ملک میں ’اچھے دن ‘ تو نہیں آئے مگر اس بار ہندووں کا
نیا سال اور رمضان مبارک ایک بھیانک خوب بن گیا ۔ کھرگون میں بلڈوزرنے
فسادی ظلم کو سرکاری جامہ پہنا دیا اور اس آگ پر صوبائی وزیر داخلہ نروتم
مشرا کا یہ کہہ کر تیل ڈال دیا کہ سارے فسادی ایک ہی طبقہ کے (یعنی مسلمان
) تھے اور انہیں ایک طبقہ کے خلاف کارروائی کرنے کے الزام کی پروا نہیں ہے
۔ اس انتہا کے بعد دہلی کے جہانگیر پوری میں فساد پھوٹ پڑا ۔ ابتداء میں
ساری گرفتاریاں مسلمانوں کی ہوئیں۔ مرکزی حکومت اور حزب اختلاف چپی ّ
سادھےرہا ۔ ان حالات میں تشویش لازمی، مایوسی فطری اور اس کو دور کرنے کی
سعی ضروری ہے۔ اس کے لیے اصحاب قلم وقرطاس نے حالات کا دلدوز بیان کرکے ملی
رہنماوں سے پوچھا کہ وہ کیا کررہے ہیں؟ اصحابِ کیمرانے داستان الم سنا کر
سرکار دربار سے سوالات کیے ۔ عام لوگ ان مضامین اور ویڈیوز کوپھیلا کر اپنی
ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کوششوں سے مایوسی گھٹی یا
اس میں مزید اضافہ ہوا؟
دو دن بعد حالات بدلنے لگے۔حزب اختلاف کی 13 جماعتوں نے حالیہ فرقہ وارانہ
جھڑپوں کے پیش نظر مشترکہ بیان جاری کر کے نہ صرف عوام سے امن اور ہم آہنگی
برقرار رکھنے کی اپیل کی بلکہ ان افسوس ناک واقعات پر وزیر اعظم کی خاموشی
پر بھی صدمے اور مایوسی کا اظہار کیا ہےنیز فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے
والوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ کانگریس نے نفرت کے خلاف
انڈیا اگینسٹ ہیٹ نامی مہم کا آغاز کیا ۔ وزیر داخلہ اپنی کمبھ کرن کی
نیند سے بیدار ہوئے ۔ انہوں نےدہلی کے پولیس کمشنر (لا اینڈ آرڈر) دپیندر
پاٹھک سے بات کرکے تشدد کے تناظر میں ضروری اقدام اٹھانے کی ہدایت دیااور
فسادیوں کے خلاف عبرت ناک کارروائی کاحکم دیا ۔ قومی حقوق اطفال کے تحفظ کی
سرکاری تنظیم نے فساد میں بچوں کے استعمال کو لے کر ایف آئی آر درج کرنے
کا مطالبہ کیا ۔ یہ اشارہ جلوس میں تلوار اور چاقو ل والے نوعمر لڑکوں کی
جانب تھا ۔
اس کے بعد ہندو وں کی گرفتاری شروع ہوئی۔ ان پر جہانگیر پوری علاقے میں
بغیر اجازت جلوس نکالنے کا مقدمہ درج کیا گیا ۔ شمال مغربی دہلی کی ڈی سی
پی اوشا رنگنانی نے وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل دہلی کے خلاف مقدمہ درج
کرنے کی تصدیق کی نیز وشو ہندو پریشد کے ضلعی سربراہ پریم شرما کی گرفتاری
عمل میں آئی۔ ذرائع ابلاغ میں جاری بیانیہ کہ ’ایک پر امن رام نومی کی
شوبھا یاترا پر مسلمانوں کے پتھر بازی سے فساد پھوٹ پڑا‘ میں تبدیلی آئی ۔
دہلی پولیس کمشنر راکیش استھانہ نے صحافیوں کے سامنے اعتراف کیا کہ جلوس
بغیر اجازت کے نکالے گئے تھے ، لیکن چونکہ نکل چکے تھے، پولیس نے ان کے
پرامن طریقے سے نکلنے کو یقینی بنانے کی کوشش کی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے
کہ کیا یہ تبدیلی ہمارے ماتم گزیدہ شذرات یا ویڈیوز سے آئی یا اس کے
محرکات کچھ اور ہیں؟ سچ تو یہ ہے کہ اس تبدیلی سب سے اہم کردار ان رپورٹرس
نے ادا کیا جو ان کشیدہ حالات میں زمینی حقائق معلوم کرنے کی خاطر فساد زدہ
