عمران خان کا دعویٰ ہے کہ اس کی حکومت کو آمریکا نے ختم
کروایا ہے اور تحریک عدم اعتماد کے پیچھے آمریکا کا ہاتھ تھا اس کا سبب وہ
یہ بتاتے ہیں کہ کیونکہ انہوں روس کا دورہ کیا اور عین اس وقت روس اور
یوکرین میں جنگ بھی شروع ہوگئی تھی اور آمریکا سمیت مغربی ممالک کا پریشیر
تھا کہ پاکستان یوکرین کا ساتھ دے اور روس کے جارحانہ پالیسی کا احتجاج بھی
کرے بقول عمران کے کہ اس سب سے میں نے انکار کردیا اور پھر اس کی وجہ سے
آمریکا میرے خلاف ہو گیا اور پھر اس نے تحریک عدم اعتماد لانے والی جماعتوں
سے مل کہ میری حکومت گرائی۔جب تک تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی تھی تب
تک عمران اپوزیشن کی جماعتوں کو ہی غدار کہہ رہے تھے پر اب رخصت ہونے کہ
بعد یہ سپریم کورٹ اور فوج پے بھی سوال کھڑے کر رہے ہیں کیونکہ عدلیا نے
اسمبلی میں ہوئی آئین شکنی کا نوٹس لیا تھا اور یہ واضح کردیا تھا کہ عمران
کے لگائے ہوئے اسپیکر نے آئین توڑا ہے اور عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹوں
کی گنتی ہر صورت میں ہوگی عدالت نے رات کو ہی اپنے فیصلے میں دئے حکم پے
عمل کروانے کے لئے اقدامات شروع کر دئے تھے جن پے عمران کو اعتراض ہے فوج
پے ان کا یہ اعتراض ہے کہ انہوں نے اپوزیشن پے دبا ؤ ڈال کہ تحریک عدم
اعتماد واپس کیوں نہیں کروائی۔عمران اس کے ساتھی بالواسطہ یا بلا واسطہ فوج
اور عدلیا کو تنقید کا نشانا بنا رہے ہیں عمران خان اور اس کی جماعت کا یہ
کہنا ہے کہ فوج اور عدلیا نے اپوزیشن کی سازش کو کامیاب کروانے میں مدد کی
ہے اور اس سارے عمل میں آمریکا بھی شامل تھا ۔عمران نے اس سازش کا ثبوت ایک
خط کے ذریعے دیا ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے یہ خط ملا ہے جس میں دھمکی
دی گئی ہے اور خط کو جلسے میں لہرا لہرا کہ عمران دعوی کر رہے تھے کہ یہ
دیکھیں میرے پاس ثبوت ہے کہ میرے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے اور اس میں
پاکستان کی اپوزیشن پارٹیز بھی اس سازش میں شامل ہیں یاد رہے کہ جس وقت
عمران یہ خط ہوا میں لہرا رہے تھے اور لوگوں کو ثبوت دینے کی کوشش کرہے تھے
اس وقت وہ وزیر اعظم تھے اور حالیہ تاریخ میں میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ
ایک وزیر اعظم ایسی غیر سنجیدہ انداز میں ایسا عمل کرے بحرحال! انہوں نے
ایسا کیا اور دنیا نے دیکھا کہ وزیر اعظم اپنے ہی ملک کی خارجہ پالیسی کو
خراب کرتے اور خارجہ پالیسی کی اخلاقیات اور قانون کو روند کہ محض اپنے
جلسے کے لوگوں کو جوش دلا نے کے لئے ایک معمول کے کام کو متنازع بنا رہا
ہے۔ اب آتے ہیں اس کاغذ کے ٹکڑے پے جو کہ پاکستان میں لوگوں کو ایسے دکھایا
گیا کہ جیسے انہوں نے سازش ہونے کا ٹھوس ثبوت پکڑا ہو۔
دیکھیں جی ایک بات بڑی اہم ہے جس کو سمجھنا چاہیے وہ یہ کہ عالمی جنگوں کے
بعد جو ادارے بنائے گئے ہیں جیسے ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، یو این (اقوام
متحدہ) یہ وہ ادارے ہیں جن کے رکن ممالک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں مطلب
ایک نیٹورک ہے جس میں دنیا کے 193ممالک شامل ہیں ان کا مقصد دنیا میں امن
قائم کرنا ہے اور جس رکن ملک کے معاشی مسائل ہیں اسے قرض دینا اور بہتر
معاشی پالیسی بنانے میں مدد دینا ہے یہ تمام عالمی ادارے ہر رکن ملک کے
سیاسی ، سماجی اور معاشی بحران پے نظر رکھتے ہیں اور اپنا ایک موقوف بناتے
ہیں اور رائے دیتے ہیں کہ قانون اور آئین پے عمل کیا جائے تاکہ ملک میں
رہنے والے تمام انسان بحرانی کیفیت سے بچ سکیں اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ
کسی ملک میں سازش ہو رہی ہے بلکہ آج کی دنیا یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی ملک
میں بحران ہو اور باقی دنیا تماشا دیکھے یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ دنیا اب
گلوبل ولیج بن چکی ہے جہاں ہر ملک ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے (یہاں میرا
موضوع عالمی تنظیموں کے کام پے بات کرنا نہیں اگر کسی کو تفصیل سے ان
تنظیموں کے بارے میں معلوم کرنا ہے تو گوگل پے جا کہ دیکھا جا سکتا ہے)
اس وقت سوشل میڈیا میں امپورٹڈ حکومت نامنظور اور غلامی نامنظور کے ٹرینڈ
چلائے جارہے ہیں عمران خان لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ میں ایک آزاد خارجہ
پالیسی بنانا چا ہتا تھا اور اپنی قوم کو آمریکی غلامی سے نکالنے کی کوشش
کررہا تھا اس لئے مجھے نکالا گیا عمران خان کی اس جذباتی باتوں پے بہت سارے
لوگ جذباتی ہوکہ سڑکوں میں نعرے لگا رہے ہیں پر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ یہ اس
نعرے میں حقیقت کتنی ہے اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عمران خان کو غلامی اور
آزادی کا خیال تحریک عدم اعتماد کے دوران ہی کیوں آیا اور انہوں نے اپنی
حکومت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کتنا فائدہ پہنچایا اور سب سے اہم
بات کہ عمران خان کا جو دعوی ہے کہ مجھے آمریکا نے نکالا ہے تو اس میں
دیکھنا ہوگا کہ عمران خان کی حکومت ایسا کیا کرنے جارہی تھی کہ آمریکا کو
عمران سے خطرہ محسوس ہونے لگا ۔
پاکستان سمیت بریصغیر پاک و ہند میں مغربی ممالک کے لئے ایک نفرت تھی جو کہ
کسی حد تک آج بھی قائم ہے ہندوستان میں آج بھی بہت سارے لوگ ہندوستان کے
