کراچی شہر پاکستان کے وجود سے
پہلے بھی آباد تھا یہی وجہ ہے کہ یہاں کئی سو پرانی عمارتیں موجود ہیں ،
رہائشی مخدوش عمارتوں کی نشادہی کیلئے محکمہ بلڈنگ کنٹرول کی جانب سے ہر
سال وقتاً فوقتاً تحریری نشاندہی کی جاتی رہی ہے اور اب تک کم از کم ایک سو
ستاسی عماریں ایسی ہیں جنکی حالت انتہائی مخدوش ہونے کے باعث خطرناک حد تک
جا چکی ہیں لیکن اس کے حل کیلئے کوئی مثبت اقدامات نہی کیئے گئے ہیں ، ان
عمارتوں میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندان آباد ہیں ان کی ذریعہ
معاش اس قدر بہتر نہیں کہ یہ ان عمارتوں کی مرمت کیلئے رقم خرچ کرسکیں ،
حکومت وقت اور سیاسی لیڈران کی شاہ خرچیوں کے باعث پاکستان دن بدن مہنگائی
کی گہرائی میں ڈوبتا چلا گیا ہے اور انہیں عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں
، تمام سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے کبھی مل جاتے ہیں تو کبھی
خون کے پیاسے ہوجاتے ہیں۔ اپنے کارکنان کیلئے ہر ناجائز امور کو کرنے میں
زرا بھی عار نہیں محسوس کرتے جبکہ ایک عام ووٹر اپنے اہل خانہ کی کفالت
کیلئے تگ و دو میں زندگی کی جنگ ہار تا جارہا ہے مگر یہ بے حس، خود غرض،
منافق اور مکار سیاست دان ، سیاسی پارٹیاں اور حکمران وقت نشے اور عیاشیوں
میں مست ہاتھیوں کی طرح ناچ رہے ہیں ۔۔۔ یوں تو کراچی میں مخدوش عمارتیں
آئے روز گرتی چلی آرہی ہیں جس سے ہزاروں خاندان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے
ہیں مگر یہاں سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ان عمارتوں میں رہائش پزیروں کو
دوسری جگہ منتقل کیوں نہیں کیا جاتا جب تک کہ کوئی حادثہ پیش نہ آئے، اور
جب حادثہ پیش آجاتا ہے تو علاقے کے کونسلر، ڈی سی او، منتخب نمائندگان،
وزرائ، مشیر، لیڈران اور صدر و وزیر اعظم کے تعزیتی پیغامات آجاتے ہیں اور
عوام میں پہنچ کر سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔۔۔۔یوں
دو چار روز گزرنے کے ساتھ ہی نا عوام کو یاد رہتا ہے اور نہ ان سیاستدانوں،
حکمرانوں کو۔۔۔۔؟؟؟ کراچی کے منتخب نمائندوں اور سندھ حکومت کی ذمہ داری
عائد ہوتی ہے کہ وہ کراچی میں مخدوش عمارتوں میں رہائش پزیر لوگوں کو بہتر
مناسب جگہ فراہم کریں تاکہ یہ اپنے خاندان کو وہاں منتقل کرسکیں ، دیکھا یہ
گیا ہے کہ کراچی کے منتخب نمائندوں نے کراچی کے باغات، کھیلنے کے میدان اور
دیگر سرکاری اراضی پر اپنے کارکنان کو زمینیں الاٹ کردی ہیں ،ان کے بے شمار
کارکنان مستحق بھی نہیں ہیںجبکہ کراچی میں اندرون سندھ اور دیگر شہروں سے
مجبور ہوکر کراچی میں آباد خاندان اب سے تقریباً بیس سال سے زائد کا عرصہ
بیت گیا ہے یہ کرائے کے مکان میں زندگی بسر کر رہے ہیں کیونکہ وقت کے ساتھ
ساتھ یہاں زمین ، فلیٹ اور مکان قوت خرید کی طاقت میں نہیں رہا ہے حتیٰ کہ
