معمولی حالات میں جب کہ زندگی کا
دریا سکون کے سا تھ بہہ رہا ہو،انسان ایک طرح کا اطمینا ن محسوس کرتا
ہے۔کیونکہ اوپر کی صاف شفاف سطح ایک پردہ بن جاتی ہے۔جس کی تہہ میں چھپی
ہوئی گندگیاں اور غلاظتیں چھپی رہتی ہیں۔پردے کی اوپری صفائی آدمی کو اِس
بات کا تجسس کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس ہونے دیتی ہے کہ تہہ میں کیا کچھ
چھپا ہوا ہے اور کیوں چھپا ہوا ہے لیکن جب اس دریا میں طوفان برپا ہوتا ہے
اور تہہ میں چھپی ہوئی ساری غلاظتیں اُبھر کر برسرِعام سطح دریا پر بہنے
لگتی ہیں اُس وقت اندھوں کے سوا ہر وہ شخص جس کے دیدوں میں کچھ بھی بینائی
کا نور باقی ہو تو ہر چیز صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہے۔کہ زندگی کا دریا
کیا کچھ اپنے اندر لیے ہوئے چل رہا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسانوں
میں اِس ضرورت کا احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ اِس منبع کا سراغ لگائیں جہاں
سے دریائے زندگی میں یہ گندگیاں آرہی ہوں اور اِس بات کی تعبیر کریں جس سے
اِس دریا کو پاک رکھا جا سکے۔ ہمارے کچھ حکمرانوں کی ناکارہ اور ملک دُشمن
پالیسیوں کی وجہ سے ملکی موجودہ حالات کا دریا بھی کچھ اِس طرح کی نشاندہی
کر رہا ہے۔
28مئی1998 میں چاغی کے مقام پر ایٹمی تجربا ت کرنے کے بعد پاکستان دنیا کی
بڑی ایٹمی طا قت بن کر اُبھرا ، نازک حالات میں جبکہ دنیا کی ایٹمی طاقتوں
کا پاکستان پر دباﺅ تھا مگر اِس کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک بھی تو پاکستان
کی طرف ترسی ہوئی نگاہ سے دیکھ رہے تھے تب ہم نے یک جان ہو کر یہ بات دنیا
کو باَور کرادی کہ پاکستان بھی ایٹمی پاور کا حق رکھتا ہے۔اور آخرکاریہ
خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور تمام مسلم ممالک میں جشن کا سماںتھایہاں تک کہ
کچھ مسلم ممالک کی طرف سے کہا گیا کہ ہم نے ایٹم بم بنا لیا۔یہ با ت اِس
چیز کی نشاندہی کر رہی تھی کہ مسلم دنیا ایک ہے۔ آج ایٹمی طاقت ہونے کے
باوجود امریکی ڈرونز حملوں کی بہتات،عبادت گاہوں عوامی اجتماعات اور
سیکورٹی فورسز پر خودکش حملے،پارلیمنٹ کی ڈرونز حملوں کے خلاف قرارداد کی
بے حرمتی، عالم کفر کا پاکستان کی نظریاتی جغرافیائی سرحدوں پر حملہ،
مجرمانہ خاموشی کیوں اور کب تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
پاکستا ن کی تاریخ میں بہت سے چہرے ایسے گزرے جنہوں نے پاکستان کے مستقبل
اور پاکستان کی خود مختاری اور آزادی کو غلامی کے زنجیروں میں جکڑ کر رکھ
دیا ۔ہم غلام آج سے نہیں بلکہ غلامی تو اُس دن سے شروع ہو گئی تھی جب
وزیراعظم لیاقت علی خان نے اپنے طیارے کا رخ امریکہ کی طرف کیا تھا۔ہم
بھکاری اور کشکول اُٹھانا اسی دن سیکھ گئے تھے۔ایک طرف تو پاکستان نے
افغانستان جو کہ ہمارا ہمسائیہ ملک ہے کو تباہ وبرباد کرنے میں امریکہ کا
ساتھ دیا جس کی وجہ سے ہم نے اپنی ڈیورنڈ لائن کو غیر محفوظ اور متنازعہ
بنا دیا دوسری طرف I.M.F(آئی۔ایم ۔ایف )کی ممبر شپ حاصل کر کے اپنی معیشت
کا بیڑا پار کر دیااور سُودinterest rate))کی چکی میں پِس کر رہ گئے ۔ملک
ہمارا ،معیشت ہماری،سرحد ہماری مگر معاشی پالیسیاں غیروں کی طرف سے سرحدوں
کی خلاف ورزی آقاﺅں کی طرف سے اور سب سے بڑھ کر ہم دوسروں کے کہنے پر چند
ڈالروں کے عوض اپنے ہی بھائیوں کا خون ،عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم
کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔شاید دہشت گرد ملک میں موجود تھے یا نہ تھے مگر اب
ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے اُنھیں دہشت گرد بننے پر مجبور کر دیا ہے اور اس
کا فائدہ غیر ملکی ایجنسیاں بڑے احسن انداز سے اُٹھا رہی ہیں۔حالات دن بدن
انارکی کی طرف جا رہیے ۔ہماری فوج جو کہ ملک کا غیر متنازعہ ادارہ ہے اور
ہونا بھی چاہیے مگر مشرف دُور نے اس کو کہاں لا کھڑا کیا ہے قارئین بخوبی
جانتے ہیں ۔پہلے بیرونی طاقتوں کا مقابلہ تھا مگر اب جو اندرونی سطح پر
طوفان برپا ہو گیا کبھی خودکش حملے،تو کبھی مہران ائیربیس پر حملہ ، یہاں
زندگی عزت اور سانس کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔مگر ہمیں بھی تو ذرہ دیکھیے
،کرکٹ ورلڈکپ کا سیمی فائنل دیکھنے کیلئے تشریف لے گئے اور دن میں تین سوٹس
تبدیل کئے۔اور وہ پگڑی والا اور ماتھے پہ تلکن لگانے والی ایک ہی سُوٹ میں
دن گزار کر چلے گئے۔ کیو نکہ وہ اپنی عوام ،ملک و قوم کے مسائل سے بخوبی
واقف ہیں۔مگر دُکھ اِس بات کا ہے کہ ہماری قوم بھی تو غفلت کی نیند کے مزے
لُوٹ رہی ہے۔ میرا اشارہ انقلاب کی طرف نہیں اور نہ ہی میَں اس کا حامی ہو
بلکہ میر ا اشارہ انفرادی طور پہ سُدھرنے کی طرف ہے کیونکہ اگر انفرادی
فتنہ فساد ،بے حیائی عام ہو جائے تو وہ انفرادیت سے اجتما عیت کی طرف اپنا
رُخ کرتی ہے۔مگراَب ہمیں اپنے اقدار اور اصولوں کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا
ہو گا۔
آج جہاں ہم سیاستدانوں سے مایوس ہیں وہاں کچھ لوگ ہیں جن کو دیکھ کر دل کو
تسلی سی ہو جاتی ہے۔وہ جماعت بازی سے ہٹ کر اپنی ذات میں سب کچھ ہیںپچھلے
دنوں جاوید ہاشمی کی پارلیمنٹ میں تقر یر نے جماعتی نہیں بلکہ حقیقت پسندی
کا مظاہرہ کیا۔ عمران خان جو ڈوبتی قوم کیلئے تنکے کا سیہارا بنا پشاور اور
کراچی کی سڑکوں پر ڈرونز حملے بند کرو کی صدائیں دیتا رہا۔ کاش کہ ہمارا ہر
سیاستدان امریکی غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر اِس گلشن کے تحفظ اور اِس قوم
کی ناموس اور بقاءکیلئے سوچنا شروع کر دے۔ میں ہاتھ جوڑکر حکومت کے دروازے
پر دستک دیتا ہوں کہ اقتدار سے بڑھ کر بھی ایک چیز ہوتی ہے وہ ہے عوام سے
محبت اور ان کا احساس ،آپ ڈر کے مارے ہماری جانو ں کے سودے تو مت کرو بلکہ
تمام جماعتیں ملکر پُروقار طریقے سے دُنیا کے آقاﺅں کو یہ بات بآور کراد یں
کے ہمارے رشتوں میں جڑی زنجیروں کو توڑنا آسان نہیں ہے۔اِس وقت جبکہ ہمارے
قبائلی اور بلوچی بھائی ہم سے ناراض ہیں اور اُن کی ناراضگی بھی تو بجا ہے
تمام سیاستدان ملکر اپنے مفادات کوبالائے تاک رکھتے ہوئے مذاکرات کا سلسلہ
شروع کریں کیونکہ طاقت مسائل کا حل نہیں ہوا کرتی ، طاقت دلیل نہیں ہے۔اور
ویسے بھی ہتھیار اپنو ں کی حفاظت کیلئے ہوا کرتے ہیںنہ کہ اپنوں کو خون کے
کفن پہنانے کیلئے پھر دیکھو یہ قوم ےک جان ہو کرایک ہی آواز بلند کرے گی
اور دشمنوں اور آقاﺅں کو ےہ بات روز محشر کی طرح عیاں کر دے گی۔۔۔۔۔
زندگی اِتنی غنیمت تُو نہیں جس کیلئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لیں
2دن سے طبیعت کچھ خاموش سی تھی کیونکہ ملکی معروضی حالات کس بات کا تقاضا
کر رہے ہیں اور ہمارے حکمران بجٹ بحث میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کو
لگے ہوئے ہیں۔مگر اُمید برقرار ہے کیونکہ خزاں کے بعد بہار آیا کرتی ہے۔
اَندازِ بیاں اگرچہ کوئی شوق نہیں ہے
شاید کہ تمہار ے دل میں اُتر جائے میری بات۔ |