بٹوارے کو مغربی سازش کا نام دیتے ہیں۔برطانیا سلطنت جب یہاں ہندوستان میں
حکومت کرہی تھی یہاں کہ مقامی لوگ ان سے تنگ آگئے تھے اور سمجھتے تھے کہ
انہوں نے ہمارے حق ہم سے چھینے ہیں اور ہمارے اوپر جبر کی بنیاد پر قابض
ہیں اس وقت متحدہ ہندوستان کے بڑے بڑے سیاسی لیڈروں نے مغربی سامراج کے
خلاف ایک ماحول بنا لیا تھا اور ملک کہ ہر عام انسان تک یہ بات پہنچائی تھی
کہ یہ برطانوی لوگ ہمارے دشمن ہیں اور ان کو یہاں سے نکالنا ہے کہنے کا
مقصد یہ ہے کہ اس خطے میں مغربی ممالک کے خلاف جذبات آج کہ نہیں بلکہ
بٹوارے سے پہلے کہ ہیں اس وقت مسلمانوں کے چند علما تو مغربی اسکول میں
تعلیم حاصل کرنا اور مغربی اشیا استعمال کرنے سے بھی منع کرتے تھے ۔
پاکستان بننے کے بعد بھی اکثریت لوگوں کی مغربی اور سائنسی تعلیم حاصل کرنے
کو برا سمجھتی تھی جبکہ دنیا اس وقت تبدیل ہو رہی تھی پر پاکستان میں
نوجوان نسل سیاسی جلسوں میں جذباتی نعرے لگانے میں دلچسپی لے رہے تھے۔
پاکستان کے معاشرے میں سیاسی افراتفری نے بہت اثر چھوڑا ہے پاکستان میں
1947 سے لیکہ آج تک لوگوں کی اکثریت کو سیاسی معملات اور اپنے حقوق کے بارے
میں جاننے میں دلچسپی ہی نہیں رہی اور وہ محض جلسوں میں جذباتی نعرے لگاتے
رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں شعور تعلیم اور سمجھ کا بہت بڑا بحران پیدا
ہوگیا ہے اور ملک کی اکثریت ان لوگوں پے مشتمل ہے جو کہ سیاستدانوں کے دل
لبھانے والے نعروں پے یقین کر کہ اسے سچ مان لیتی ہے پاکستانی حکومتوں نے
ہمیشہ پاکستانی قوم کو “اسلام خطرے میں ہے” والا مشہور نعرہ سنا کہ چپ کرا
تی آئی ہے کیونکہ حکومتی سطح پے یہ بات مان لی گئی ہے کہ قوم کے سامنے اگر
مذہب کو لائیں گے تو قوم کی توجہ اصل وجہ کی طرف نہیں جائے گی اور لوگ مذہب
کو خیالی خطرے میں سمجھ کہ اس کا دفاع کرنے کی کوشش کریں گے ۔ پاکستان میں
یہی ہوتا آیا ہے اور آج بھی یہی ہورہا ہمیں 1947 سے پہلے بتایا گیا تھا کہ
اسلام خطرے میں ہے اس کہ بعد تاثر پیدا کیا گیا کہ فلاں مغربی ملک ہمارا
دشمن ہے اور ہمارے خلاف سازش میں مصروف ہے پاکستان کے ہر عام انسان کو یہی
بات ذہن میں ڈالی گئی ہے کہ عالمی طاقتیں تہماری دشمن ہیں اور تمہارے خلاف
سازش میں مصروف ہے اور یہی پاکستانیوں کا پچھلے 75 سال سے یہی ذہن بنایا
گیا ہے ۔
ہم یہ بھول جاتے ہیں یا ہمیں بتایا نہیں جاتا کہ جب پاکستان بنا تھا تو اس
کو چلانے کے لئے پیسے اور وسائل چاہیے تھے اور ہتھیار بھی چاہیے تھے جیسے
پاکستان کا دفاع کیا جاسکے لیاقت علی خان نے پہلے روس کی طرف قدم بڑھانے کا
سوچا پر پھر آمریکا سے جا ملے اس سے پہلے پاکستان یہ سوچ رہا تھا کہ وہ
آمریکا اور روس دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر رکھے گا پر ایسا نہیں
ہوپایا اور 1950 میں آمریکا کی طرف سے پاکستان کے وزیز اعظم لیاقت علی خان
کو دعوت نامہ موصول ہوا کہ وہ آمریکا کا دورہ کریں لیاقت علی خان نے جب
دیکھا کہ دونوں ممالک کے ساتھ بیک وقت تعلقات نہیں رکھے جاسکتے پھر انہوں
نے دعوت نامہ قبول کرتے ہوئے 3 مئی 1950 کو آمریکا کے لئے روانہ ہوگئے اور
یوں ایک نئے دور کی شروعات ہوئی اور آمریکا پاکستان کے تعلقات کا طویل سفر
اس دورے سے شروع ہوتا ہے لیاقت علی خان یہ دورہ 25 دن کا تھا اس کے بعد
آمریکا نے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کی اور پاکستان کے دفاع کو بھی مضبوط
کرنے کے لئے آمریکا نے پاکستان کی مدد کی حال ہی میں ایک رپورٹ کے مطابق
آمریکا پاکستان کو 1948 سے لیکہ 2016تک 78 ارب ڈالر کی دفاعی ایڈ دے چکا ہے
اور 2020 میں عمران خان کی حکومت میں آمریکا نے ایک ارب ڈالر انسانی بنیاد
پے دیا کیوں کہ پاکستان 2019 اور 2020 میں مالی اعتبار سے مشکل دور سے گذر
رہا تھا اس کے علاوہ یو ایس ایڈ کے ذریعے اربوں ڈالر پاکستان کے لوگوں کے
لئے دئے گئے تھے پاکستان کے مشہور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں بھی
آمریکا کی طرف سے پیسے دئے جاتے رہے ہیں 2010 میں اس پروگرام کے لئے 75
میلین ڈالر ز کی ایڈ دی گئی آمریکا کی طرف سے اس کے علاوہ 2010 میں جو
سیلاب آیا تھا اس میں بھی آمریکا نے پاکستان کو اربوں ڈالر کی مدد کی تھی۔
آمریکا نے 2002 سے 2011 تک پاکستان کو معشیت کے لئے 6 ارب ڈالر کی ایڈ دی
تھی اس میں دفاع کے لئے 11 ارب ڈالر کی ایڈ بھی شامل تھی۔
پاکستان آمریکا کے مضبوط تعلقات کی بنیاد پاکستان کی جاغرافیائی اہمیت ہے
آمریکا کو ایسے زمین چاہیے تھی جہاں سے وہ چین، روس اور افغانستان پے اپنا
کام جاری سکے اس لئے اس نے پاکستانی معشیت اور دفاع کو مضبوط کرنے میں
پاکستان کی مدد کی جنرل ایوب کے دور میں پاکستان آمریکا تعلقات بہت زیادہ
مضبوط ہوئے اور دونوں ملکوں نے ایک دوسرے سے تعاون کیا اور آمریکا نے
پاکستان کو ہر لحاظ سے مدد کی اور ایوب دور میں پاکستان بڑی تیزی سے ترقی
کرنے لگا تھا اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آمریکا پاکستان کی مدد کر رہا تھا
اور پاکستان میں ڈالرز آرہے تھے۔دنیا میں ہر ملک کے اسٹریٹجک مفادات ہوتے
ہیں کوئی بھی ملک اپنے مفاد سے ہٹ کہ اپنی خارجہ پالیسی نہیں بناتا آمریکا
کو پاکستان کی ضرورت تھی اور پاکستان کو مالی مدد جسے وہ اپنی معشیت اور
دفاع مضبوط کر سکے اور ایسا ہی ہوا پاکستان نے آمریکی ایڈ سے اپنا دفاع
مضبوط کیا ۔ پاکستان جب بنا تھا تو اس کو بہت سارے وسائل کی ضرورت تھی جسے