علاقوں میں گئے ۔ ان میں این ڈی ٹی ، نیوز24، ملت ٹائمز جیسے چینلس کا اہم
کردار ہے ۔
یہ صحافی اگر میدانِ عمل میں جاکر حقیقت کو اجاگر نہیں کرتے تو دنیا گودی
میڈیا اور انتظامیہ کے بیان کردہ جھوٹ کو سچ مان لیتی اور مظلوم کو ظالم
سمجھ کر اس کی حمایت کرنے بجائے مخالفت کرتی۔ اس لیے اپنی جان جوکھم میں
ڈالنے والے ان رپورٹرس کی تحسین ہونی چاہیے ۔ انتخابی رحجان معلوم کرنے کی
خاطر میدان میں جانا آسان ہوتا ہے لیکن فساد زدہ علاقہ میں فسادیوں کے
علاوہ انتظامیہ کے ذریعہ ہراسانی کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں زیر جامہ
لباس میں محصور صحافیوں کی تصاویر پھیلاکر یہ پیغام دیا گیا تھا کہ اگر
سرکار سے اختلاف کیا تو اس انجام سے دوچار ہونا پڑے گا ۔ اس خوف سے بے نیاز
جیالوں نے میدان میں اتر کر سرکاری جھوٹ کو بے نقاب کردیا۔ یہ تالی ایک
ہاتھ سے نہیں بجی بلکہ بعد از فساد جس بے خوفی سے مسلمانوں نے اپنا موقف
بیان کیا وہ بھی قابلِ رشک تھا ۔ ببانگِ دہل اپنی بات رکھنے والوں کو اس
بات کا خطرہ تھا کہ دیگر بے قصور لوگوں کے ساتھ انہیں بھی گرفتار کیا
جاسکتا ہے لیکن یہ خوف ان کے پیروں کی بیڑی نہیں بنا ۔ انہوں نے کھل کر
بتایا کہ فساد کیسے شروع ہوا؟ اور کس نے کیا کیا؟
نیوز 24کے دیپک دوبے سے ایک نوجوان سوال کرتا ہے کہ کوئی مسجد پر جھنڈا
لہرانے کی کوشش کرے گا تو آخر کب تک برداشت کیا جائے گا؟ ایک عورت پوچھتی
ہے کہ اگر ہم فساد کی تیاری سے ہوتے تو وہ کیسے جاتے ؟ ان بیانات میں سینہ
کوبی یا مایوسی نہیں بلکہ مقابلے کا حوصلہ نظر آ تا ہے۔ جہانگیر پوری میں
انصار کا معاملہ اس کی درخشاں مثال ہے کہ جس میں انتظامیہ اور میڈیا کو
زبردست ہزیمت اٹھانی پڑی ۔ فساد کے حوالے سے پہلے تو یہ تاثر دیا گیا تھا
کہ وہ بنگلا دیشی اور روہنگیا مسلمانوں کی بستی ہے اس لیے انصار اور دیگر
گرفتار شدگان کا تعلق بھی انہیں سے ہے لیکن پھر یہ بتانا پڑا کہ اس کی
پیدائش وہیں ہوئی تھی۔ وہ کباڑی نہیں بلکہ موبائل اور کمپیوٹر میکانک ہے۔
انصار کی اہلیہ سکینہ کا دلیری و اعتماد کے ساتھ واقعات کو بیان کرنا وہ
قابلِ تعریف ہے۔ اس نے بتایا کہ انصار کھانا چھوڑخالی ہاتھ نکل کھڑا ہوا۔
وہ بولی کہ اگر حملہ کرنا ہوتا تو وہ اپنے ساتھ کم ازکم کوئی ڈنڈا لے کر
جاتا ۔ پولس نے یہ دیکھا کہ اس کو بوتل لگی مگر پھر بھی اسی کو ملزم بنا
دیا گیا ۔ اس حق گوئی اور بے باکی کے بغیر سچائی کبھی بھی سامنے نہیں آتی
۔ اس کے لیے درکار ہمت و جرأت کا مظاہرہ کرنے والی سکینہ انصار مبارکباد
کی مستحق ہے۔
این ڈی ٹی وی کی سوکرتی دیویدی کے سامنے انصارکی غیر مسلم پڑوسن کملیش گپتا
کی صاف گوئی بھی قابلِ تعریف ہے ۔ کملیش نے بتایا کہ گزشتہ بارہ سال سے وہ
ہم سایہ ہے ۔ انصار نے ان کا بھرپور تعاون کیا ہے۔ اس کے بیمار بچے کو لاک
ڈاون میں اسپتال لے گیا ۔ اس کی بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھتا ہے۔ بھابی کہہ کر
وقتِ ضرورت مالی تعاون بھی کرتا ہے۔ بے وقت کہیں جانے کی ضرورت پیش آئے تو
