جناب ایسا کیوں؟

2022 کا سورج ملک پاکستان میں اقتداراور طاقت کے توازن کو بگڑتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ نا انصافی عروج پر ہے۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ فرعونیت عروج پر ہے۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ غریب کی مدد کرنے کا عزم لے کر آنے والے ہی غریب کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور امیر کو مزید امیر بنانا اس کے حق کی طرح اسے دے رہے ہیں۔ اقتدار پر براجمان پارٹی جو کہ اپنے ساڑھے تین سال مکمل کر چکی تھی ابھی تک اپنے بیان کردہ سیاسی منشور سےکوسوں دور تھی۔ یو ٹرن کی سیاست عروج پر تھی وزراء اور مشیر عام آدمی کی تکالیف اور پریشانیوں کو یکسر نظر انداز کر تے ہوئے حکومتی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے تھے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عام آدمی اپنی مشکلات کا رونا روتا تو کیسے اور کس کے سامنے روتا؟ کسی جگہ مملکت خداداد کے چیف ایگزیکٹو سے گزارش کی گئ کہ حضور ٹماٹر مہنگے ہو گئے ہیں تو ارشاد ہوا کہ میں ٹماٹر اور سبزی کا ریٹ دیکھنے کے لئے وزیر اعظم نہیں بنا۔ عوام نے دبی زبان میں احتجاج کیا حضور آٹا مہنگا ہے تو اقتدار کے نشے میں بد مست کسی وزیر نے کہا روٹی کم کھاؤ۔ چینی، سبزی، دال،گندم غرض ہر چیز عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی تو نوید سنائی گئی کہ ہم نے ہر شہر میں لنگر خانے کھول دئیےہیں اور اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ عوام اپنی صحت کے اخراجات سے پریشان تھی اور حکومت سستے اور سیدھے سادھے صحت کی سہولت فراہم کرنے کے نظام کو ترک کر کے صحت سہولت کارڈ کے اجراء پر خوشی سے اترا رہی تھی۔ باہر کی دنیا میں اپنی کارکردگی کو نمایاں بنانے کے لئے ٹویٹر اور فیس بک پر تشہیر کرنے والی ٹیمیں بنائی گئی جو کہ چین ہی چین اور ترقی کا آسمان دکھا رہی تھی۔ عوام کی خدمت کرنے کے عزم کو بھلا دیا گیا اور مطلق العنان حکومت کی داغ بیل رکھنے کی تیاری ہونے لگی ۔کنٹینر کی سیاست کو دوام بخشتے ہوئے عوام کے مسائل کو نظر انداز کیا گیا اور مخالفین کی کردار کشی کی جاتی رہی۔ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والے وزیر اور مشیر اداروں اور اپوزیشن کی مخالفت میں لگے رہے۔ عوام کے ٹیکس پر ہیلی کاپٹر اڑتے رہے اور عوام کو سادگی اور خودداری کا سبق ملتا رہا۔ غریب کا روزگار چھن رہا تھا اور حکومتی جماعت عام آدمی کے لئے روزگار پر پابندی لگا کر اپنے رشتہ دار وں اور من پسند لوگوں کو اعلٰی عہدوں پر بھرتی کر رہی تھی۔
پھرکیا ہوا کہ کسی بھوکی ماں اور اس کے بچوں کی فریاد عرش تک پہنچی۔ اللہ پاک کوغرور اور فرعونیت ، ظلم اور بربریت پسند نہیں ۔ تبدیلی کی ہوا چلی اور چالیس سال سے مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتیں اس فرعونی حکومت کے خاتمے کے لئے یک جا ہو گئی ۔ اپریل کہ مہینے میں عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی جاتی ہے اور پھر پاکستانی سیاست میں ایسا موڑ آتا ہے کہ پورا پاکستان حیران رہ جاتا ہے۔ حکومتی جماعت نے کہا کہ عدم اعتماد کی اس قرارداد کے پیچھے ایک سپر پاور نے ہمارے خلاف سازش کی ہے اور اپوزیشن کو اس کے لئے امداد ملی ہے۔ اس جھوٹ کو ملکی خفیہ اداروں ، فوج اور قومی سلامتی کی کمیٹی نے خارج از امکان قرار دیا اور ایک چوتھے درجے کے اہلکار کی سفیر کے ساتھ گفتگو کو غیر اہم قرار دی۔ حکومتی جماعت نے اس سازش کے بیانیے کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ سچ لگنے لگا۔ کبھی کہا کہ یہ اسٹیبلشمینٹ کی سازش ہے۔ کبھی کہا گیا کہ عالمی طاقتیں پاکستان کی ترقی دیکھنا نہیں چاہتی۔ کبھی شخصی اور کبھی جماعتی حملے کئے گئے اور جب کسی قسم کا حربہ کامیاب نہ ہوا تو اس قرارداد کو غیر آیئنی قرار دے کر ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ عدلیہ نے جب آئین بالا دستی کے لئے اپنا کردار ادا کیا تو آئین کو نا ماننے والے نے عدالتوں کی لفاظی بے حرمتی کی ۔ مسلح افواج کے کردار کو مشکوک بنانے کی ناپاک جسارت کی گئی ۔ جب عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے اور فرعونیت کے پونے چار سال کی سیا ہ رات کا خاتمہ ہوتا ہے تو جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنےکےلئے ناکام سیاسی جماعت نے قومی اسمبلی سے استعفے دے دئیے اور کہا گیا کہ حکومت ہمارے پاس ہو تو ہی یہ ملک چلے گا ہم نہیں تو اس ملک کو کوئی اور نہیں چلا سکتا اور ہم چلنے بھی نہیں دیں گے۔ وقت سے پہلے انتخابات کا مطالبہ رکھ دیا گیا اور اداروں ، عدلیہ، الیکشن کمیشن، فوج اور اسٹیبلشمینٹ پر اپنے ورکرز کے ذریعے حملے کرائے گئے۔ جمہوریت کا دعویٰ کرنے والے ہی اس کے دشمن ہو گئے اور اس زعم مبتلا ہو گئے کہ ہماری کارکردگی بہت اچھی تھی تو اداروں کو چاہیےکہ ہمیں دوبارہ اس ملک کی باگ دوڑ دے دی جائے۔ عوام کو اپنی تقریروں سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور اب عوام ہی ان کی حکومت واپس لانے کے لئے کوشش کریں ۔ عوام کو حکومت اور اداروں کے خلاف بھڑکایا جا رہا ہے اور اس نہج تک لایا جا رہا ہے کہ جس سے ملک کو نا قابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔

