عمران خان اور الیکشن کمشنر کے خلاف احتجاج
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
عمران خان صاحب کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہ متضاد کیفیات کا شکار ہیں۔ پہلی کیفیت تو صدمے اور شاک کی تھی۔ ان کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وقت ان کے ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے۔ سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک کے آغاز پر پہلے تو وہ حد سے زیادہ پُر اعتماد تھے۔ انہوں نے جلسوں میں اس بات کو سراہا کہ اپوزیشن نے ان کے خلاف تحریک چلا کر بہت اچھا کیا۔ اس کے بعد وہ اپوزیشن کو چوہا اور خود کو شکاری قرار دیتے رہے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کا لہجہ تبدیل ہونے لگا۔ اس کے بعد وہ غیر آئینی اقدامات پر اتر آئے جن میں اسمبلی کو توڑنا، بعد ازاں اجلاس نہ بلانا، اس کے بعد اجلاس والے دن اجلاس کو غیر معمولی طُول دے کر ایجنڈے پر بات نہ کرنا، جب کہ اس دوران میں مبینہ طور پر فوج کو ثالث بنا کر وہ اپوزیشن سے این آر او مانگتے رہے۔ تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کے بعد وہ ایک ہیجانی کیفیت کا شکار ہوگئے ۔ اب انہوں نے احتجاج کی سیاست دوبارہ شروع کی۔ ساتھ ہی انہوں نے اداروں کے خلاف مہم بھی شروع کردی۔ خان صاحب کے حوالے سے مقامِ عبرت یہ ہے کہ انہوںنے اپنی کہی ہوئی ہر بات کے خلاف کام کیا۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران میں جلسوں میں کہتے رہے کہ نواز شریف پہلے عدلیہ پر حملہ کرے گا اور پھر فوج پر، تحریک کامیاب ہونے کے بعد یہی کام انہوں نے خود شروع کردیا۔ اب وہ انتقامی کیفیت کا شکار ہیں اور وہ ملک کو عدم استحکام کرنے کی راہ پر گام زن ہیں۔ اب ان کو ہر ادارہ اپنا دشمن، ہر فرد اپنا مخالف اور اس وقت سرکاری مشنری میں موجود ہر فرد کرپٹ، بے ایمان اور جانب دار نظر آرہا ہے۔ اسی بنیاد پر وہ اپنے حامیوں کو غیر محسوس انداز میں تشدد کی راہ پر لے کر جارہے ہیں۔ ان کے رفقا ٹوئٹر ، فیس بک اور اپنے بیانات میں خانہ جنگی کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ان کے مخالفین اور ان میں اخلاقی لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ بھی مفاد پرست یہ بھی مفاد پرست، وہ بھی اپنی ذات اور مفاد کے لیے ملکی مفاد کو پس پشت رکھنے والے تھے اور یہی کام خان صاحب بھی کررہے ہیں۔ لیکن خان صاحب کی ذات میں ایک شاہ کار خوبی یہ بھی ہے کہ موصوف اپنی ہی حکومت میں ، اپنے ہی کیے گئے اقدامات پر اب یوٹرن لے رہے ہیں۔ توشہ خانہ اسکینڈل سامنے آچکا ، جس کاوہ اقرار بھی کرچکے۔ان کی حکومت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ، کم و بیش ڈھائی سال سے ان کے خلاف تحریک انصاف کارروائی چلاتی رہی، ان کی اہلیہ کے خلاف بھی مقدمہ دائر کیا گیا۔تحریک انصاف کے وزرا تک جسٹس عیسیٰ کے خلاف زبان درازی کرتے رہے، جب کہ انصافی سوشل میڈیا بریگیڈ نے تو انکے خلاف ہر حد پھلانگی، ان کو غدار اور ان کے والد کو ملک دشمن تک قرار دیا گیا۔