مدد کرتا ہے ۔ اس کے خاوند کو لوٹنے میں تاخیر ہوجائے تو تشویش کا اظہار
کرتا ہے۔ کملیش نے گواہی دی کہ انصار ساری گلی کے لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق
سے پیش آتا ہے۔ اس معاملہ میں وہ ویڈیو کا بنانے والا بھی قابلِ ستائش ہے
کہ جس میں انصار ایک بلوائی نوجوان کو چاقو سمیت پکڑ نے کے بعد سمجھا بجھا
کر چھوڑ دیتا ہے۔ وہ ویڈیو اگر نہیں ہوتا تو اس واقعہ پر کوئی یقین نہیں
کرتا ۔ مسجد میں گھسنے کی کوشش کرنے والے فسادیوں کی تصاویر لینے والے اور
ویڈیو بنانے والے نوجوانوں نے وایسے ٹھوس ثبوت فراہم کیے کہ جس سے دودھ کا
دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا ۔حالات کو بدلنے کے لیے ایسے اقدامات کرنے
پڑتے ہیں ۔
ان سنگین حالات میں ایڈوکیٹ امرت پال سنگھ خالصہ کا سپریم کورٹ سے رجوع
کرکے جہانگیرپوری تشدد کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل
دینے کا مطالبہ بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ انہوں نے دہلی پولیس کی
تفتیش کو جانبدارانہ اور فرقہ وارانہ بتاتے ہوئے اپنے خط میں لکھا کہ یہ تو
فساد کی تیاری کرنےوالوں کو بچانے کی کوشش کررہی ہے۔ میڈیا کی رپورٹس کا
حوالہ دے کر انہوں نے لکھا کہ فساد کی ابتدا تو جلوس میں شامل بلوائیوں کے
مسجد میں داخل ہونے اور جھنڈا لہرانے کی کوشش سے ہوا۔ اس کے باوجود صرف
مسلمانوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر گرفتار کیا جارہا ہے۔امرت پال سنگھ نے
چیف جسٹس این وی رمنا سے کہا کہ دو سالوں میں دوسری بار دہلی پولس فرقہ
وارانہ فسادات کو روکنے میں ناکام رہی اس لیے وہ ازخود نوٹس لے کر غیر
جانبدارانہ تفتیش کے لیے موجودہ جج کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دیں ۔ انہوں
نے یاد دلایا کہ دہلی پولیس کو 2020 میں بھی یہ عدالت تنبیہ کرچکی ہے۔ اس
طرح کے بروقت اقدامات بھی اپنا اثر دکھاتے ہیں اس لیے مستقبل میں خالصہ
صاحب کی تقلید ہونی چاہیے۔
جہانگیر پورہ کی کشیدہ صورتحال میں ناظم اعلیٰ دارالعلوم گلشن غازی کا ایک
مراسلہ بعنوان ’کوئی گھبرانے کی بات نہیں‘ شائع ہوا ۔ اس میں انہوں نے
تفصیل سے تمام واقعات کو بیان کرنے کے بعد لکھا کہ جب تیسری ریلی کے مسجد
میں گھسنے کا خطرہ پیدا ہوگیا تو مسلمان مزاحمت کے لیے اپنے گھروں سے نکل
پڑے ۔ اس سے فسادیوں کے ہوش اڑ گئے ۔ وہ اپنے سروں سے جے شری رام کی پٹی
اور گاڑیوں سے بھگوا جھنڈا نکال کر بھاگنے لگے۔ اب وہ جئے شری رام کے بجائے
’مجھے چھوڑ دو آئندہ یہ غلطی نہیں کروں گا ‘ کہہ رہے تھے۔مسلمانوں نےجب
کہا گاڑیاں لیتے جاو تو وہ بولے’ زندہ رہے تو لے جائیں گے‘ ۔دس منٹ میں
معاملہ نمٹ گیا ۔ اس کے بعد پولس فورس آگئی ۔ نمازِ عشاء اور تراویح
اطمینان کے ساتھ ادا کی گئی ۔ اس زمینی حقیقت اور اخباری تشویش میں یہ فرق
ہے کہ ایک سے حوصلہ ملتا ہے اور دوسرے سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔ آگے کے
مشکل مراحل کا بھی اسی عزم کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صبر و استقامت
کے امتحان سے گزرنے کے بعد نصرت الٰہی یقینی ہے۔
|