کرائے بھی تجاوز کر گئے ہیں یاد رہے سابق صدر و جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت
میں افغانسان کی جنگ کے سبب انھوں نے افغانیوں کو پاکستان میں پناہ دی جس
کا سب سے بڑا نقصان پاکستان کو اس بابت ہوا کہ پاکستان کے پشتو بولنے والوں
نے ہم زبان ہونے کے ناطے ان کو بہت زیادہ تعاون کیا لیکن کیا پتہ تھا کہ یہ
ہی آستین کا سانپ نکلیں گے یوں تو آزاد قبائلی علاقوں سے اسلحہ اور نشہ کی
اسمگلنگ عرصہ دراز سے چلی آرہی تھی لیکن ان افغانیوں کی سپورٹ سے نا صرف
پشاور سب سے زیادہ متاثر ہوا بلکہ یہ گندی فضا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی
پھیل گئی، یوں ہیروئن کا نشہ، بغیر لائسنس اسلحہ کا رواج بڑھنے لگا( اب تو
یوں محسوس ہوتا ہے کہ شائد پاکستان میں قانون لپیٹ دیا گیا ہو ) اور بڑھوار
میں قانون کے رکھوالے، سیاسی جماعتیں اور لیڈران، مذہبی انتہا پسند لیڈر
اور ان کی جماعتیں ، ایجنسیاں اور کچھ پاک فوج کے اعلیٰ افسران کا حصہ شامل
تھا اور ہے۔۔۔ سب سے بری بات اور المیہ اس وطن کا یہ ہے کہ تمام سیاستدانوں
نے اپنے اپنے مفادات اور مقاصد کیلئے لسانیات، تعصب، انتہا پسندی، جذبات ِدین
کے عناصر کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا لیکن پوری قوم
کو نا بجھنے والی آگ میں جھونک ڈالا۔۔۔۔ دوسری طرف قوم نے نہ قرآن و حدیث
کا مطالعہ کیا اور نہ اپنے اندر اللہ کے خوف اور اس کے رسول سے والہانہ
محبت پیدا کی اسی بابت یہ گمراہی کی راہ پر چل نکلی کیونکہ پاکستان کے تمام
سیاستدان چاہتے ہیں کہ قوم گمراہ ہوکر آپس میں دست و گریباں میں الجھی رہے
اور یہ حکومت کے مزے لیتے رہیں، کیونکہ انہیں سیاست کا ڈھنگ آچکا ہے ، یہ
سیاست دان آپس میں نورا کشی کرتے ہیں اور قوم کو قربانی کا جانور بناکر
ذبیح کیلئے چھوڑ دیتے ہیں پھر ان کی لاشوں پر بیانات کی ایک لمبی قطار بنتی
ہے تو کبھی لاشوں کو بنیاد بنا کر ہڑتال کی جاتی ہیں دونوں صورتوں میں بھی
عوام الناس کی املاک بھر سے جلنا شروع ہوجاتی ہیں اور کرنے والے آزاد
گھومتے ہیں سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ سیاستدان انجان بنے رہتے ہیں یہ کیسا
نظام ہے ، یہ کیسی سیاست ہے ، اپنی ہی قوم پر مکارانہ حملے ، افسوس در
افسوس؟؟
کراچی میں غیر قانونی قابضین کی پشت پناہی عوامی نیشنل پارٹی بھی کررہی ہے
جس نے کراچی میں داخلی و خارجی راستوں پر قبضہ جما لیا ہے جس میں کٹی پہاڑی،
بنارس، قائد آباد، رشید آباد، نصیر آباد، بلدیہ ٹاﺅن کا ایک حصہ، سہراب
گوٹھ، گلشن حدید کا ایک حصہ ، ٹیسر ٹاﺅن کا ایک حصہ، نئی و پرانی سبزی منڈی
کے علاوہ گزشتہ حکومت میں تیار کی جانے والی ہاﺅسنگ اسکیموں پر بھی قابض
ہیں ۔۔۔۔۔۔۔سیاسی ہر جماعت بد دیانتی کی بنیاد پر ہیں اسی لیئے آج ایک