وہ اپنا دفاع مضبوط کرسکے آمریکا سے تعلقات بڑھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ
پاکستان کا دفاع مضبوط ہوا اگر پاکستان آمریکہ اسٹریٹجک تعلقات بنہ بن پاتے
تو پاکستان کا دفاع اتنا مضبوط نہ ہوتا جتنا آج ہے ۔ جو لوگ پاکستان اور
آمریکا کے تعلقات کو ایک سازشی نظریئے کا نام دیتے ہیں انہیں شاید تاریخ کا
نہیں پتا یہ یادرکھنا چاہیے کہ 1947 کے بعد اگر پاکستان آمریکا جیسی بڑی
طاقت سے تعلقات جوڑ کہ اپنا دفاع مضبوط نہیں کرتا تو شاید آج نقشہ کچھ اور
ہوتا کیونکہ پاکستان جس حالت میں بنا تھا اور جو حالات 1947 کے بعد بن گئے
تھے اس میں پاکستان کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا کیونکہ اسے
وسائل کی ضرورت تھی اور دفاع بہت ہی کمزور تھا پر 1950 کے بعد آمریکا نے
پاکستان میں دلچسپی لی اور اسے ایڈ دینا شروع کی جسے پاکستان کو بہت فائدہ
پہنچا اور اس نے اپنا دفاع بھی مضبوط کیا اور معشیت کی گاڑی بھی چل پڑی اگر
ہم اس کو اور زیادہ تنقید ی نگاہ سے دیکھیں گے اور بنیاد میں جانے کی کوشش
کریں گے کہ کیوں پاکستان اتنا کمزور تھا اور اسے آمریکی کی ضرورت کیوں تھی؟
تو پھر اس کا جواب شاید کڑوا ہو وہ ایسے کہ 1947 میں جو فیصلے کئے گئے تھے
اس میں بھارت کے پاس تو وسائل تھے پر نئی ریاست پاکستان ایک کمزور ریاست
تھی جو کہ کسی بڑی طاقت کی مدد کے سوا اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتی تھی
۔
پاکستان اور آمریکا کے تعلقات میں اتار چڑھا ؤ آتے رہے ہیں وقتی طور پر یہ
ایک دوسرے سے ناراض بھی رہے ہیں اور پھر صحیح بھی ہوئے ہیں پر یہ سفر جاری
رہا ہے جرنل ایوب سے لیکہ جرنل مشرف تک پاکستان آمریکا کا اتحادی ملک رہا
ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ آمریکا کے اسٹریٹجک معمالات اور مفادات کی وجہ
سے پاکستان میں بہت زیادہ انویسٹمینٹ رہی ہے اور اس سے پاکستان کو بھی
فائدہ پہنچا ہے آمریکا پاکستان کا دشمن نہیں ہاں پر ہر ملک کے اپنے مفادات
ہوتے ہیں پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آمریکا پاکستان کمزور کرنا چاہتا ہو آج
بھی پاکستان کا سب سے بڑا ایکسپورٹ پارٹنر آمریکا ہے 2020 میں بھی جب عمران
کی حکومت تھی تو آمریکا پاکستان کو سب سے زیادہ ڈونیشن دینے والا ملک تھا
جس نے پاکستان کو 100 کروڑ ڈالر دئے تھے۔
سیاستدان آمریکا مخالف بیانئیے تو بناتے ہیں کیونکہ یہ کہنا بہت آسان ہوتا
ہے کہ فلاں ملک ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے پر اپنی غلطیاں اور غلط پالیسیاں
سیاستدان عوام کو نہیں بتاتے یہ بڑی عجیب بات ہے ہم قرض بھی ان سے لیں اور
وہ ہمیں قرض بھی دیں اور ساتھ میں رعایت بھی دیں اور مہلت بھی دیں پھر بھی
ہم یہ کہیں کہ وہ ہمارے خلاف سازش کررہے ہیں ۔ عمران دور میں آئی ایم ایف
سے پاکستان کا 6 ارب ڈالر کے قرضوں کا معاہدہ ہوا تھا جس میں سے 3 ارب ڈالر
پاکستان کو مل چکے ہیں جس میں ایک ارب ڈالر فیبروری کو ملا تھا اور اس سے
پہلے مارچ 2021 میں 50 کروڑ ڈالر ملے تھے عمران حکومت اپنی آخری وقت میں
آئی ایم ایف کے معاہدے سے ہٹ گئی تھی کیونکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو منع
کیا تھا کہ پیٹرول پے سبسٹی نہیں دیں پر عمران حکومت نے سیاسی فیصلہ کرتے
ہوئے پٹرول پے 50 روپے کی سبسٹی دے رہی ہے جس کا پاکستانی معشیت کو چار سو
ارب روپے کا نقصان ہوا ہے یاد رہے کہ عمران خان کی حکومت نے تاریخ میں سب
سے قرض لیا ہے اسیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 2019 میں پاکستان کا مجموعی
قرض 105000 ملین ڈالزر تھا جب کہ آج یہ 132000 ملین تک جا پہنچا ہے۔
پاکستان میں سیاستدان بیرونی ممالک کے خلاف سازش کا لزام تو لگاتے ہیں پر
حققیت یہ ہے کہ پاکستان میں پاکستانی جو بنیادی چیزیں استعمال کرتی ہیں وہ
تقریبن باہر سے بن کہ آتی ہیں سیاستدانوں کا قصور ہے یا کچھ اور وجہ پر قوم
کے اندر ہمیں دو متضاد رویئے دیکھنے کو ملتے ہیں وہ چیزیں بھی باہر سے بنی
ہوئی استعمال کرتے ہیں اور گالیاں بھی انہی ممالک کو دیتے ہیں جس سوشل
میڈیا پے بیٹھ کہ آمریکا سمیت مغربی ممالک کو بے بنیاد سبب کے تحت گالیاں
دیتے ہیں اور ان کے خلاف ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں ان کے ہیڈکوارٹر آمریکا میں
ہیں اور تمام سوشل میڈیا سائیٹس آمریکا سے ہی چلائی جاتی ہیں قوم کا حال یہ
ہے کہ اگر ایک طرف میڈ ان آمریکا چیز پڑی ہو اور دوسری طرف مییڈ ان پاکستان
تو آپ بتائیں کون سی چیز پے زیادہ اعبتار کرنے کو دل کریگا؟ پاکستان میں
بنانا کچھ نہیں ہر چیز باہر سے منگوانی ہو پر نعرے ضرور لگانے ہیں ۔
پاکستان میں اسی آمریکہ کی بہت ساری این جی اوز کام کرتی ہیں جس کے خلاف
نعرے لگائے جاتے ہیں جس میں لاکھوں غریبوں کو گھر اور تعلیم کی سہولت دی
جاتی ہے پاکستان میں یو ایس ایڈ اور یونیسف کے نام سے این جی اوز کام کر
رہی ہیں جن کا مقصد بچوں اور بڑوں کی بنیادی ضروریات زندگی مہیا کرنا ہے اس
کے علاوہ آمریکا میں بہت ساری تنظمیں ہیں جو کہ وہاں سے پیسے سامان اور
ادویات جمع کرکہ پاکستان میں غریب لوگوں کے لئے بھیجتیں ہیں اس میں ایک
اسلامک ریلیف کے نام سے تنظیم ہے جو کہ غریب پاکستانی لوگوں کی مدد کے لئے
کام کرتا ہے جس میں زیادہ ترا دویات ہوتی ہیں حال ہی میں ایک رپورٹ کے
مطابق انہوں نے 20 لاکھ آمریکی ڈالر ز کی ادویات پاکستان بھیج چکے ہیں۔ حال
