی دن بعد آنے والی ہے مگر مبارکبادوں،
تہنیتی پیغامات کا تبادلہ اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہونے کا سلسلہ چل پڑا
ہے ۔ اگر کوئی پوچھے تو اسکا جواب یہ ہے کہ عید تو نہیں پر حزب اختلاف کو "امپورٹڈ
اقتدار " کی دید ضرور ہوئی ہے اور یہ گہما گہمی اسی کے سبب ہے ۔ گزشتہ دنوں
سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر
وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو برقرار رکھا اور بروز ہفتہ
ووٹنگ کرانے کا حکم بھی صادر کیا تھا ۔ وزیراعظم اور حکومت کا اصرار تھا کہ
حکومتی تبدیلی امریکی سازش ہے اور اس ضمن میں امریکی خط بھی بطور ثبوت
موجود ہے مگر عدالت نے حکومتی موقف کو اہمیت دینے کے بجائے ووٹنگ کا حکم
دیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں ۔ وہی
شہبازشریف جنھوں نے قوم کو بھکاری کہا تھا ، جنھوں نے امریکہ کے بغیر
پاکستان کا گزارہ مشکل قرار دیا تھا اب وہی " امریکی خادم اعلی " بننے
جارہے ہیں ۔ حزب اختلاف کا کردار تو سب کے سامنے واضع ہے مگر عدلیہ نے عجلت
میں فیصلہ کرکے قوم کو مایوس ضرور کیا ہے ۔ تاریخ میں یہ بھی لکھا جائے گا
کہ ایک وزیراعظم کو کسطرح اندرونی اور بیرونی عناصر نے مل کر اقتدار سے
ہٹایا ۔ عدلیہ کو آئین کی فکر لاحق تھی مگر افسوس کہ اسی عدلیہ نے آئین سے
ماوراء تاریخ کے سیاہ ترین فیصلے کئے ہیں جن میں اب ایک اور اضافہ ہوگیا ہے
۔ اس عدلیہ نے ماضی میں " تھیوری آف لیگل پوزیٹیویزم " عرف عام میں "ڈاکٹرین
آف نیسیسٹی " یا نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کئے ہیں جو عدلیہ کے کردار پر
سوالیہ نشان اور بدنما داغ ہیں ۔ اسی عدلیہ اور کورٹ نے 1958 میں جنرل ایوب
کے مارشل لاء کو اس بنیاد پر جائز قرار دیا تھا کہ لوگ اسکے خلاف نہیں نکلے
جسکا مطلب ہے کہ وہ اس اقدام سے راضی ہیں ۔ اسی عدلیہ کے چیف جسٹس انوار
الحق نے بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا تھا ۔ یہی عدلیہ اور جج انوارالحق تھے
جنھوں نے نصرت بھٹو کی ضیاء کے مارشل لاء کے خلاف پٹیشن کو خارج کیا تھا
اور نظریہ ضرورت کے تحت یہ فیصلہ دیا تھا کہ " چونکہ اسلام میں جان بچانے
کے لئے سور کا گوشت کھانے کی اجازت ہے لہذا ضیاء کا مارشل لاء بھی ضرورت کے
تحت جائز ہے " ۔ یہی عدالت اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ملک قیوم نے
شہباز شریف کے کہنے پر سیاسی فیصلے کئے ۔ اسی جج نے نواز حکومت کے وزیر
قانون خالد انور اوراحتساب کمیشن کے سربراہ سیف الرحمن کے کہنے پر بینظیر
اور زرداری کو سزائیں دیں جبکہ یہ تمام باتیں آڈیو رکارڑ میں محفوظ بھی ہیں
۔ قارئین! یہی عدالت تھی جسکے چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے مشرف کو آئین میں
ذاتی طور پر ترمیم کرنے کا حق دیا تھا ۔ اسی عدالت کے چیف جسٹس افتخار محمد
چوہدری نے مشرف کو باوردی صدارتی انتخابات لڑنے کی اجازت دی جبکہ اسمبلیاں
اپنی مدت پوری کرنے کے قریب تھیں ۔ یہ تو چند مثالیں ہیں پاکستانی عدلیہ کا
دامن ایسے کئی سیاہ داغوں سے داغدار ہے ۔ جبکہ آج کی عدلیہ نے بھی وزیراعظم
کی بارہا پیشکش کے باوجود، چینی و روسی گواہی کے باوجود ، دوست ممالک کے
تحفظات کے باوجود امریکی دھمکی آمیز خط اور حکومت خلاف سازش سے چشم پوشی
کرتے ہوئے ایک ایسا فیصلہ دیا ہے جسکے ملکی دفاعی و سیاسی حالات پر منفی
اثرات مرتب ہونگے ۔عدلیہ نے جہاں بلاول اور شہبازشریف کا موقف سنا وہی
وزیراعظم کو طلب کرکے انکا موقف کیوں نہ سنا؟ جب ملکی سلامتی کا معاملہ تھا
اور حکومت خلاف سازش تھی تو تحقیقات کا حکم کیوں نہ دیا؟ عدالت کو چاہیے
تھا کہ ایک کمیشن قائم کرکے تحقیقات کرواتی پھر بھلے عدم اعتماد کی تحریک
پر بحث ہوتی مگر افسوس کہ ایک بار پھر عدلیہ نے مایوس کن فیصلہ دیا ہے ۔ یہ
بات بھی دلچسپ ہے کہ وہی شہبازشریف وزیراعظم ہیں جنھوں نے ماضی میں خود
ججوں کو کال کرکے من پسند فیصلے کروائے ہیں ۔ جس نے قوم کو بھکاری قرار دے
کر قومی وقار کو خاک آلود کیا ہے جن سے قومی خودمختاری اور آذادی کا تحفظ
ممکن نہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ وزیراعظم کرپشن کے کئی مقدمات میں مطلوب اور
فرد جرم عائد ہونے والی ہے ۔ جنکے اذہان غلامی میں جکڑے ہوں ایسے افراد
قومی راہنما بننے کی قابل نہیں ہوتے ہیں ۔ بڑی مدت بعد قوم نے ایک ایسا
راہنما پایا تھا جس نے قومی مفاد کی بات کی، جو بیرونی طاقتوں کے سامنے
نہیں جھکا، جس نے عالم اسلام کو متحد کرنے کی کوشش کی، جس پر بدعنوانی کا
کوئی داغ نہیں تھا مگر شاید ہماری قوم ہی بدقسمت ہے جسے ایسے راہنما راس
نہیں آتے ہیں ۔ کسی کو قتل کردیا جاتا ہے، کوئی سولی چڑھتا ہے تو کوئی
اندرونی و بیرونی سازشوں کی نظر ہوجاتا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آزاد قوم
کے بھکاری حکمران کونسی دودھ اور شہد کی نہریں بہاتے ہیں ۔ شاید عوام کے
پاس پھر ایسا موقع مدتوں بعد آئے کہ وہ فیصلہ کریں کہ انھیں کیسی قیادت
درکار ہے ۔ کیا وہ قومی مفاد پر سمجھوتہ کرنے والی ، قومی حمیت کا سودا
کرنے والی یا ایک دھمکی پر جھکنے والی قیادت چاہتے ہیں یا ایک بہادر، قومی
مفاد کو مقدم رکھنے والی اور بدعنوانی سے پاک قیادت کے خواہاں ہے ۔ اگر
ماضی قریب نہیں تو 2023 کے انتخابات قریب ہیں ۔۔۔۔۔۔
|