اقوام متحدہ کا فی زمانہ یہ حال ہے کہ اس کی سلامتی کونسل
میں روس کو جنگ بندی کے لیے عورتوں اور بچوں کا واسطہ دیا جارہا ہے۔ ناروے
کی خاتون سفیر مونا یول فونٹین کے مطابق یوکرین میں اسکولوں کی بندش سے 57
لاکھ بچے متاثر ہوئے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے روس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
کہ "بچے بے قصور ہیں۔ ان کو ہلاک کرنے سے رکا جائے۔ ان کے مستقبل کو تباہ
کرنے سے رکا جائے ، جنگ کو روک دیا جائے۔ اب اس جنگ کو ختم کرنے کا وقت آ
گیا ہے ، یوکرین کے بچے مزید انتظار نہیں کر سکتے "۔مانوئل نے بتایا یوکرین
میں اس وقت 32 لاکھ بچوں میں سے نصف کے قریب بچوں کو مطلوبہ خوراک نہ ملنے
کا خطرہ درپیش ہے۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں خواتین سے متعلق کمیٹی کی
ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث نے کہا کہ اس جنگ کو اب رک جانا چاہیےکیونکہ
یوکرین میں آبرو ریزی اور جنسی تشدد کی کارروائیوں کی بابت انصاف کو یقینی
بنانے کے لیے آزادانہ تحقیق ہونی چاہیے۔
اس سے قبل روس کے خلاف سخت اقدام کرتے ہوئےاسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
نے انسانی حقوق کونسل سے اسےمعطل کر دیا گیاہے۔ 93 ممالک نے روس کو یو این
ایچ آر سی سے باہر کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ چین سمیت 24 ممالک نے اس تجویز
کے خلاف ووٹ دیا جبکہ اپنی روایت پر قائم رہتے ہوے ہندوستان سمیت 58 ممالک
نے رائے دینے سے گریز کیا۔ اس بار ہندوستان سے امید تھی کہ وہ روس کے خلاف
ووٹ دے گا مگر دہلی سےاس کی اجازت نہیں ملی۔ یہ توقع اس لیے تھی کہ صرف ایک
دن قبل پہلی بار ہندوستانی نمائندے ترومورتی نے حالیہ بحران کے دوران
یوکرین کی صورتحال پر اپنااب تک کے سب سے سخت بیان دیا تھا۔ یوکرین کے صدر
ولودیمیر زیلنسکی سے بوچا شہر میں ہونے والے مظالم کی دل دہلا دینے والی
تفصیلات سننے کے بعدہندوستان نے بھی ہلاکتوں کی روس کا نام لیےمذمت کی تھی۔
ٹی ایس ترومورتی نے بوچا میں شہری ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کی
بغیر نام لیے سخت الفاظ میں مذمت کرکےآزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا
تھالیکن جب اگلے دن روس کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل سے معطل کرنے
کی تجویز آئی تو قومی مفاد ان کے پیروں کی زنجیر بن گیا اوروہ روس کو
ناراض کرنے کی جرأت نہیں کرسکے۔قوم پرستی کی بنیاد پر جاری و ساری اس
منافقانہ سیاست پر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے؎
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں یوکرین کے نمائندے نے کہا
کہ انسانی حقوق کی ہولناک خلاف ورزی اور جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے
روسی فیڈریشن کی معطلی آپشن نہیں فرض ہے۔برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے
اسے نسل کشی کا ہم پلہ بتایا اور فرانس نے بھی پرزور مذمت کی ۔ یوکرین کے
صدر زیلنسکی نے ویڈیولنک کے ذریعہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا
کوئی جرم نہیں ہے جو روس نے بوچا میں نہیں کیا، روسی فوجیوں کی طرف سے کیے
گئے ہولناک اور سفاکانہ مظالم کا ایک سلسلہ درج کیا گیا ہے۔ زیلنسکی نے
بوچا کے مظالم کا موازنہ مشرق وسطیٰ میں اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گرد تنظیموں
کے ساتھ کیا اور ایک ویڈیو دکھاکر اسے جنگی جرم ثابت کیا ۔ اس ویڈیو کے
اندر لاشوں کے ڈھیر میں کچھ کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے لیکن یہ بھی ایک سچ ہے
کہ داعش کے سفید فام دہشت گردوں نے بھی کبھی ایسے بڑے پیمانے پر قتل و