ہی میں کووڈ کی وبا کے دوران پاکستان کو آمریکا کی طرف سے 62 ملین ویکسین
ملی تھئیں اس کے علاوہ بھی ماسک، ٹیسٹ کٹ، حفاظتی عینکیں، اور بہت ساری
چیزیں جو کہ صحت کے حوالے تھی وہ بھیجی گئیں تہیں اس کے علاوہ آمریکا نے یو
ایس ایڈ کے ذریعے چار سالہ پروگرام شروع کیا ہے جس میں غریب لوگوں کو صاف
پانی مہیا کیا جائے گا اور انہیں تلقین کی جائے گی کہ کسیے صفائی کے ساتھ
زندگی گزاریں اور اس میں غریب لوگوں میں آگاہی کے لئے کپمین بھی کی جائے گی
۔
عمران خان جو ابھی آمریکا مخالف نعرے لگوا ر ر ہا ہے جب اسکی حکومت آئی تو
اس کے 7 مشیر دوہری شہریت رکھتے تھے اس میں سے بہت زیادہ آمریکن نیشنلز تھے
اس کے علاہ ایک وفاقی وزیر جب الیکشن لڑنے جارہا تھا تو اس وقت وہ بھی
آمریکی نیشنل تھا پاکستان کی کسی بھی جماعت میں اتنے دوہری شہریت والے مشیر
نہیں رہے ہیں جتنے عمران خان کے رہے ہیں اس کے علاہ تحریک انصاف وہ پارٹی
ہے جس کے فنڈز پاکستان سے زیادہ باہر کے ملکوں سے آتے ہیں اس میں سے
آمریکا، برطانیا سے سب سے زیادہ فنڈنگ آتی ہے ان میں ایک بڑا نام عارف نقوی
کا ہے جس نے کروڑوں روپے عمران کی پارٹی کے لئے آمریکا سے بھیجے اور اب کسی
کیس مالی اسکینڈل کی وجہ سے جیل میں ہے اور اس کے خلاف مقدمہ بھی چل رہا ہے
عین ممکن ہے کہ دوران کیس عمران کا بھی نام سامنے آئے۔
امپورٹڈ حکومت کا نعرے لگانے والوں کو یہ سوچنا چاہیے عمران خان جو بیرونی
سازش اور بیرونی مداخلت کی بات کر رہا ہے اس کے خود کہ باہر کے ملکوں میں
کتنے تعلقات ہیں اس کا آج بھی گولڈسمتھ خاندان سے تعلق ہے 2016 میں میئر کے
الیکشن ہوئے تھے لندن میں اس میں عمران نے پاکستانی صادق خان کی بجائے اپنے
سالے زیک گولڈسمتھ کی حمایت کی تھی پی ٹی آئی کی سب زیادہ فنڈنگ مغربی
ممالک سے ہوتی ہے یہ پاکستان کی واحد ایسی سیاسی پارٹی ہے جسے اتنی زیادہ
تعداد میں لوگ باہر سے فنڈنگ کرتے ہیں۔2018 میں عمران خان وزیر اعظم بننے
کے بعد آمریکا ڈولنڈ ٹرمپ سے ملنے گئے یہ ملاقات بہت خوشگوار تھی اس وقت
عمران خان کو آمریکا سے کوئی شکایت نہیں تھی وہ پاکستان آمریکا کے مستقبل
کے تعلقات کولیکہ پر امید تھے عمران کی ٹرمپ کے ساتھ ملاقات واقعی خوش گوار
تھی عمران جب واپس پاکستان آئے تو بہت خوش تھے اس نے میڈیا کو بتایا کہ
لگتا ہے میں نے دوسرا ورلڈ کپ جیتا ہے آمریکا کے دورے کو ورلڈ کپ سے تشبی
دینا مطلب اسے ٹرمپ سے بہت کچھ ملا تھا کوینکہ اس وقت آمریکا میں الیکشن
بھی ہونے والے تھے اور عمران نے ٹرمپ کی کھل کہ حمایت کی تھی عمران کو ٹرمپ
سے شاید یہ ہی تاثر ملا تھا کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے اور شاید پاکستان کے
لئے بڑے پیکج کا بھی اشارہ دیا تھا اس لئے عمران اتنے خوش تھے کیونکہ
بینالقوامی اسٹیبلشمینٹ آمریکا ہی ہے عمران ٹرمپ سے بہت زیادہ پر امید
ہوگئے تھے وہ ٹرمپ کی جیت کو اپنی جیت سمجھ رہے تھے اس لئے اس نے ٹرمپ کی
الیکشن کمپین میں بھرپور حصہ لیا پر بعد میں الٹا ہوا ایسا ہوا جس کی توقع
نہیں تھی وہ یہ کہ ٹرمپ الیکشن ہار گئے اور عمران کے خواب بھی ٹوٹ گئے جو
کہ اس نے ٹرمپ کی جیت سے وابستہ کئے ہوئے تھے ٹرمپ کو بھی اپنی شکست کا
یقین نہیں آرہا تھا پر یہ حقیقت تھی کہ وہ ہار چکے تھے اور ڈیموکریٹک پارٹی
کے جوزف بائیڈن آمریکا کے صدر بن گئے تھے ۔ٹرمپ کی سیاست بہت سے آمریکی
سیاستدانوں سے مختلف تھی وہ عمران کی طرح جوش خطاب میں کچھ بھی کہہ جاتے
تھے اور عمران کی طرح بولنے پے بھی ٹرمپ کو کنٹرول نہیں تھا ٹرمپ بھی جو
سمجھ میں آتا تھا بول دیتے تھے آمریکہ میں الیکشن ہوئے تو عمران ٹرمپ کے حق
میں اتنا آگے تک چلے گئے انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ آمریکی الیکشن آمریکا کا
اندرونی معملا ہے اور عمران نے اس بات کا بھی اندازہ نہیں لگیا کہ اگر ٹرمپ
الیکشن ہار جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟ اور اگر بایڈن جیت جاتا ہے تو پھر
پاکستان کو کیا کرنا چاہیے ان سارے معملات پے عمران کی توجہ نہیں گئی اور
بائیڈن الیکشن جیت گیا جبکہ عمران کی ساری وابستگی اور جذباتی انویسٹمینٹ
ٹرمپ کے ساتھ رہی تھی۔ ایک بات قابل غور ہے وہ یہ کہ اگر بائیڈن عمران سے
بات کر لیتے اور مبارکباد وصول کرلیتے تو عمران کبھی اتنا بیچین نہ ہوتے
اور نہ اتنا مایوسی کا شکار ہو کہ آمریکہ کہ خلاف قومی اسمبلی میں جذباتی
تقریر کرتے اور نہ انہیں اس شرمندگی کا احساس ہوتا جن کا خود عمران نے ذکر
کیا تھا عمران خان سیاستدان نہیں ہیں انہیں سیاست نہیں آتی اور نہ سفارکاری
کو جانتے ہیں عمران نے پہلے کوشش کی کہ بائیڈن سے بات ہوجائے اور میں انہیں
مبارکباد دوں پر بائیڈن نے بات کرنے سے انکار کر دیا اور عمران سے بات کرنے
کو ٹالتے رہے عمران نے اندرونی طور پر بہت کوشش کی کہ کسی طرح بات چیت بحال
ہو جائے اس نے آمریکا میں موجود اپنے دوستوں سے بھی کہا کہ میری بات کرواؤ
پر بات نہیں بنی پھر انہوں نے معید یوسف کو یہ کام سونپا کہ معملات کو
دیکھے ۔معید یوسف کو پاکستان کا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بنا دیا گیا اس کا
مقصد یہ تھا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ اور عمران کے بیچ رابطوں کے لئے کام
کریں معید کے ایڈوائزر کے طور پر لگنے کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ معید کے
