نوجوان اور عدم برداشت

رمضان المبارک کے قیمتی بابرکت ایام تیزی سے گزرتے جارہے ہیں مگر ہماری توجہ عبادات ،فرائض کی ادائیگی اور نفس کی تطہیر کی جانب کم اور ملک میں پھیلتی سیاسی گہما گہمی کی طرف ذیادہ ہے ، توں تکار ،ہاتھا پائی اور عزت نفس کا اچھالا جانا اب صرف چوکوں ،چوراہوں کی بات نہیں رہی بلکہ جلسے جلوسوں سے ہوتی ہوئی اقتدار کے ایوانوں تک جاپہنچی ہے ۔

پاکستانی سیاست تیزی سے بدلتی نظر آرہی ہے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانہ بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے پہلی بار کھل کر سوشل میڈیا پہ اداروں کا نام لے کر ان کے خلاف ایسا زہر اگلا جارہا ہے جو قومی اداروں کے وقار اور تقدس کو بری طرح سے مجروح کر رہا ہے، ایسے رویوں کے ہوتے ہوئے ملک دشمنوں کو کچھ ذیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جب فوج کمزور ہوگی تو لامحالہ ملک کا دفاع کمزور ہوگا ۔
ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ پہلے تمام سیاسی جماعتیں اقتدار حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ جرنیلوں کے تلوے چاٹتی ہیں اور اقتدار حاصل کرتے ہی انہیں آنکھیں بھی دکھانا شروع کردیتی ہیں(یہ آپ پر منحصر ہے کہ تلوے چاٹنے کو بدقسمتی سمجھیں یا اقتدار حاصل کرنے کے بعد آنکھیں دکھانے کو)۔

بھٹوز اور شریف خاندان جرنیلوں کے کندھوں پہ سوار ہوکر کوچہ سیاست میں آئے تھے اور آج تک ایوان اقتدار میں پہنچنے کے لئے یہ دو جماعتیں جرنیلوں کی خوشنودی کو ہی آسان اور شارٹ کٹ رستہ سمجھتی ہیں ۔

رہی تحریک انصاف کی بات تو 2018 کے الیکشن میں عمران خان عوامی ایلیکٹڈ تھے یا اسٹیبلشمنٹ کے سلیکٹڈ اس پہ اب بات کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ، حقائق اب کھل کر سب کے سامنے آ چکے ہیں کل تک عمران خان اداروں کے ساتھ کھڑے ہوکر اپوذیشن کو آئینہ دکھاتے تھے تو آج ادارے خود انہی کے تیروں کی زد میں ہیں ۔

ایک وقت تھا جب ن لیگ اور پیپلز پارٹی سوشل میڈیا پہ اداروں کے خلاف کام کرنے والوں کی سرپرستی کیا کرتے تھے اب اقتدار سے نکلتے ہی یہ کام تحریک انصاف کے کارکنان سر انجام دے رہے ہیں مفاد پرستی کے حمام میں سب ننگے ہیں دودھ کا دھلا کوئی بھی نہیں ، چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لئے ملک دشمن طاقتوں کو خوش کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ۔

ملک میں عدم برداشت اور انتہاء پسندی میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے زرا سے سیاسی اختلاف پہ بات گالم گلوچ تک جاپہنچتی ہے بلکہ پچھلے دنوں تو ذرا سے سیاسی اختلاف پہ ایک انسانی جان کا قتل بھی ہوچکا ہے ۔

پچھلے کچھ ہفتوں سے سوشل میڈیا پہ جو ہڑبونگ مچی ہوئی ہے شرمناک اور افسوسناک ہے ہلکے سے اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کو غدار ،منافق،چور اور پتہ نہیں کیا کیا القابات دئیے جارہے ہیں ایسی عدم برداشت اور پر تشدد رویہ ملکی سالمیت کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔

سیاسی وابستگی ہر بندے کا ذاتی مسئلہ ہے اس بناء پہ دوسروں کو گالیاں دینا دراصل گھٹیا پن اور اخلاقی طور پہ گراوٹ کی علامت ہے کوئی کس کو ووٹ دیتا اور کس کو سپورٹ کرتا ہے یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے عمران خان ،شریف برادران ہوں یا بھٹو زرداری ہوں اچھے کاموں میں انکی تعریف بھی کرنی چاہئے اور جو چیز پسند نہیں آتی اس پہ شائستہ اور مہذب انداز میں تنقید کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے

کوئی سیاسی لیڈر بھی غلطیوں سے مبراء نہیں ، ہماری پارٹی ہمارا لیڈر ہمارے دین ایمان کا مسئلہ نہیں بننا چاہئے کہ ہر وقت بس اسی کی صفائیاں دیتے رہیں غلط کو غلط اور درست کو سہی کہنے کی اخلاقی جرات بھی ہونی چاہئے ۔

نوجوانوں اور انکے والدین سے گزارش ہے میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے غیر زمہ دارانہ رویے کی وجہ سے ملکی حالات بہت ابتر ہوچکے ہیں عدم برداشت ایک ایسی آگ بن رہی ہے جو خدانخواستہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے خدارا احتیاط سے کام لیں۔

اپنی طاقت،صلاحیتیں اور قیمتی وقت سیاستدانوں کے پیچھے لگ کر ضائع مت کریں اپنی قدر و منزلت کو پہچانیں اقتدار کے حریصوں کا کتا بننے سے بہتر ہے ملک و ملت کا محافظ بنیں اسی میں ہم سب کی بہتری ہے ۔

 

Shahid Mushtaq
About the Author: Shahid Mushtaq Read More Articles by Shahid Mushtaq: 114 Articles with 77887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.