اس باررمضان سے قبل وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ
نےمبارکباد کا پیغام دے کر اپنے دوستوں اور دشمنوں دونوں کوچونکا دیا ۔ ملک
کے دگرگوں نفرت انگیز ماحول میں وہ حیرت کا ایک خوشگوار جھونکا تھا ورنہ اس
سے پہلے جب ان سے عید کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تھا مجھے اس
سے کیا مطلب؟ میں تو ایک ہندو ہوں ۔ یوگی ادیتیہ ناتھ اس وقت اپنے والد
آنند سنگھ بشٹ کی وہ نصیحت بھول گئے تھے جو وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے
کے بعد انہیں کی گئی تھی ۔ آنجہانی آنند سنگھ نے کہا تھا کہ اب وہ ہندو
اور مسلمانوں سب کے وزیر اعلیٰ ہیں اس لیے سبھی کے ساتھ یکساں سلوک کریں ۔
ایسا لگتا ہے کہ دوسری بار حلف برداری کے بعد انہیں اس کا احساس ہوا اور
انہوں نے نہ صرف مبارکباد دی بلکہ ایک تقریر میں یہ بھی کہا کہ ، ’رام نومی
پر یوپی میں 800 سے زیادہ مقامات پر جلوس نکالے گئے، اور ساتھ ہی رمضان کا
مہینہ چل رہا ہے، وہاں روز ہ افطار کے پروگرام ضرور ہوئے ہوں گے۔ لیکن کہیں
بھی دنگا فساد تو دور تو تو ، میں میں بھی نہیں ہوئی ۔ ‘یہ ایک حقیقت ہے اس
بار پورے یوپی میں کہیں فساد کی صورتحال نہیں بنی۔
وزیر اعلیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اترپردیش کے25 کروڈ لوگوں نے رام نومی
کے مقدس جنم دن پریہ ثابت کر دیا کہ اب یہاں انارکی ، افواہوں اور غنڈہ
گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس موقع پر جملۂ معترضہ کے طور پر یہ سوال
تو پیدا ہوگا کہ اگر یوپی میں نہیں تو ایم پی میں یہ بات کیوں ثابت نہیں
ہوئی اور وہاں بلڈوزر کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ ایسا لگتا ہے کہ یوگی جی اس
بار نظم و نسق کے معاملے میں سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے
ذریعے پولیس افسران کو امن و امان سے متعلق کئی ہدایات دیں مثلاً تھانہ
انچارج سے لے کر اے ڈی جی تک اگلے 24 گھنٹے کے اندر اپنے اپنے علاقے کے
مذہبی رہنماؤں، سماج کے دیگر لوگوں سے بات چیت کریں تاکہ آنے والے
تہواروں خاص کر عید اور اکشے ترتیا میں مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھی جاسکے۔
ڈنڈے کے بجائے گفت و شنید اور باہمی اعتماد کی مدد سے حالات بہتر بنانے کی
کوشش خوش آئند ہےکیونکہ بقول حفیظ میرٹھی ؎
تسلیم اسے کوئی بھی دل سے نہیں کرتا
وہ فیصلہ جو جبر کی تلوار کرے ہے
یوگی نے اپنے ٹویٹ میں عید اور اکشے ترتیا کے ایک ہی دن ہونے کے سبب موجودہ
ماحول میں پولیس کو اضافی حساسیت کی تلقین کی ۔انہوں نے مذہبی تقریبات ،
پوجا وغیرہ کو مقررہ جگہ پر منعقدکرنے کی ہدایت کی تاکہ ٹریفک میں خلل نہ
پڑے اور پولیس سے کہا کہ وہ شرارت پرمبنی بیانات جاری کرنے والوں کے ساتھ
سختی سے پیش آئیں۔ ماحول خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں سے سختی سے نمٹا
جائے۔ مہذب معاشرے میں ایسے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ یوگی
نے سیتا پور سےمسلم خواتین کو عصمت دری کی دھمکی دینے والے مہنت بجرنگ منی
داس اور غازی آبادمیں ہندوؤں کو دہشت گرد بننے کے لئے اکسانے والے پلکت
مہاراج کو گرفتار کر کے شرانگیزوں کو واضح پیغام دیا ہے ۔ انہوں نے
’تحصیلدار، ایس ڈی ایم، ایس ایچ او یا سی او کو اپنی تعیناتی کے علاقے میں
شبانہ قیام کے لیے سرکاری رہائش کی عدم موجودگی میں کرائے کا مکان لے کر
ٹھہرنے کی ہدایت کی تاکہ حفاظتی انتظام کی سختی سے تعمیل کو یقینی بنایا
جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر انتظامیہ چاہے تو فسادکو بہ آسانی روک سکتا ہے۔