غارتگری نہیں کی لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان کے خلاف کوئی قرار داد جنرل
اسمبلی میں آتی تو کیا 24 ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیتےاور 58 غیر جانبدا
رہتے؟ آج اسرائیل کے مظالم کے خلاف کوئی تجویر آئے توکیا خود زیلنسکی اس
کی مخالفت کریں گے ؟ اس سوال کا جواب انہیں دل پر ہاتھ رکھ کر دینا
چاہیےکیونکہ ؎
یورپ میں بہت روشنیِ علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظُلمات
قوم پرستی پر ایمان رکھنے والےیوروپی ممالک وقتاً فوقتاً بے پناہ سفاکی کا
مظاہرہ کرتے رہتے ہیں سوال یہ ہے کہ کیا اس کی وجہ مذہب ہے؟ نہیں۔ عیسائیت
کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ شریعت الٰہی سے محروم ہے ۔ اس میں شریعت کے نام
پریونانی عقائد و نظریات اور تہذیب و اقدار کا غلبہ ہے۔ عقائد ایسے گنجلک
کہ ابلیس نے بغاوت کے بعد سارے عالم میں اپنا اقتدار قائم کرلیا ۔ اس کو
ختم کرنے کی خاطر خدا کو اپنا بیٹا بھیجناپڑا(نعوذباللہ) ۔ اس سونے پر
سہاگہ یہ کہ بلا عمل کے صرف ایمان لانے کو نجات کے لیے کافی و شافی سمجھ
لینا۔ یہ ایسی باتیں تھیں کہ اس سے بیزار ہو کر کسی بھی باشعور انسان کا
لادینیت کی راہوں پر لگ جانا ایک فطری ردعمل تھا ۔ لادینیت نے جب انفرادی
اور اجتماعی زندگی میں بہت بڑا خلاء پیدا کردیا تو اسے پُر کرنے کی خاطر
جمہوری قوم پرستی کو ایجاد کی گیا۔ یہ شتر بے مہار پہلے سے بھی زیادہ
خونخوار اور بدتر نکلا ۔ اس کا مظاہرہ دو عددجنگ عظیم میں یکے بعد دیگرے
ہوچکا ہے۔ جوہری بم کا استعمال اسی خوشنما نظام ِ سیاسی کے حاملین نے کیا
اور ساری دنیا کو ظلم و جبر کا گہوارہ بنا دیا ۔ اپنی جارحیت کو جمہوری
اقدار کے فروغ کا خوبصورت نام دے کر اپنے حریفوں کا قلع قمع کرتے رہے۔
آپسی جنگ و جدال کو قابو میں رکھنے کے لیے اقوام متحدہ قائم کرلی مگر
یوکرین کی جنگ نے اس کا بھرم بھی توڑ دیا کیونکہ لادینیت کے بطن سے بالآخر
چنگیزیت کا عفریت نکلنا ہی تھا ؎
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اس تناظر میں یوکرین کے صدر نےاقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کھری کھری
سناتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی تک یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت بند کرانے میں
ناکام رہی ہے ۔یوکرین میں ہونے والے مبینہ جنگی جرائم پر روس کا احتساب
کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے وہ بولے کہ ''ہمارا سابقہ ایک ایسے ملک سے پڑاہے
جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ویٹو کا غلط استعمال کرتے ہوئے دوسروں
کو مارنا اپنے لیے جائز قرار دیتا ہے۔زیلنسکی کےبقول روس جو چاہےتباہ کرے
اس کو کوئی سزا نہیں دے سکتا۔مایوسی کی انتہا پر پہنچ کر یوکرین کے
صدرولودو میرزیلنسکی نے اقوام متحدہ کو چیلنج کیا ہے کہ وہ روس کے خلاف
فوری اقدام کرے یا پھراپنے آپ کومکمل طور پر تحلیل کر دے۔انہوں نے روس کو
۱۵؍ رکنی سلامتی کونسل سے بے دخل کرنے مشورہ دیا تاکہ وہ اپنے خلاف کسی
فیصلے کو ویٹو نہ کرسکے۔اس بابت زیلنسکی نے دو ٹوک انداز میں یہ بھی کہہ
دیا کہ اگر سلامتی کونسل کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے تو پھراسے تحلیل
کردینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’خواتین و حضرات،
کیا آپ اقوام متحدہ کو بند کرنے کیلئے تیار ہیں؟ اور کیا بین الاقوامی
قوانین کا وقت ختم ہوچکا ہے؟ اگر آپ کا جواب نہیں میں ہے تو پھرآپ کو
فوری طورپرعمل کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اس جنگ نے جہاں ایک طرف اقوام متحدہ کے اوپر سوالیہ نشان لگا دیا ہے وہیں
