حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری کے
خلاف شکایت آئی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے گورنر کو طلب کیا اور پوچھا :
"ابو موسیٰ ! میں نے سنا ھے تجھے جو تحائف ملتے ہیں وہ تم خود رکھ لیتے ہو
بیت المال میں جمع نہیں کرواتے"؟
حضرت ابو موسی اشعریؓ بولے ! حضور وہ تحائف مجھے ملتے ہیں۔
حضرت عمر نے فرمایا ! وہ تحائف تجھے نہیں تمہارے عہدے کو ملتے ہیں۔ حضرت
عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ کو گورنر کے عہدے سے معزول کیا، ٹاٹ کے کپڑے
پہنائے، ہاتھ میں چھڑی دی اور بیت المال سے سینکڑوں بکریاں دیکر کہا کہ جاؤ
اور اب سے بکریاں چرانا شروع کر دو۔
ابو موسیؓ ہچکچانے لگے تو حضرت عمرؓ نے فرمایا ! تمہارے باپ دادا یہی کام
کرتے تھے یہ تو حضورؓ کے وسیلے سے تجھے گورنری مل گئی تھی۔
کافی عرصے بعد حضرت عمر خود جنگل میں چلے گئے تو دیکھا بکریاں چر رہی ہیں،
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ایک ٹیلے سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں اور انکے چہرے کا
رنگ زرد پڑ چکا ھے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا سنا ابو موسیٰ ! اب بھی تجھے تحفے ملتے ہیں؟
حضرت ابو موسیٰ اشعری بولے۔ حضور ! مجھے سمجھ آ گئی ھے۔
حکمرانوں میں سب سے زیادہ حضرت عمرؓ کی مثالیں دینے والے کپتان سے میں یہ
نہیں پوچھتا کہ کتنے تحائف بیچے یا خرد برد کئے
لیکن اتنا پوچھنا تو بنتا ہے کہ :
"خان صاحب ! جب سے آپ ایوان اقتدار سے بیدخل ہو کر پھر سے ڈی۔چوکوں میں
کولہے مٹکانے پر آئے ہیں سنائیں اب بھی کوئی تحفہ، شحفہ ملا کہ نہیں؟
نہیں ملا نا؟
اب نہیں ملیں گے
کیونکہ ملنے والے وہ تحفے اکرام اللہ نیازی کے بیٹے کو نہیں ریاستِ پاکستان
کو ملا کرتے تھے
|