پاکستانی شہری جو سیاست سے دور ہے وہ زندگی کی ضروریات سے محروم ہے، آخر
کیوں ؟ اور کب تک؟۔۔۔۔یہ سیاسی لٹیرے کب تک عوام کو بد حالی کی طرف دکھیلتے
رہیں گے ۔۔۔ان کی غربتوں کو بڑھاتے رہیں گے۔۔۔۔۔نواز شریف اپنے آپ کو بہت
ہی شریف سمجھتے ہیں ، خودی میں غلط فہمی کا شکار ہیں کہ ان سا کوئی ہمدرد
پیدا نہیں ہوا جبکہ پنجاب میں کئی بار حکومت پانے کے باوجود ظلم و ستم کا
سیلاب کم نہ ہوا اور حیرت تو یہ ہے کہ کوئی اور نہیں ان ہی کی پارٹی کے خاص
لوگ مختلف اخلاقی و معاشرتی برائی میں سرے عام پائے گئے ہیں ، قصور ثابت
ہونے پر بھی رعایت ملی ہے ان کے چہیتوں کو ان میاں برادران سے ۔آج پنجاب کا
غریب کسان ہو یا ہنر مند یا پیشہ ور مزدور ہو یا سرکاری ملازم سب کے سب
حکومت پنجاب کی ناقص پالیسیوں کے سبب پریشان و بدحال نظر آتے ہیں نہ انصاف
ہے تو نہ سستائی سب کی سب نواز کی تقریر میں نظر آئی۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ ادھر دیکھئے
صوبہ خیبر پختو نخوامیں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت عوامی
نیشنل پارٹی اپنے صوبہ میں امن و امان قائم کرنے میں شدید ناکام رہی ہے
اورصوبہ خیبر پختو نخوا میں ناجائز کاموں کی بہتات رہی ہے ، نشہ ہو یا سلحہ
یا اسمگلنگ ہو یا انسانی فروخت سب میں کاروبار کیا جاتا رہا ہے اے این پی
نے اپنے صوبہ میں تعلیم کے فقدان پیدا کیا ہے اسی وجہ سے ان میں شعور کی
شدید کمی واقع رہی ہے ،اپنے صوبہ کو کنٹرول نہیں کرسکے اور کراچی میں بد
امنی پھیلانے کیلئے چلے آئے ہیں اگر ان کی صوبہ سندھ میں مسلسل مداخلت جاری
تو ممکن ہے دیگر صوبوں نے اگر صوبہ خیبر پختو نخوا کے انتظامی و سیاسی امور
میں مداخلت کرنی شروع کردی تو اے این پی کو اپنی سیاست سنبھالنا مشکل
ہوجائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جب ہم نظر ڈالتے ہیں صوبہ بلوچستان پر تو ہمیں
انتہائی افسوس اور دکھ پہنچتا ہے ، یوں تو صوبہ بلوچستان کی لسانی تنظیمیں
اپنی قوم کی حقوق کی باتیں بڑی بڑی کرتی نظر آتی ہیں لیکن جب اس قوم کو
ترقی و کامرانی کیلئے تعلیم اور صحت کے شعبے میں پیش رفت کیلئے اقدامات
کرتے ہیں تو یہ نام نہاد مسلم بلوچ قوم کے لیڈر انا اور خود داری کے بلا
وجواز بکھیرا کھڑا کردیتے ہیں اس طرح ان کی قوم بنیادی ضرورتوں سے بھی
محروم رہ جاتی ہے ، درحقیقت بلوچ سردار ہر گز یہ گوارا نہیں کرتے کہ ان کی
قوم میں تعلیم و شعور بیدار ہوجائے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ اگر قوم میں شعور
بیدار ہوگیا تو ان کی غلامی کون کریگا اسی سبب یہ سردار نسل در نسل سے
غلاموں کو اپنی عیش و تعائیش کیلئے استعمال کرتے چلے آئے ہیں ، جب تک ان
سرداروں کی اجارہ داری بلوچستان میں ختم نہیں ہوگی یہ اپنی قوم کو تا قیامت
اسی غلامی کے چنگل میں قید رکھیں گے اور یہ خطہ قدرتی مال و دولت کے ساتھ