امریکہ و یوروپ کی عالمی قیادت کے لیے بھی یہ ایک چیلنج بن گئی۔ امریکہ کے
اعلیٰ ترین فوجی جنرل نے یوکرین میں جنگ کے برسوں تک جاری رہنے کا امکان
ظاہر کیا ہے۔ جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی کہتے ہیں کہ
موجودہ صورتحال میں دنیا کے زیادہ غیر مستحکم ہوجانے کی بابت خدشات بڑھ رہے
ہیں اور بڑی طاقتوں کے درمیان اہم بین الاقوامی تنازعے کا امکان میں کمی کے
بجائے اضافہ ہورہا ہے۔امریکہ کے ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے رو
برو ایک سماعت کے دوران مارک ملی نے یوکرین پر روس کے حملے کو یورپ اور
دنیا کے امن و سلامتی کے لیے اپنے 42 سالہ پیشہ ورانہ زندگی کا سب سے بڑا
خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے امریکہ کو درپیش عسکری خطرات کے حوالے سے کہا کہ
امریکہ جغرافیائی حیثیت سے ایک بہت ہی نازک اور تاریخی موڑ پر کھڑا ہے۔ چین
یا روس کی نسبت طاقت کی غیر واضح صلاحیت کے ساتھ امن کو برقرار رکھتے ہوئے
حکمت عملی وضع کرکے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اس امریکہ کا اعلیٰ
ترین افسر کہہ رہا ہے جو کسی کو منہ نہیں لگاتا تھا ۔ سوویت یونین کے خاتمہ
کے بعد ’ہمارے ساتھ یا دشمن کے ساتھ‘ کہہ کر کھنڈر بنانے کی دھمکی دیتا تھا
لیکن گردش ایام کے تھپیڑوں نے اسے اس موڑ پہ پہنچا دیا جہاں وہ بے یارو
مددگار خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ ناٹو کے اندر روس کے خلاف اپنی فوج
اتارنے کا دم خم نہیں ہے۔ یہ اگر نئے ورلڈ آرڈر کی ابتداء نہیں تو اور کیا
ہے؟ علامہ اقبال نے برسوں پہلے اہل مغرب کو اس خطرے سے آگاہ کردیا تھا؎
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
عالم سکرات میں گرفتار اقوام متحدہ کے قیام کی کوشش دوسری عالمی جنگ کے
دوران شروع ہوئی تھی ۔ 24؍ اکتوبر 1945 کوباقائدہ طور پر یو این او کا قیام
عمل میں آیا۔ عالمی امن کے قیام کی یہ دوسری سعی تھی۔ اسی مقصد کے حصول کی
خاطرپہلی جنگ عظیم کے بعد 10 جنوری 1920 ء کو ”مجلس اقوام“(لیگ آف نیشنس)
قائم کی گئی تھی ۔ جنیوا میں مجلس اقوام کا صدر دفتر بنانے کے بعد سر جیمس
ارک ڈرمنڈکو سیکرٹری مقرر کیا گیا تھا ۔ لطف کی بات یہ ہے امریکہ اس کا رکن
نہیں تھا مگر افغانستان وہاں موجود تھا ۔ مجلس اقوام کی ضرورت کا احساس
پہلی جنگ عظیم( 1914۔ 1918) کی تباہی نے دلایا جس میں تقریباً ایک کروڑ
افراد ہلاک اور بے شمار زخمی ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق چار کھرب ڈالر کا
نقصان ہوا نیزہزاروں شہر قصبے اور دیہات تباہ ہو گے۔ مجلس اقوام سے توقع کی
گئی تھی کہ اب دنیا کو پہلی عالمی جنگ عظیم جیسی تباہ کاریوں کا سامنا نہیں
کرنا پڑے گا، لیکن ستمبر 1939 میں دوسری عالمی جنگ کے چھڑنے پر یہ امید خاک
میں مل گئی۔ دوسری عالمی جنگ اپنے ساتھ پہلی عالمی جنگ سے بھی زیادہ تباہ
کاریاں اور ہولناکیاں لے کر آئی۔ اب تیسری جنگ عظیم کے بادل اقوام متحدہ کی
ناکامی کا شاخسانہ ہیں ۔ اس کا اظہار یوکرینی صدر کی جانب سے نہایت واضح
انداز میں ہوچکا ہے۔ آگے چل کر بہت ممکن ہے کہ پھر سے انہیں خطوط پر کوشش
کی جائے لیکن اسے بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا کیونکہ بنیاد میں قوم
پرستی فتنہ کی جڑ ہے۔قومیت کو ترک کرکے انسانیت کا نظریہ اپنائے بغیر یہ
امن عالم ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے اسلام کی روشنی میں
اقوام متحدہ کے قیام سے قبل وحدت آدم پر زور دیتے ہوئے فرمایا تھا ؎
اس دور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم
تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملتِ آدم
|