یوگی نے یہ بھی کہا کہ ہر کسی کو اپنی عبادت کے طریقے پر عمل آوری کی
آزادی ہے۔ مائیک کااستعمال کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات کو یقینی بنایا
جائے کہ مائیک کی آواز احاطے سے باہر نہ آئےتاکہ دوسرے لوگوں کو تکلیف نہ
ہو۔ یہ قانون چونکہ سبھی کے لیے ہے اس لیے اختلاف کی گنجائش نہیں نیز نئے
مقامات پر مائیک کی اجازت نہیں دینے کے احکامات بھی دیئے گئے ہیں۔ فی الحال
ملک بھر میں جلوس کے بہانے فساد بھڑکائے جارہے ہیں ۔ اس بابت یوگی کا کہنا
ہے کہ ’بغیر اجازت کے کوئی بھی جلوس؍مذہبی جلوس نہیں نکالا جانا چاہیے۔
اجازت سے پہلے امن اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے حوالے سے منتظم سے حلف
نامہ لیا جانا چاہیے۔ اجازت صرف روایتی مذہبی جلوسوں کو دی جائے۔ نئے غیر
ضروری جلوسوں کو اجازت نہ دی جائے۔ ان پابندیوں پر اگر سختی سے عملدرآمد
ہوتو دنگا فساد پر ازخود لگام لگ جائے گی ۔ ان احکامات پر عمل کروانے کی
خاطر ایس ایچ او، سی او اور پولیس کیپٹن سے لے کر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، ڈویژنل
کمشنر تک تمام انتظامی؍پولیس افسران کی 4 مئی تک کی چھٹیاں فوری طور پر
منسوخ کر دی گئی ہیں۔ جو لوگ اس وقت چھٹی پر ہیں انہیں اگلے 24 گھنٹوں میں
رجوع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔اتر پردیش میں پچھلے پانچ سالوں سے جو فرقہ
واریت کو ہوا دی گئی اس کے نتیجے میں یوگی جی کی راہ کا سب سے بڑا روڑا خود
انتہا پسند ہندتوا نواز ٹولہ ہیں۔ان لوگوں کے لیے یوگی کا نیا انداز نئی
مصیبت ہے بقول شاعر(مع ترمیم)؎
یوگی کا یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا
دیکھے ہے حقارت سے کبھی پیار کرے ہے
وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب وارانسی کے اندر اذان کے جواب میں لاؤڈ اسپیکر
کے ذریعے ہنومان چالیساپاٹھ کا اعلان ہوچکا ہے۔ یہ تنازع شری کاشی وشواناتھ
گیانواپی مکتی اندولن کی جانب سے اچھالا گیا ۔ اس کی ابتداء آندولن کے صدر
سدھیر سنگھ نے اپنے گھر سے کی اور اعلان کیا کہ اذان کے وقت لاؤڈ اسپیکر
کے ذریعہ ہنومان چالیسا بجایا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ کاشی میں علی
الصبح مندروں میں ویدک پاٹھ ، پوجا پاٹھ اور ہنومان چالیسا کا بھی پاٹھ ہوا
کرتا تھا ۔ عدالت نےصوتی آلودگی پر اعتراض کیا تو مندروں سے لاؤڈ اسپیکر
ہٹا دیئے گئے لیکن مساجد میں اسی طرح لگے رہے۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا
کہ جب اذان کی آواز آرہی ہے تو پھر کیوں نہ ہم اپنے مندروں سے لاؤڈ
اسپیکر پر ویدک منتر اور ہنومان چالیسا کا پاٹھ کریں۔ سدھیر سنگھ نے کہا کہ
فی الحال چار سے پانچ بار ہنومان چالیسا کا پاٹھ لاؤڈ اسپیکر پر کیا
جارہارہے لیکن اصول کے مطابق ہنومان چالیسا صرف طلوع آفتاب اور غروب
آفتاب کے وقت پڑھی جاتی ہے، اس لیے آگے چل کر یہ ان دو اوقات میں پڑھا
جائے گا ۔ ان سے نمٹنا یوگی انتظامیہ کے لیے اگنی پریکشا سے کم نہیں ہوگا۔
وارانسی کے علاوہ علی گڑھ میں بھی سنگھ کی طلبہ تنظیم اے بی وی پی نے مساجد
میں اذان روکنے کا مطالبہ کیا ہے ساتھ ہی تمام چوراہوں پر لاؤڈ اسپیکر کے
ذریعے ہنومان چالیساپڑھنے کا اعلان کیا ۔ اے بی وی پی نے انتظامیہ سے علی
گڑھ کے 21 چوراہوں پر لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ ہنومان چالیسہ پڑھنے کی اجازت
مانگی ہے۔ تاہم انتظامیہ نے انکار کر دیا اس کے باوجود اے بی وی پی اس مہم
کو آگے بڑھا نے کے لیے پر عزم ہے۔ یوگی کے لیے دوسرا چیلنج ان ہندوتوا
نوازں کے ذریعہ دلتوں کی مخالفت بھی ہے۔ اس بار بابا صاحب ڈاکٹر بھیم رائو