آمریکہ کے سیاستدانوں کے یہاں اچھے تعلقات ہیں اور امید کی جارہی تھی کہ وہ
عمران اور بائیڈن کا رابطہ کروا سکیں گے پر ایسا نہیں ہوپایا پر عمران
حکومت میں یہ بیچینی بدستور موجود رہی کہ کیسے بھی کرکہ بائیڈن سے رابطہ
پیدا کیا جائے اب اس سلسلے میں عمران حکومت بائیڈن انتظامیہ کو دمھکیاں بھی
دینا شروع کردیں تھہیں کہ اگر پاکستانی وزیر اعظم سے رابطہ نہ کیا گیا تو
ہمارے پاس دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔ سفارتی تعلقات بڑھانے یا بہتر بنانے
کے لئے دنیا کا ہر ملک کوشش کرتا ہے پر جو طرز عمل عمران خان نے اپنایا تھا
یہ افراتفری اور فرسٹریشن ظاہر کرتا تھا کہ آپ کتنے بیچین تھے اور آپ کی
ایگو کو کتنی ٹھیس پہنچ رہی تھی اس سلسلے میں عالمی میڈیا بھی یہی رپورٹ کر
رہا تھا کہ عمران بائیڈن سے رابطے کے حوالے بہت زیادہ بیچین ہیں اور بائیڈن
کا رابطہ نہ کرنا عمران اور اس کی سرکار کے لئے مزید بیچینی اور مایوسی کا
سبب بن رہی ہے۔اب سوال یہ تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کیوں عمران کو لفٹ نہیں
کرا رہی تھی ؟ اس کا ایک سبب تو یہی تھا کہ الیکشن کے دوران عمران نے ٹرمپ
کی ایسے حمایت کی جیسے ٹرمپ پی ٹی آئی کا ٹکٹ ہولڈر ہو دوسری وجہ یہ کہ
بائیڈن اوباما کے دور میں 2009 سے 2017 تک آمریکہ کے نائب صدر رہے تھے اور
کافی تجربےکار سیاستدان ہیں اب انہیں یہ بھی پتا ہے کہ عمران کس طرح آمریکا
کے خلاف باتیں کر تا تھا اور دھرنے کے دنوں میں جو کچھ عمران نے آمریکا کے
خلاف تقاریر کئیں وہ سب رکارڈ کا حصہ ہیں اور جب 2011 کے بعد عمران کی
سیاست اپنے عروج کو پہنچ رہی تھی اور عمران بڑے بڑے جلسوں میں آمریکہ کے
خلاف نعرے لگواتے تھے تو اس وقت بائیڈن آمریکا کے نائب صدر تھے اور عمران
نے یہ تک کہ دیا تھا کہ “میں خودکشی کر لوں گا ۔اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس
گئے” اب ظاہر ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے اداروں میں آمریکا کو بڑی ووٹنگ حاصل
ہے اور وہ بہت سارے معملات کو ویٹو کروا سکتا ہے پر ہم نے دیکھا کہ کیسے
عمران اپنی کہی ہوئی بات سے ہٹ گئے اور یو ٹرن لے کہ آئی ایم ایف کی طرف
چلے گئے۔ جب بائیڈن صدر بنے تو عمران کو یہ خوش فہمی تھی کہ آمریکا سے تعلق
ویسے ہی رہیں گے جیسے ٹرمپ کے ساتھ تھے اور میری صحر انگیز شخصیت بائیڈن کے
ذہن پے بھی بہت اثر چھوڑے گی پر ایسا ہوا نہیں بائیڈن نے یہ ضروری نہیں
سمجھا کہ عمران سے رابطہ کریں اب اس کی کیا وجہ ہے یہ تو بائیڈن انتظامیہ
نے کھل کہ نہیں بتایا پر زیادہ امکان اس کے ہیں کہ بائیڈن عمران کو غیر
سنجیدہ سیاسی شخصیت سمجھتے تھے اور عمران کی غیر سنجیدہ گفتگو اور آمریکا
عمران کی عالمی سیاست کے متعلق لاعلمی سے بھی واقف تھا۔ زیادہ تر امکان یہی
ہیں کہ بائیڈن اور عمران کی یہ دوری عمران کی غیر سنجیدہ سیاست ہے ۔ جب
عمران اور بائیڈن میں بہت کوششوں کے باوجود رابطہ نہ ہوسکا تو عمران نے جس
طرح بیانات دئیے آمریکا کے خلاف اور جو جذباتی ہوکہ مذہب کو استعمال کر کہ
انہوں نے آمریکا کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش کی اسے بائیڈن کی سوچ جو
عمران کے متعلق تھی وہ مزید پختہ ہوگئی کہ عمران غیر سنجیدہ انسان ہیں اب
یہاں سوچنے والی بات ہے کہ دنیا میں ملکوں کے درمیان سفارتی دوریاں ہو جاتی
ہیں ماضی میں بھی آمریکا پاکستان میں کئی دفعہ دوریاں پیدا ہوئی ہیں پر وہ
وقت آنے پے کم بھی ہوئی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ملک کا وزیر اعظم
سفارتی پروٹوکول کو روند کہ کسی ملک کے خلاف قومی اسمبلی میں جذباتی تقریر
کرے اور نفرت انگیز ماحول بنانے کی کوشش کرے اسے سفارتی تعلق صحیح نہیں
ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں اور یہی عمران خان نے کیا۔ اس کے علاوہ عمران
خان نے بطور وزیر اعظم پاکستان کی قومی اسبلیع میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا
کہ اسامہ بن لادین شہید تھا اب یہ بیان پاکستان کی پالیسی کے خلاف تھا
خصوصن وہ پالیسی جو پاکستان اور آمریکہ نے مل کہ بنائی تھی جو کہ دہشتگردوں
کے خلاف تھی اور اسی پالیسی کے تحت آمریکا نے پاکستان کو اربوں ڈالرز دیے
تھے۔
بنیادی طور پر یہ مسئلا اتنا اہم نہیں تھا جتنا عمران نے اسے اپنی ایگو کا
مسئلا بنایا ہوا تھا وقت آنے پے ضرور بائیڈن عمران سے رابطہ کرتا اور اس کے
لئے ضروری تھا پاکستان سفارتی طور پر اس معملے کو طے کرتا تو زیادہ بہتر
ہوتا پر عمران کی ایگو کو اس قدر ٹھیس پہنچی کہ وہ اس کے متعلق سامنے آکے
کھل کہ بیان بیازی کر رہے تھے جو کہ کسی بھی وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتا اس
وقت بائیڈن کا رابطہ نہ کرنا عمران کے لئے ایک چیلنج بن چکا تھا اور ان کی
شخصیت میں موجود ایگو کو بہت زیادہ ٹھیس پہنچ رہی تھی کیونکہ جو مزاج عمران
کا ہے اس میں ہر اس شخص سےعمران کی نہیں بن پاتی جو کہ اپنی مرضی سے چلے یا
اپنی رائے دے اسی وجہ سے ہم نے دیکھا ہے اس نے اپنی حکومت میں کمزور لوگوں
کو بڑے بڑے عہدوں پے بٹھا یا تھا کیونکہ وہ ایسے لوگ تھے جو کہ اپنی رائے
نہیں دے سکتے تھے ۔ عمران محض اپنے مشیر اور وزیروں سے بیانات دلوا رہے تھے
جس میں سوا فرسٹریشن کے اور کچھ نہیں تھا اور یہ بات بھی ظاہر تھی کہ عمران
کا جو اس وقت کا رویہ تھاآمریکا کے حوالے سے جس میں جنونیت ، جذباتیت اور