اس موقع پر ایک آدمی سابقہ حکومت سے کچھ سادہ سے غریبانہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ ،
1۔ جب عوام ٹماٹر کی آسمان سے باتیں کرتی قیمت کا گلا کر رہی تھی تو وزیر اعظم نے فرمایا کہ میں ٹماٹر اور سبزیوں کے ریٹ دیکھنے کی لئے نہیں آیا۔ جناب ایسا کیوں؟
2۔ جب عوام نےآٹے ، سبزی ، چینی اور دالوں کی مہنگائی کی فریاد کی تو حکومتی وزیر کم روٹی کھانے اور کفائیت شعاری کا درس دینے لگے۔ جناب ایسا کیوں؟
3۔ جب آپ سے فریاد کی گئی کہ مہنگائی کی وجہ سے بھوکےپیٹ سونا پڑتا ہے تو آپ نے مہنگائی کم کرنے اور ریلیف دینے کی بجائے عوام کو بھکاری سمجھا اور لنگر خانے کھول دیے۔ جناب ایسا کیوں؟
4۔ کفایت شعاری کا درس صرف عوام کے لئے اور آپ ہر روز ہیلی کاپٹر پر عوام کے ٹیکس کا پیسا بے جا خرچ کریں ۔ جناب ایسا کیوں؟
5۔ کتنے نوجوان تعلیم حاصل کر کے اچھی نوکریوں کے خواب دیکھتے ہوئے اوور ایج ہو گئے اور آپ نے ان کو مرغیاں ، انڈے ،بھینس اور کٹوں کے چکر میں لگانا چاہا۔ جناب ایسا کیوں؟
6۔ اب جب کہ ملک آئینی طریقہ سے آپ کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہے تو اپنی کرسی اور اقتدار کے لئے پاکستان کے نوجوان طبقے کو آپ تشدد کی سیاست کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں ۔ جناب ایسا کیوں؟
یوں تو عام آدمی کے مسائل بہت ہیں کہ جن کے لیے اس دست سوال بلند کرتا ہے اور بلند کرتا رہے گا مگر ہماری اشرافیہ اور سیاستدان عام آدمی آدمی کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس کے سوالات کا جواب دیا جائے۔ جناب ایسا کیوں؟


(شاہد معراج)

 

Shahid Meraj
About the Author: Shahid Meraj Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.