زوال ،گراوٹ اور قحط الرجالی کی
اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ ملتان میں وزیراعظم کے ایک صاحبزادے کے
بارے میں بینرز آویزاں کئے گئے ہیں جن میں موصوف کو جنوبی پنجاب کے علاقوں
پر مشتمل نئے صوبے کا وزیر اعلٰی قرار دے دیا گیا ہے۔یہ صوبہ کب بنے گا، اس
کا نام کیا ہوگا، اس وقت اس کی سیاسی صورت حال کیا ہوگی ؟ کسی کو کچھ معلوم
نہیں ، مگر خوشامد کے ایسے ایسے ماہرین معاشرے میں موجود ہیں ، جو حکمران
طبقے کی مطلوبہ نبض پر ہاتھ رکھنے کے ہنر سے خوب آشنا ہیں۔ اتنی سطحی اور
بے تکی خوشامد سے اگر عوام کو کراہت کا احساس ہو تو ہو، خوشامد کرنے اور
کروانے والوں کے چہروں پر تمازت کے آثار ضرور ظاہر ہوئے ہونگے۔
وزیر اعظم کا وہ صاحبزادہ جسے 2008ءکے قومی انتخابات میں ملتان کے لوگوں نے
اپنے ووٹ کا اہل نہ جانا تھا، اور اسے والد گرامی کے وزیر اعظم بن جانے کے
بعد رحیم یار خان سے الیکشن لڑنے اور جیتنے کا موقع مل گیا، کسی نااہل یا
نا پسندیدہ انسان کا باپ جب کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوجائے تو اس کی
ناہنجار اولاد بھی تیس مار خان بن جاتی ہے۔کچھ اسی قسم کامعاملہ عبدالقادر
گیلانی کے ساتھ بھی ہوا، رحیم یار خان سے جیت کے بعد اس کے ڈیرے ملتان میں
ہی ہیں، اس کا چچابھی بہت ہی خاص الیکشن کے ذریعے پنجاب اسمبلی کا ممبر
منتخب ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
اب اختیارات کا بھوت اس خاندان کے سر پر یوں سوار ہے کہ ’اختیارات ہیں اور
ہم ہیں دوستو‘ ۔ ان دو ممبران صوبائی اسمبلی پر ہی کیا موقوف ، یہاں خاندان
کا ہر فرد اپنی ذات میں’وزیراعظم ‘ ہے،اختیارات کے اعتبار سے، پروٹوکول کے
اعتبار سے ،خوشامد پسندی کے حساب سے، مستقبل کی امیدوں کے لحاظ سے۔جلالپور
پیر والہ جیسے سب تحصیل قصبے میں پاسپورٹ بنانے کی سہولت موجود ہے ، جبکہ
یہ فریضہ صرف ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ز پر ہی سر انجام دیا جاتا ہے۔اس قصبے پر
دیگر خصوصی عنایات کی وجہ یہی ہے کہ یہاں سے برادر خورد نے الیکشن لڑا اور
مشکل سے جیتا تھا، اب یہی ایم پی اے بھائی ملتان میں عملاً ڈپٹی وزیر اعظم
بھی ہے۔
اس قسم کی خوشامد کی روایت ہمارے پورے معاشرے میں فروغ پذیر ہے، ایوان صدر
سے لے کر ایک عام ممبر اسمبلی تک ، ہر کوئی اپنی اولاد کو اس منفعت بخش
کاروبار میں اپنا جانشین مقرر کرنا چاہتا ہے۔ اور تو اورپاکستان کے اعلٰی
ترین اور غیر جانبدار منصب ، سربراہ ِ مملکت کا تاج سر پر سجانے والے آصف
علی زرداری نے تو اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے اپنی اولاد کی نسل میں ہی
مضحکہ خیز تبدیلی کا اعلان کردیا ، حیرت ہے ، اس اعلان ”تبدیلی نام“ کو کس
طرح ٹھنڈے دل سے قبول کرلیا گیا،کیا تاریخ میں ایسی کوئی روایت موجود ہے ،
جس میں ایک فرد ایک ہی وقت میں دو قوموں کا نمائندہ ہو؟ اگر کسی شخص کی
شادی اپنی برادری یا قبیلے سے باہر ہوئی ہے تو اولاد کو والد کے نام اور
قبیلے سے ہی جانا جاتا ہے، مگر پاکستان کی حکمران پارٹی کے چیئرمین بھٹو
بھی ہیں اور زرداری بھی۔اس حکومت کے دیگر عجوبوں کی طرح یہ بھی ایک عجوبہ
ہی ہے۔
اب سیاست نے خدمت سے زیادہ کاروبار کا روپ دھار لیا ہے ، اس لئے سیاستدانوں
کی اولادیںبھی والدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کاروبار میں منافع کے
جدید سے جدید طریقے تلاش کریں گی،گویا اب ہمارے مقدر کے فیصلے بلاولوں،حمزہ
شہبازوں، مونس الٰہیوں،عبدالقادر گیلانیوں اور اسی طرح کے دیگر جانشینوں کے
زرخیز اذہان کیا کریں گے، کیونکہ ان کے علاوہ ملک میں کوئی قیادت کے اہل ہی
نہیں۔ اب فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ نااہل ٹھیکیداروں کو آگے لانا ہے ، یا
اہل خدمت گاروں کو؟ خوشامد پرستوں اور خوشامد پسندوں کو آگے لانا ہے یا
میرٹ پر کام کرنے والوں کو؟ |