غصہ دیکھا جا سکتا تھا وہ محض اس لئے تھا کیونکہ بائیڈن کی طرف سے عمران کی
ایگو کو ٹھیس پہنچی تھی اگر بائیڈن بھی ٹرمپ کی طرح ایک دو دفعہ عمران سے
بات کر لیتا تو عمران کو کبھی یہ شرمندگی یاد نہیں آتی جن کا ذکر وہ تقریر
میں کر چکے تھے عمران کی شخصیت میں بہت زیادہ خود پرستی پائی جاتی ہے
بائیڈن کا عمران کو نظر انداز کرنا عمران کے لئے بہت بڑی بات تھی عمران کی
نفسیات ایسی ہے کہ وہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو اس کو صحر انگیز شخصیت
ماننے کو تیار نہ ہو ۔
اب جو ایک سازش کا بیانیہ عمران نے بنیایا ہے وہ اس کی شخصیت تو سامنے لا
ہی رہا ہے پر پاکستان کے لئے بھی رسوائی کا سبب بن رہا ہے سفارتکاری کے
معملات ایسے نہیں چلائے جاتے جیسے عمران چلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایک
روٹین کے مراسلے کو سازش کا نام دے کہ ملک کی خارجہ پالسی کو خطرے میں ڈال
دیا گیا ہے ظاہر ہے آمریکا اس وقت دنیا میں سب سی بڑی طاقت ہے اور پاکستان
کو آمریکہ نے ہمیشہ مشکل وقت میں ساتھ دیا ہے دونوں ممالک کے ایک دوسرے سے
اسٹریٹجک مفادات ہیں بحرحال! اب بات کرتے ہیں اس مراسلے کی جس کا ذکر اب ہم
پاکستان کے ہر نیوز بلیٹن میں سنتے ہیں اور عمران اپنی ہر تقریر میں اس کا
ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آمریکا نے مجھے یہ مراسلہ بیجھا ہے جس مجھے
دمھکی دی گئ ہے۔
مراسلے پے بات کرنے سے پہلے میں چاہوں گا کہ تھوڑی بات اس پے بھی ہو جائے
کہ عمران جو اب آمریکا مخالف بینایہ بنا چکے ہیں تو انہوں نے ان 4 سالوں
میں ایسا کیا کہ آمریکا ان کے خلاف ہوگیا اور ہم یہ بھی دیکھنے اور سمجھنے
کی کوشش کریں گے کہ عمران دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں کھڑی تھی؟
آمریکا پاکستان کے تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے پر آمریکا کی اپنی اسٹریٹجک
مجبوریاں ہیں اور سب سے پہلے اسے اپنے مفادات ہیں پاکستان میں اس کی
موجودگی کا سبب روس، افغانستان اور چائنہ تھے اس وقت آمریکا کی سپرمیسی کو
چائنا سے خطرہ ہے کیونکہ چائنا سپر پاور بننے کے بہت قریب ہے اس وقت آمریکا
اور چائنا کی دنیا میں حاکمیت کی جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ جنگ سفارتی اور
کاروباری ہے ۔ پاکستان جہاں پے آمریکا کی بھی بڑی انویسمینٹ ہے وہاں اس کا
تعلق چائنا سے بھی ہے اور چائنا پاکستان کی زمین استعمال کرکہ اپنا سامان
باقی دنیا تک پہنچائے گا اور یہ راستہ چائنا کے لئے قریب بھی ہے اور اس میں
سامان کی ترسیل میں خرچ بھی کم ہے ۔پاکستان 2006 میں گوادر چائنا کو دے چکا
ہے جس میں چائنا پاکستان کے بحری راستے استعمال کرکہ خلیجی ممالک سمیت ترکی
اور یورپ تک اپنا سامان پہنچائے گا 2013 میں آصف زرادری اور چینی صدر نے
چائنا پاکستان اقتصادی راہداری پے دستخت کئے اس کے بعد اس میں تیزی آئی
چائنا پاکستان کی اس راہداری میں چائنا پاکستان کو موٹرویز، بجلی گھر،
بلٹین ٹرین، اور بہت سارے منصوبے لگا کہ دیگا جس میں موٹر ویز کا بہت سارا
کام مکمل ہو چکا ہے اب یہ منصوبہ ظاہر ہے کہ آمریکی مفادات کے مطابق نہیں
ہے آمریکی کی یہ خواہش ہوگی کہ پاکستان چائنا کے ساتھ ہمیں بتا کہ پھر آگے
بڑھے جس میں آمریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچے پر ایسا نہیں ہوا پاکستان میں
جب مسلم لیگ ن کی حکومت تھی تو 2018 تک چائنا پاکستان میں بڑی تیزی کے ساتھ
منصوبے مکمل کررہا تھا پر جب عمران خان کی حکومت آئی تو اس نے سی پیک میں
دلچسپی کم دکھائی اب یہ وہی عمران خان ہے جو آزاد خارجہ پالیسی کی آج بات
کر رہا ہے اس نے آمریکا کی خوشی کے لئے سی پیک منصوبے کو نظرانداز کیا اور
سب سے بڑی بات کہ اس نے آئی اایم ایف سے قرض لیتے وقت وہ معاہدے دکھائے جو
پاکستان نے چین سے کئے تھے اس سے بڑی غلامی اور کیا ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے
ملک کے معاہدے کسی دوسرے ملک سے شئر کریں یوں عمران خان نے آمریکی مفادات
کی خاطر سی پیک کو تاخیر کا نشانہ بنایا محض آمریکہ کو خوش کرنے کے لئے اور
اب اسی آمریکہ کو اپنی سیاست بچانے اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے
گالیاں دے رہا ہے اور جھوٹ کا بیانیہ بنایا ہوا ہے ۔ عمران خان کے دور میں
پاکستان کی خارجہ پالیسی بہت کمزور رہی کشمیر جو کہ 75 سالہ تاریخ میں ایک
خاص اسٹیٹس رکھتا تھا بھارت نے عمران خان کی کمزور سیاسی پوزیشن کو دیکھتے
ہوئے کشمیر کا خاص اسٹیٹس ہٹا کہ اسے بھارت کا حصہ بنا دیا یہ بھی تب ہوا
جب عمران پاکستان کے وزیر اعظم تھے اور ساحرتی سطح پے کچھ نہ کر سکے اس کے
علاوہ جہاں آج عمران خان ایک آزاد خارجہ پالسی کی بات کرتے ہیں اور قوم کو
دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں خود اپنے دور میں سعودی عرب کہ منع کرنے پے
اپنا بنا بنایا ملائشیا کا شیڈول کینسل کر دیا تھا ۔ عمران اپنے غیر سنجیدہ
بیانات کی وجہ سے پاکستان کو خارجہ پالسی میں بہت نقصان دے چکے تھے جب اس
نے ترکی اور ملائشیا کے حوالے سے پیش رفت کرنا چاہی اور اس حوالے بیانات
بھی دیے جب کہ پاکستان جس بلاک میں تھا اسے ایسے بیانات نہیں دینے چاہیے
تھے پھر اس کی وجہ سے سعودی عرب عمران سے ناراض ہوا اور اپنا دیا ہوا قرض
واپس کرنے کو کہا پھر جرنل باجوہ کو جاکہ سعودی عرب سے بات کرنا پڑی پھر
