۷۵۸۱ءمیں جب مغلیہ دور کا خاتمہ
ہوا اور انگریزوں نے اس خطے میں قبضہ کرکے قدم جمالیئے تو اپنی ضروریات
اشیاءاور جنگی ساز و سامان کی منتقلی کیلئے دیرپا اور پائیدار سفر اپنانے
کیلئے ریل کا نظام مروج کیا ، جس میں ریل پٹریاں بچھائی گئیں اور کوئلہ سے
چلنے والے انجن انگلینڈ سے منگوائے گئے ، دور برطانیہ میں برصغیر پاک و ہند
میں ریل کے سفر کو پھیلا دیا گیا جس سے آج پاکستان میں موجود خطہ بھی
سرفراز ہوئے ، اس طر ح پاکستان ریلوے بھی برطانیہ حکومت کی بنائی ہوئی
کمپنی ہے ، گو یا اب اسے پورے ایک سو پچاس سال کا عرصہ بیت گیا ہے ۔۔۔۔ اس
خطہ میں ریلوے کی سب سے پہلی پٹڑی 03 مئی 1861 ءکو بچھائی گئی تھی۔ وہ
سیکشن جہاں 150 سال قبل پٹڑی بچھا کر ریلوے کا آ غاز کیا گیا تھا وہ کراچی
سے کوٹری کا 175 میل کا فاصلہ تھا۔۔۔ہم جانتے ہیں کہ پاکستان ریلوے ،
پاکستان کے ان بہت سے محکموں میں سے ایک ہے جو خطرے میں ہیں۔ اس کا
انفرااسٹرکچر کئی جگہوں پر 150 سال پرانا ہے اور اس بات کی شدت سے ضرورت ہے
کہ ان پرانے حصوں کو بحال کیا جائے۔۔"رولنگ اسٹاک" اپنی پرانی کوچز اور
بوسیدہ انجنوں کی وجہ سے "لافنگ اسٹاک" بن چکا ہے۔۔ضرورت اس امر کی ہے کہ
سب سے پہلے کراچی تاپشاور روٹ اور سکھرتاکوئٹہ تازاہدان روٹ پر پٹڑیوں کو
بحال کیا جائے۔۔۔۔۔ پاکستان ریلوے سامان کی ترسیل کا کام با آسانی سنبھال
سکتی ہے بہ نسبت روڈ ٹرانسپورٹ کے، اس طرح پاکستان ریلوے کے پاس قابل ذکر
آمدنی کے وسائل حاصل ہونا شروع ہو جائیں گے کیونکہ گزشتہ ایک دہائی میں
پاکستان کا روڈ سٹریکچر بہت زیادہ بہتر ہو چکا ہے جبکہ اس کے برعکس پاکستان
ریلوے کا انفرا اسٹرکچر مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔اس لیے کہ ایک تاجر اپنا
سامان اُس وقت تک ریلوے کے حوالے نہیں کرے گا جب تک ریلوے خود کو روڈا
سٹریکچر کے مقابلے میں بہتر ثابت نہیں کر دیتا۔تاہم چونکہ پاکستان ریلوے
حکومتی ادارہ ہے اس لیے یہ بھی نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی طرح حکومتی مدد سے
اپنے انفرا سٹرکچر کو بہتر کر سکتا ہے۔دوسری طرف ریلوے پریم یونین کے
ڈویژنل صدر خالد محمود چوہدری نے کہا ہے کہ کرپٹ بیورو کریسی اور حکمرانوں
کی ناقص پالیسیوں سے ریلوے کی70 فی صد انجن اور پاور پلانٹ ناکارہ ہوگئے
ہیں ،ریلوے کو کروڑوں روپے روزانہ کا نقصان پہنچایا جا رہاہے،منظم سازش کے
تحت عوام کو سستی سواری سے محروم کیا جارہا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان ریلوے
کو بچانے کے لیئے سوموٹو ایکشن لیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام شدید مشکلات کا
شکا ر ہیں۔ایڈوانس بکنگ کروا کر اسٹیشن پر پہنچنے والے مسافروں کو اسٹیشن
پر پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ ٹرین نہیں جا رہی اور اسکا انجن اور پاور پلانٹ
خراب ہے۔۔۔۔۔انتظامیہ کی ناہلی کی وجہ سے شدید گرمی میں مسافر در بدر کی
ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، انہوں نے کہا کہ ریلوے گزشتہ تریسٹھ سال سے
قوم کی خدمت میں مصروف ہے اور عوام کو سستی سفری سہولیات فراہم کر رہا ہے
مگر نا عاقبت اندیش افراد اپنے ذاتی مفادات کے لیئے وطن عزیز کی ترقی اور
معیشت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرنے والے ادارہ کو تباہ و برباد کر نے
میں مصروف ہیں۔ ریلوے کی گڈز سروس معطل ہونے کی وجہ سے نہ صرف ریلوے بلکہ
ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ ریلوے کو بچانے کی لیئے
سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن قائم کریں جو گزشتہ بارہ سال میں
استعمال ہونے والے فنڈز خصوصاً انجنوں اور پاور پلانٹس کی مرمت پر خرچ ہونے
والی رقم کے حسابات کا جائزہ لے اور اربوں روپے ہڑپ کرنے والے افسران اور