لیکن عبرت کا مقام یہ ہے کہ حکومت ختم ہونے کے بعد عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا غلط تھا۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا اب تازہ ترین معاملہ چیف الیکشن کمشنر کا ہے۔ سکندر سلطان راجہ کو عمران خان صاحب نے نومبر 2018 میں سیکرٹری ریلوے کی ذمے داری سونپی۔وہ دسمبر 2019 تک یعنی کم و بیش 13 ماہ تک اس عہدے پر کام کرتے رہے۔ اس کے بعدجنوری 2020 کو عمران خان صاحب نے انہیں چیف الیکشن کمشنر بنا دیا۔ ان کی بطور الیکشن کمشنر تعیناتی پر جب ان سے سوال کیا جاتا تھا تو وہ اپنے اس عمل کا دفاع کرتے تھے۔ ان کے وزرا بھی ان چیف الیکشن کمشنر کی تعریف کرتے رہے۔ اب حکومت ختم ہونے کے بعد اپریل 2022میں خان صاحب فرماتے ہیں کہ’’ ہمیں چیف الیکشن کمشنر پر اعتبار نہیں۔وہ جانب دار ہیں،انہیں اسٹیبلشمنٹ نے چیف الیکشن کمشنر لگوایا۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مظاہروں کا اعلان کردیا اور آج26اپریل کو چاروں صوبوں کے بڑے شہروں میں الیکشن کمیشن کے خلاف مظاہرے کیے گئے ۔ ہائے! بے چارے خان صاحب کے چاہنے والے۔ ابھی پتا نہیں وہ خان صاحب کے کون کون سے یوٹرن کا دفاع کریں گے۔ عمران خان صاحب نے چیف الیکشن کمشنر پر جو الزامات لگائے ہیں، اس سے قطع نظر کہ وہ درست یا غلط۔ یہاں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سکندر سلطان جنوری 2020 سے الیکشن کمشنر ہیں۔ کم و بیش سوا دو سال تک خان صاحب کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی ۔ اب اچانک یہ شکایت کیوں؟ پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو ان پر اعتماد نہیں ہے تو پھر ان کو الیکشن کمشنر کیوں لگایا؟ ان کی تعیناتی کا دفاع کیوں کرتے رہے؟ شیریں مزاری، فواد چوہدری اور خود آپ ان کی تعریفیں کیوں کرتے رہے؟ اگر وہ جانب دار تھے تو آپ نے سوا 2 سال تک اس کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ کبھی اس حوالے سے کوئی بات کیوں نہیں کی ؟ سب سے اہم آخری بات ہے۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ نے لگوایا۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ نے ان کی بات کیوں مانی؟ آپ تو ایمان دار اور صرف اللہ سے ڈرنے والے تھے تو اسٹیبلشمنٹ کے ڈر سےبقول آپ کے ایک بد عنوان فرد کو اتنا اہم عہد ہ کیوں دیا؟ اسٹیبلشمنٹ کے پاس آپ کی ایسی کون سی دُکھتی رگ تھی کہ آپ ان کی بات ماننے پر مجبور ہوئے ؟ (کہیں یہ فارن فنڈنگ والا معاملہ ہی تو نہیں تھا جس کو دبانے کے لیے آپ نے اسٹیبلشمنٹ کی بات مانی ؟) اگر ہم یہ مان لیں کہ آپ کی کوئی کم زور ی ان کے ہاتھ نہیں تھی تو پھر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ آپ میں اور آپ کے مخالفین میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں ہے۔ جس وقت بقول آپ کے ایک جانب دار اور کرپٹ فرد کو الیکشن کمشنر لگایا جارہا تھا ، اس وقت آپ ہوائوں میں تھے، آپ نے سوچا ہوگا کہ چلو کام کا بندا ہے ، اپنے کام آئے گا۔لیکن جب وقت بدل گیا، ہوائوں کا رخ بدل گیا تو اب آپ کو غلطی کا احساس ہورہا ہے۔ اور اگر یہ بات بھی نہیں ہے تو پھر مان لیجیے کہ آپ صرف اور صرف اقتدار کے بھوکے ہیں، اقتدار سے ہٹتے ہی آپ ملک میں انتشار برپا کرنے کھڑے ہوگئے ہیں۔ یہی حقیقت ہے۔
|