جاکہ بات کچھ ٹھنڈی ہوئی یعنی عمران دور میں ہر وہ ملک جو پاکستان کو مدد
کرتا تھاسے عمران نے پاکستان سے بدگمان کیا ۔عمران خان کے حکومتی دور میں
جب آمریکی فوجی افغانستان سے جارہے تھے تو پاکستان نے ان کی مدد کی اور بہت
سارے آمریکی فوجی اسلام آباد ائرپورٹ پے دیکھے گئے ایک طرف خان صاحب کہہ
رہے تھے کہ ہم کسی کی جنگ میں تعاون نہیں کریں گے اور نہ فریق بنیں گے پر
ہم نے دیکھا کس طرح پاکستان کی زمین آمریکی فوجی انخلہ کے وقت استعمال ہوئی
اور عمران خان کی حکومت میں یہ سب کروایا گیا کیا یہ تھی آزاد خارجہ
پالیسی؟ اس کے علاوہ جب فرانس کے خلاف پاکستان میں احتجاج ہورہے تھے تب خان
صاحب نے جو تقریر کی اور قوم کو سمجھنانے کی کوشش کرتے رہے کہ کیوں یورپ
پاکستان کی مجبوری ہے تو اس وقت آزاد خارجہ پالیسی کہاں تھی؟ جب کہ ہزاروں
لوگ روڈوں پے آکہ یہ مطالبا کر رہے تھے کہ فرانس کے سفیر کو یہاں سے نکالا
جائے جو کہ میرے نذیک ایک غلط بات تھی کیونکہ کسی بھی ملک کے سفیر کو نہیں
نکالنا چاہیے پر جب آج عمران خان آمریکا کا نام لیکہ ایک سفارتی مراسلے کی
بنیاد پر الزام لگاتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ اس سے پاکستان کو کتنا نقصان
ہوگا پر جب خود کی حکومت تھی تو قوم کو مغربی ممالک سے پاکستان کے تجارتی
تعلقات کے فوائد باتا رہے تھے اور اب پاکستان کی ساری خارجہ پالیسی کو داؤ
پے لگا چکے ہیں یعنی عمران خان وزیر اعظم ہونگے تو سسٹم چلے گا اور خارجہ
پالیسی بھی چلے گی پر جاگر عمران خان وزیر اعظم نہیں ہوگا تو کچھ نہیں ہوگا
اور نہ ہونے دیا جائے گا ۔
دیکھیں جی سفارتکاری ایک بہت بڑی فیلڈ ہے اس سمجھنے کے لئے بہت گہری سوچ
چاہیے اور یہ ایک اعبتار س آرٹ بھی ہے یہ واحد چیز ہے جو کہ دوران جنگ بھی
پردے کی پیچھے چلتی ہے دنیا کے وہ ممالک جن کے ایک دوسرے سے اسٹریٹجک
تعلقات ہوں تو اس میں جب بھی سفارتکار ملیں تو بات چیت ہوتی ہے اور حالات
کے پیش نظر خیالات شئیر کئے جاتے ہیں مثال کے طور پر اگر بھارتی سفارتکار
اور پاکستانی سفارتکار دنیا کے کسی دوسرے ملک میں کہیں کسی محفل میں ملیں
تو ضرور موجودہ صورتحال پے بات ہوگی اور دونوں اپنے اپنے خیالات کا اظہار
کریں گے یا جیسے دو سیاستدان کہیں مل بیٹھیں تو یقینن سیاست پے بات کریں گے
اور ایک دوسرے سے خیالات شئیر کریں گے بلکل ایسے ہی آمریکی سفارکار اور
پاکستانی سفارتکار بھی کسی پارٹی میں ملے تھے ۔
ڈولنڈ لو آمریکی سفارکار ہیں وہ اس قت اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیں جس میں
وہ وسطی اور مشرقی اشیا کے سفارتی معملات دیکھتے ہیں ڈولنڈ لو سفارتکار کے
طور دنیا میں مختلف ممالک میں اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں ۔ ڈولنڈ لو
پاکستان میں پہلے بھی کام کر چکے ہیں وہ پشاور میں آمریکی سفارخانے میں
پولیٹیکل آفیسر کے طور پر 1992 سے 1994 تک کام کر چکے ہیں یاد رہے کہ یہی
وہی ڈولنڈ لو ہیں جنہوں نے پاکستانی سفارتکار اسد مجید سے ایک نجی محفل میں
بات چیت کی تھی جس کو آفیشل میٹنگ نہیں کہا جاسکتا اسی گفتگو پے یہ سارا
مسئلا اور سازشی بیانیہ عمران خان نے بنایا ہے یہ وہی ڈولنڈ لو ہیں جنہوں
نے پاکستان کی بہت دفعہ مدد کی ہے حال ہی میں انہوں نے عمران حکومت کے
دوران 2021 میں آئی ایم ایف میں پاکستان کی مدد کی تھی ۔اسد مجید خان
پاکستان کی طرف سے آمریکہ کے لئے سفیر مقرر ہوئے تھے انہوں نے عمران خان کی
حکومت میں 2019 میں یہ عہدہ دیا گیا تھا اس سے پہلے وہ جاپان میں بھی
پاکستان کے سفیر رہہ چکے تھے بحرحال! ان کا دور 11 جنوری 2022 کو ختم ہوگیا
تھا پر پھر بھی انہوں چند مہینے کام جاری رکھا کیونکہ کسی بھی سفیر کو مقرر
کرنے کے لئے آمریکی صدر اس کی فائل دیکھ کہ اسے منظور کرتا ہے پر کیونکہ ان
دنوں کورونا وبا کی وجہ سے دفتری معملات لٹک گئے تھے اور دیری کا شکار ہو
گئے تھے اس لئے نئے سفیر کی تقرری اور اس کی فائل کی منظوری میں دیر ہوگئی
اس لئے تب تک اسد مجید کام کرتے رہے اور پھر جیسے ہی آمریکی حکومت کی مسعود
خان کے لئے بطور سفیر منظوری ہو گئی تو 24 مارچ کو اسد مجید اسلام آباد
واپس آئے اور ان کی جگہ سردار مسعود خان کو آمریکا بھیجا گیا اور اس کے بعد
اسد مجید کو برسلز بیلجیم میں سفیر کے طور پر بھیجا گیا ۔
اب ہو ا یہ جب اسد مجید کے جانے کا وقت آیا تو اس نے واشنگٹن میں اپنی
رہائش میں ایک گاہ میں الود اعی پارٹی رکھی جس میں ڈولنڈ لو بھی شریک ہوئے
اس میں ایک دو پاکستانی اور باقی چند دوسرے آمریکی بھی شریک تھے پاکستان کی
طرف سے ان میں سے ایک ڈیفینس اطاشی بھی تھا جو کہ ملک کی مسلح فوج کا ایک
میمبر ہوتا ہے اور سفارتخانے میں موجود رہتا ہے بحرحال ! وہاں رسمی چٹ چیٹ
ہوئی اور پاکستان آمریکا تعلقات پے بھی بات ہوئی جو کہ اس وقت تک معمول سے
ہٹے ہوئے تھے کیونکہ بائڈن اور عمران میں رابطہ نہ ہو سکا تھا اس کے علاوہ
روس اور یوکرین کی جنگ پے بات ہوئی اور پاکستان کے سیاسی بحران پے بھی بات
ہوئی اور پاکستانی معشیت اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے بھی بات
چیت ہوئی ایک تو یہ کوئی آفیسشل میٹینگ نہیں تھی بلکہ ایک نجی پارٹی تھی اب
ظاہر ہے جب ملکوں کے سفیر مل کے بیٹھیں گے تو سبزی اور انڈوں پے تو بات
نہیں کریں گے یقینن وہاں دونوں سفیروں نے دونوں ملکوں کے تعلقات ، سیاست
اور معشیت پے اور عاملی سیاست پے بات کی ہوگی بحرحال! وہاں روس کی جارحانہ