ساتھ حسن و جمال سے مذین ہے اس قدرتی خوبصورتی کو سنوارا نہیں جاسکتا ۔۔۔۔۔
حالیہ دور حکومت میں بننے والا صوبہ گلگت بلتستان ابھی سن بلوغت میں ہے اگر
اس صوبہ نے دیگر صوبوں کے نقش قدم پر چل پڑا تو یہ بھی عنقریب تباہی کے
دھانے پر آپہنچے گا اسے چاہیئے کہ یہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق اپنے
صوبہ میں نظام مروج کرے تاکہ دیگر صوبوں کیلئے مثال ثابت ہو ۔۔۔۔۔۔ بحرحال
اپنی تحریر کو پھر میں اسی جانب لے آتا ہوں جو آج میرا موضوع بحث ہے، یہ
حقیقت ہے کہ کراچی پاکستان کا مرکز تجارت و اقتصادیت، مرکز سیاست، مرکز
فروغ دین، مرکزفروغ ادب، مرکز تعلیم و تربیت، مرکز تحقیق، مرکز پیداوار،
مرکز فنون، مرکز پکوان، مرکز صنعت، گویا تمام مکاتب فکر کا مرکز بھی ہے ،
اسی لیئے کراچی کی کشش ہر پاکستانی کو اپنی جانب کھینچتی ہے جو ایک بار
آجائے پھر جانے کا ارداہ نہیں کرتا ایسے میں کچھ ایسے بھی گروہ داخل ہوجاتے
ہیں جنہیں کراچی کی روشنی لالچ اور حسد میں اندھا کردیتی ہے یہ گروہ یہاں
کے ماحول کو پرگندہ کرنے کیلئے کہیں بم بلاسٹ،کہیں لوٹ مار، کہیں ڈکیتیاں،
کہیں چوریاں اور کہیں ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں کرتے پھرتے ہیں ، کچھ
انتظامیہ کے ذمہ داران چند کوڑیوں کے سبب اپنے ضمیر کو فروخت کردیتے ہیں
اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں تاکہ یہ گروہ اپنے عزائم کو پائے تکمیل
تک پہنچائے اور یہ زیادہ تر دیکھا گیا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتیں ان گروہ سے
زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کیلئے ان کی نہ صرف پشت پناہی کرتی نظر آتی
ہیں بلکہ انہیں حالات کے بگاڑ کیلئے آزاد چھوڑ دیا جاتاہے۔ اب وقت ہے کہ
مخدوش عمارتوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی مخدوش سیاست کا بھی خاتمہ کیا جائے
اور از سر نو نئی سیاسی تعمیر کی جائے تاکہ آئے روز کے ہنگامے، ہڑتال،
لاشیں اور فسادات سے جان چھٹے اور ایسا ماحول میسر آئے جس میں نئی نسل
تحقیق کے میدان میں مصروفِ عمل ہو ، تاجر اور مزدور پر امن پیداروار کرسکے
، افراط زر میں اضافہ ہو تو صحت اور تعلیم مفت ۔۔۔ یہ کوئی الہامی باتیں
نہیں بے شمار ایسے ممالک ہیں جو پاپاکستان کے بعد وجود میں آئے اور انھوں
نے اپنے وطن اور قوم سے مخلصی کا ثبوت دیتے ہوئے ملک میں انصاف، قانون، عدل
اور امن دیا جس سے وہ کامیاب ملک کی صف میں شمار کیئے جاتے ہیں اور انہیں
ترقی یافتہ ملک کہا جاتا ہے۔!!! وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بھی ان صف میں
شامل ہوگا لیکن اس کیلئے عوام میں تمام سیاستدانوں کو رد کرتے ہوئے نئے
سیاستدان کا انتخاب کمپیوٹرائز ووٹنگ نظام کے ذریعے کرنا ہوگا ورنہ حالات
جوں کے توں ہی رہیں گے۔ |