حکومتی ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچائے۔۔۔ سیاسی حزب الاختلاف جماعتوں
کے لیڈران نے حکومتی ناقص پالیسیوں پر شدید نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ
تمام محکموں اور شعبوں کی طرح ٹرین کے محکمے میں بھی حکومتی کارکردگی صفر
ہوگئی ہے۔ اگر ریلوے پر خصوصی توجہ نہ دی گئی اور فوری مسائل حل نہ کئے گئے
تو پاکستان بھی افغانستان کی طرح بغیر ٹرین سروس والا ملک بن جائے گا ‘
حکومت ریلوے کی صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور پاکستان ریلوے کو درپیش
مسائل کو فوری حل کیا جائے تاکہ عوام کو سہولتیں میسر آسکیں۔ انہوںنے کہاکہ
ریلوے کا یہ حال ہوگیا ہے کہ کبھی انجن نہیں ہوتا توکبھی بوگیاں اور اگر
کبھی انجن اور ڈبے ہوں تو ریلوے ڈرائیور اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج
کرتے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ اسٹیشنز اور پلیٹ فارمز پر صفائی ستھرائی کی
صورتحال انتہائی ناقص ہے ‘ انتظار میں بیٹھنے کا مناسب انتظام ہے نہ ہی
پینے کاصاف ٹھنڈا پانی میسر ہے ‘لوگ انتہائی مہنگے داموں اسٹال کے کھانے
پینے کی چیزیں خریدنے پرمجبور ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر کرشماتی طورپر
ٹرینیں چل بھی پڑے تومسافروں کو کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کتنے گھنٹے
تاخیر سے اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکیں گے۔پشاور سے چلنے والی ٹرین دو دن
کے بجائے تین دن میں کراچی پہنچ رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیر ریلوے نے
ریلوے کو تباہ کرکے ٹرانسپورٹروں کو فائدہ پہنچایا ہے‘ کیونکہ ان کا ذاتی
کاروبار ٹرانسپورٹ ہے اور وہ اپنے کاروبار کو بڑھاوادینے کیلئے از خود
محکمہ ریلوے کو تباہ و برباد کر نے پر تلے ہوئے ہیں انہیں نہ ملک کی فکر ہے
اور نہ عوام کا احساس حیرت تو اس بات پر ہے کہ عوامی مینڈیٹ سے حاصل ہونے
والی یہ پیپلز پارٹی کی حکومت نجانے کیوں لوٹ گھسوٹ میں انتہائی عجلت اور
بربریت پیش کررہی ہے اسی لیئے وفاقی وزیر ریلوے بشیر بلور صاحب
ٹرانسپورٹروں کو صرف منافع دینا چاہتے ہیں تاکہ صرف اور صرف ان کا اور ان
کے ساتھیوں کا کاروبار چمکے ۔۔۔۔۔۔اس کے علاوہ بھی ریلوے میں اربوں روپے کا
کرپشن ہو رہا ہے ‘مسافروں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے آئے روز کرایوں
میں اضافے کی نوید ضرور سنائی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ریلوے بحران کی وجہ
سے پاکستان بھرمیں ہزاروں قلیوں کا روزگار بھی داﺅ پر لگ گیا ہے ‘ خوانچہ
فروش اورریلوے اسٹیشنز پر اسٹال مالکان بھی آمدنی نہ ہونے کا رونا رورہے
ہیں۔انہوںنے کہاکہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے وفاقی وزیر ریلوے سے مطالبہ کیا
ہے کہ وہ اگر محکمے کے معاملات نہیں چلا سکتے تو وہ مستعفی ہوجائیں لیکن
وفاقی وزیر ریلوے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہونے کےلئے تیار بھی
نہیں ہیں اور نہ ہی ریلوے کو بحران سے نکالنے کےلئے ان کے پاس کوئی حل ہے۔
انہوں نے کہاکہ تمام حکومتی اداروں جن میں پاکستان ریلوے ‘پاکستان اسٹیل مل‘
پی آئی اے اور واپڈا اس وقت آخری سانسیں لے رہے ہیں ‘ ایسا لگتا ہے کہ ان
اداروں کی نجکاری کرنے کےلئے منظم سازش کے تحت ان اداروں کو تباہ کیا جارہا
ہے۔سابق اراکین اسمبلی نے مطالبہ کیا کہ حکومت محکمہ ریلوے کی ابترصورتحال
کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور ریلوے کو درپیش مسائل کا فوری حل نکالے تاکہ
عوام کو سفری دشواریوں سے نجات ملے ‘نیز پاکستان ریلوےکوخسارے کے دلدل میں
دھکیلنے والوں کا بھی کڑا احتساب عمل میں لایا جائے۔۔۔ |