عمل پے بھی بات ہوئی کیونکہ آج کی دنیا میں خصوصن آمریکا جیسے ملک میں روس
یوکرین معملا گرم گرم اشو ہے پوری دنیا کے سفیر اس پے بات کر رہے ہیں وہاں
ڈولنڈ لو نے یہ بات بھی کہی کہ اخلاقی اعتبار سے عمران خان کو دوران جنگ
روس کا دورہ نہیں کرنا چاہیے تھا یاد رہے کہ یہ دعوت جو کہ اسد مجید کے گھر
رکھی گئی تھی یہ روس یوکرین جنگ کہ دو ہفتوں بعد رکھی گئی تھی یعنی 7 مارچ
2022 کو اور عمران خان نے 23 فروری کو روس کا دورہ کیا تھا اس وقت پوری
دنیا عمران کے اس دورے پے بات کر رہی تھی اور پاکستان کے اندر بھی یہ بحث
جاری تھی کہ عمران کو دوران جنگ یہ دورہ نہیں کرنا چاہیے تھا یاد رہے کہ 7
مارچ تک پاکستان میں سیاسی بحران اپنے عروج پر تھا اور تحریک عدم اعتماد
پیش ہوگئی تھی اور یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عمران کے روس جانے سے
پہلے ہی اپوزیشن پارٹیز نے تحریک عدم اعتماد پے بات کرنا شروع کر دی تھی
اور ان کی طرف سے یہ دعوی کیا جارہا تھا کہ ہمارے پاس نمبرز پورے ہیں اور
ہم جلد تحریک پیش کریں گے اور ہماری مشاورت جاری ہے ۔اس پارٹی میں ایک اور
شخص بھی تھا جو کہ اس بات چیت کے نوٹ لے رہا تھا جو کہ عموماً لئے جاتے ہیں
اور پھر یہ نوٹس آمریکا میں پاکستانی سفارتخانے سے پاکستان کیبل کے ذریعے 7
مارچ کو ہی بھیجے گئے تھے ۔ایک بات سمجھنی چاہیے کہ سفارتی مراسلے خفیہ
رکھے جاتے ہیں انہیں عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا اور ان کو بہت سارے
مرحلوں کے بعد تیار کیا جاتا ہے اس میں ایک ٹیم ہوتی ہے جو کہ سائفر کو ڈی
کوڈ کر کہ ایک سمری بناتی ہے اور پھر اس کو ڈاکومینٹ کے طور پر رکھا جاتا
ہے اور اگر ضرورت پڑے تو ریاست کے بڑے ذمہ دار اشخاص پڑھایا جا سکتا ہے پر
وہ ایک سمری ہوتی ہے اور سمری کوئی اور بناتا ہے مثال کے طور جو بات اسد
مجید اور ڈولنڈ لو کے درمیان ہوئی اسے پوری طرح نہیں لکھا جاتا بلکہ اس کے
نوٹس لئے جاتے ہیں اور سائفر کی صورت میں بھیجا جاتا ہے اور پھر اس سائفر
کو ڈی کوڈ کرکہ ایک شخص اپنی سمجھ اور معنی کے اعتبار سے اس کی سمری بناتا
ہے بحرحال ! 7 مارچ کو اسے پاکستان بھیجا جاتا ہے اور خاموشی ہی رہتی ہے
اور پھر 27 مارچ کو جب عدم اعتماد کامیاب ہوتی نظر آتی ہے تو عمران خان
سازش کا بیانیہ قوم کے سامنے رکھتے ہیں یاد رہے کہ 7 مارچ اور 27 مارچ کے
بیچ عمران خان کی حکومت کے وزرا اور خود اسد مجید ڈولنڈ لو سے رابطے میں
رہے ہیں اور اسد مجید نے ٹوئٹر پر پاک آمریکا کے مضوبط تعلقات کی بات کی
اور کہا کہ میرے لئے یہ اعزاز ہے کہ میں نے 3 سال اپنے ملک کی آمریکا میں
نمائندگی کی اس کے علاوہ پاکستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی
جو کہ عمران خان کے بہت قریب ہیں اور ان کی پارٹی کے نائب چیئرمین بھی ہیں
انہوں نے او آئی سی میں شرکت کے لئے آنے والی آمریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمینٹ کی
سیکرٹری عزرا ضیا کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہم آمریکی لیڈرشپ کا شکریہ
ادا کرتے ہیں اور پاکستان آمریکا کے 75 سالہ تعقامت کی تعریف کی اور عزم کا
اظہار کیا اور امید ظاہر کی خطے میں مشترکہ مقاصد کے لئے کام جاری رکھا
جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر معملا اتنا سنگین تھا جیسے بعد میں عمران خان کہہ رہے
تھے تو پھر یہ سب مبارکباد دینا اور لینا یہ کیوں کیا گیا؟ پاکستان کے
سینئر صحافی اور کچھ دوسرے اہم لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سائفر جو عمران کے
ہاتھ میں تھا جس کو وہ جلسے میں دکھا رہے تھے وہ ٹیمپرڈ کیا گیا تھا جو
سائفر اسد مجید نے آمریکا سے بھیجا تھا اس میں اور جو عمران خان دکھا رہا
تھا اس میں فرق ہے کیونکہ پاکستان میں اس میں کچھ تبدیلی کی گئی تھی ور چند
چیزیں اس میں ڈالی گئیں تھیں بحرحال! پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور یہاں
کا ڈیفینس سسٹم بہترین ہے اور سویلین حکومتوں سے زیادہ عسکری ادارے زیادہ
سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پاکستان کے عسکری ادارے جس میں آئی ایس آئی
بھی شامل ہے انہوں نے بار بار یہ کہا ہے کہ آمریکا کی طرف سے یا اس سائفر
میں ایسا کچھ نہیں تھا جیسے عمران خان نے بتانے کی کوشش کی تھی ۔ اب بات یہ
ہے کہ شاہ محمود سب جانتے ہیں انہیں پتا ہے کہ ایسے سائفر روزانہ آتے ہیں
اور ان تمام ممالک سے آتے ہیں جن سے پاکستان کے سفارتی تعلقات ہیں پر انہوں
نے جان بوچھ کہ عمران کو غلط مشورہ دیا کیونکہ ان کے اپنے سیاسی مقاصد ہیں
انہوں نے بھی بہت وقت پہلے سے شیروانی سلوائی ہوئی ہےعمران خان نے اپنے اس
طرز عمل سے یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ ایک سیاستدان نہیں اور انہوں نے اپنے
سیاسی مقصد کی خاطر پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے
اسد مجید سمیت ، پاکستان کے تمام ریاستی ادارے اس بات پے متفق ہیں کہ اس
سائفر میں ایسا کچھ نہیں تھا جسے سازش کہا جا سکے اور یہ عدم اعتما د ایک
سیاسی ، قانونی اور جمہوری عمل تھا جو کہ ہونا تھا کیونکہ عمران نمبروں کے
حساب سے ایک کمزور وزیر اعظم تھے پر ساری حقیقت کو جانتے ہوئے بھی محض اپنا
بیانیہ بنانے کے لئے پروپیگنڈا کرنا انتہائی افسوسناک ہے یقینن عمران خان
نے بہت غلط کیا ہے اور مستقبل میں انہیں یہ قیمت چکانی پڑے گی۔
|