امبیڈکر کی یوم پیدائش کے دن کچھ سماج دشمن عناصر نے دہلی سے متصل نوئیڈا
کے چھجرسی گاؤں میں امبیڈکر کی مورتی کو نقصان پہنچایا جس سے علاقے میں
کشیدگی پھیل گئی۔ ایک طرف تو وزیر اعظم نریندر مودی آئین کے معمار بابا
صاحب بھیم رائو امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ملک کی ترقی میں ان کے
بے پناہ تعاون کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کے خوابوں کی تکمیل کا عزم کرتے
ہیں ۔ دوسری جانب ان کے بھگت یہ بے حرمتی کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں سے نمٹنا
بھی یوگی کے لیے آسان نہیں ہوگا ۔
سخت گیر ہندوتوا نوازوں کا خیال ہے کہ دہلی اور ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ
وارانہ فسادات کے سبب امیت شاہ ناکام ہوچکے ہیں اس لیے ان کو فارغ کردینا
چاہیے۔ وہ لوگ کھلے عام امیت شاہ کو ہٹا کر یوگی کو وزیر داخلہ بنانے کا
مطالبہ کررہے ہیں ۔ حالیہ صوبائی کونسل کے انتخاب میں تو یوگی نے مودی کو
بھی جھٹکا دے دیا ۔ بلدیاتی اور پردھانی کے انتخاب میں دھاندلی کی روایت کو
جاری رکھتے ہوئے ۳۶ میں سے ۳۳ بی جے پی کے امیدوار کامیاب کروا دئیے
حالانکہ یہ مایا وتی 34 میں 34سیٹوں کی جیت کے برابر نہیں ہے۔ اس غیر
معمولی کامیابی پر وزیر اعظم نریندر مودی کے حلقۂ انتخاب وارانسی میں بی
جے پی امیدوار ڈاکٹر سداما پٹیل کی شکست فاش ایک کلنک بن گئی ۔ پچھلی بار
اس سیٹ پر برجیش سنگھ نامی مافیا نے انتخاب لڑا تو بی جے پی اپنا امیدوار
نہیں اتار کراس کی حمایت کردی تھی ۔ اس مرتبہ برجیش کی بیوی اناپورنا سنگھ
آزاد امیدوار تھیں اور بی جے پی کے ڈاکٹر سداما سامنے تھے جوتیسرے مقام پر
آئے۔اناپورنا سنگھ کو 4234 ووٹ تو ڈاکٹر پٹیل کو محض 170 ووٹ ملے۔ دوسرے
نمبر پر سماجوادی پارٹی امیدوار امیش یادو کو 345 ووٹ ملے۔ ان نتائج سے
یوگی نے یہ دکھا دیا کہ اگر وہ دلچسپی نہ لیں تو مودی کا جادو نہیں چل سکتا
۔
یوگی کا نیا انداز یوپی کی سیاست میں یہ ایک مثبت تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔
یوگی نے اگر صدیق کپن، مولانا کلیم صدیقی، عمر گوتم اور اعظم خان کی رہائی
میں کوئی نئی رکاوٹ نہیں کھڑی کی تب ہی ان سنجیدگی پر مہر لگے گی۔ یوگی کو
فی الحال مرکزی حکومت سے خطرہ نہیں ہے لیکن جب بھی مرکزی حکومت ان کے خلاف
کوئی سازش کرے گی یا وہ کسی اورسنگین مسئلہ میں گھرِ جائیں گے تو اس وقت ان
کا اصل امتحان ہوگا ۔ اپنی کوتاہی کی جانب سے توجہ ہٹانے یا اپنے سر پر
منڈلاتے خطرے کو ٹالنے کی خاطر اگر وہ پھر سے مسلمان دشمنی کا راگ الاپنے
لگیں تو سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے گا ۔ اس لیےیہ گاڑی کب تک اس پٹری
پر چلے گی اور کب اتر جائےگی یہ کہنا مشکل ہے ۔ سی ایم یوگی نے لال جی ٹنڈن
کی کو یاد کرتے ہوئے لکھا کہ ، ’لال جی ٹنڈن کی شخصیت مثبت راستوں پر چلنے
کا ایک ذریعہ تھی، اس لیے ہر کارکن ان پر فخر محسوس کرتا تھا۔ کسی کی کہیں
بھی سنوائی نہیں ہوتی تھی تو ’ بابو جی‘ اس کے لئے دستیاب رہتے تھے ، صرف
بی جے پی ہی نہیں دیگر پارٹی و برادری کے لوگ بھی ان کے پاس جاتے تھے۔ یوگی
کو خود بھی ٹنڈن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مثبت راستے گامزن رہنا چاہیے
تاکہ اپنے اور پرائے مسائل لے کر ان کے پاس آئیں تبھی ان کی شبیہ سدھرے گی
ورنہ تو مودی جی کی اچھی اچھی باتوں سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یوگی اگر
تبدیلی چاہتے ہیں تو انہیں اپنا کردار بدلنا پڑے گا کیونکہ بقول حفیظ
میرٹھی؎
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
|