مجاہد ِملت مولانا عبدالحامد بدایونیرحمۃ اللہ علیہ

مجاہد ِملت مولانا عبدالحامد بدایونیرحمۃ اللہ علیہ
برصغیر کے ممتاز صحافی اور نامور انشاءپرداز سردار علی صابری کی نظر میں
مجاہد ِملت مولانا عبدالحامد بدایونیرحمۃ اللہ علیہ
برصغیر کے ممتاز صحافی اور نامور انشاءپرداز سردار علی صابری کی نظر میں
انتخاب و پیشکش:محمداحمد ترازی
جناب سردار علی صابری لکھتے ہیں"فرنگی محل میں مولانا صبغت اللہ شہید کے مشورے سے مشاعرے کی شرکت کا پروگرام بنارہا تھا ۔اچانک"السلام علیکم" کی پُرزور مگر سریلی آواز سے ہم دنوں چونک پڑے،ہمارے سامنے ایک صاحب معانقہ کے لیے دونوں ہاتھ پھیلائے کھڑے مسکرارہے تھے۔اُٹھتی جوانی، سبزچغا،سبک کھڑا نقشہ،اچھا گورا رنگ،چہرے پر چیچک کے داغ زیادہ نمایاں،چھوٹی موری کا پاجامہ،چکن کا کرتہ،شیروانی کا بٹن کھلا ہوا،سر پر ایک خاص قسم کی سفید ٹوپی منڈھی ہوئی جسے آپ گول اور دو پلڑی ٹوپی کی درمیانی قسم کہہ سکتے ہیں۔عمر میں مولانا صبغت اللہ شہید سے دو تین سال چھوٹے ہوں گے اور مجھ سے کوئی دو تین سال بڑے۔مولانا صغت اللہ بے ساختگی بلکہ بے تابی کے عالم میں یہ کہتے ہوئے اُٹھے ارے حامدمیاں تم آگئے! اور دونوں بڑی گرمجوشی سے بغل گیر ہوئے۔
یہی وہ سبزہ ِخط حامد میاں جن سے میری پہلی ملاقات 1917ء میں حضرت مولانا سلامت اللہ فرنگی محلی کے دیوان خانے میں ہوئی تھی۔بعد میں مجاہد ملت الحاج حضرت مولانا عبدالحامد قادری بدایونی بن کر پاکستان و ہندوستان کے دینی وسیاسی مطلع پر جگمائے۔
مولانا صبغت اللہ شہید نے اٹھارہ اُنیس سال کے نووارد نوجوان سے میرا تعارف کرایا۔ایک مقامی ہائی اسکول کی نویں یا دسویں جماعت میں پڑھنے والے طالب علم کا تعارف ہی کیا مگر حامد میاں مجھ سے بہت اخلاق ومحبت سے ملے۔میرے الٹے سیدھے شعر سنتے رہے اور واللہ اعلم ازراہ اخلاق میرا دل بڑھانے کے لیے یا از راہ شوخی مجھے"بنانے" کے لیے خوب داد دیتے رہے۔خاص کر میرا ایک شعر اُنہیں بہت پسند آیا۔اِس واقعہ کو نصف صدی گزر جانے پر بھی اُن کے ذہن میں محفوظ رہا۔شعر آپ بھی سن لیجئے ؎
موافق ہے عجب تیرے خمستاں کی ہوا ساقی
کہ آتا غم زدہ ہوں اور جاتا شادماں ہوں میں
تھوڑی دیر بعد ہم تینوں حضرت باری میاں (امام الوقت حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی)کے دیوان خانے میں حاضر ہوئے اور وہاں مجھے مولانا حامد میاں کے برادر محترم و استاد خطیب ملت حضرت مولانا عبدالماجد قادری بدایونی کی دست بوسی کا شرف پہلی مرتبہ نصیب ہوا۔دو تین گھنٹوں کی اِس پہلی ملاقات ہی میں مولانا حامد میاں اور میں،اپنے اپنے دلوں میں ایک دوسرے کی کشش محسوس کرنے لگے۔اِس کے بعد مولانا عبدالحامد میاں جب کبھی اپنےبرادر محترم کے ساتھ لکھنو تشریف لاتے تو ضرور مجھے مطلع فرمادیتے اور فرنگی محل میں ہماری کافی طویل ملاقاتیں ہوتیں۔۔۔جنگِ عظیم میں ترکوں کی شکست کے بعد مسلمانوں کے لیے نئے مسائل پیدا ہوگئے۔حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی قائم کردہ مجلس موید الاسلام سرگرم عمل ہوگئی تھی۔
اِس تحریک پر مسلمانان ہند کے مطالبات مرتب کرنے کے لیے مختلف مکاتبِ فکر کے علمائے دین کا پہلا سیاسی جلسہ لکھنو میں منعقد ہوچکا تھا۔جس میں علمائے فرنگی محل کے علاوہ حضرت مولانا عبدالماجد قادری بدایونی ،مولانا ولایت حسین الٰہ آبادی،مولانا حامد رضا خاں بریلوی،مولانا ثنا اللہ امرتسری،اور مولانا سید آغا حسن مجتہد لکھنوی وغیرہ شریک ہوچکے تھے۔مولانا صبغت اللہ شہید کی توجہ شعروشاعری کی جانب سے ہٹ چکی تھی اور اب اُن کا بیشتر وقت انجمن موید الاسلام کی تنظیم اور رسالہ" النظامیہ" کی ترتیب و ادارت میں گزرتا تھا اور مولانا عبدالحامد بدایونی نے اب بڑے بھائی حضرت مولانا عبدالماجد قادری بدایونی کے ساتھ سیاسی دورے شروع کردئیے تھے۔۔۔مولانا عبدالحامد اپنے بڑے بھائی کے رنگ میں رنگنے کی مشق کرتے تھے اورایک مقرر کی حیثیت سے اُن کی شہرت آہستہ آہستہ بڑھتی جارہی تھی۔
جہاں تک مجھے یاد ہے مولانا عبدالحامد نے جلسہ عام میں پہلی کامیاب تقریر اپریل 1918ء میں اجمیر شریف میں عرس کے موقع پر کی تھی اور اِس کی تعریف میں نے بعض علمائے فرنگی محل کی زبان سے سنی تھی جو حضرت خواجہ غریب نواز کے عرس میں حاضر تھے۔۔۔مولانا عبدالحامد بدایونی آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں پہلی مرتبہ دسمبر 1918ء میں شریک ہوئے یہ اجلاس امام الوقت حضرت عبدالباری فرنگی محلی کی زیر صدارت دہلی میں منعقد ہوا تھا۔اور اِس کی استقبالیہ کمیٹی کے فرائض ڈاکٹر مختار احمد انصاری نے انجام دئیے تھے۔مسلم لیگ کے اِس مشن میں فرنگی محل سے حضرت مولاناعنایت اللہ اور حضرت مولانا صبغت اللہ بھی شریک ہوئے تھے۔
1919ء کے آغاز پر بمبئی کے چند مخیر سیٹھوں نے مظلوم ترکوں کی امداد کے لیے خلافت کمیٹی کے نام سے ایک مقامی جماعت قائم کی جس کے روح رواں سیٹھ احمد صدیق کھتری اور سیٹھ عمر سوبانی تھے۔اِس مقامی جماعت کو آل انڈیا بنانے کا خیال سب سے پہلے حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی کو ہوا۔اِس مقصد کے لیے لکھنو میں بڑے پیمانے پر آل انڈیا مسلم لیگ کانفرنس طلب کی جس کے انتظامات اور مہمانداری کے کثیر مصارف حضرت باری میاں نے خود برداشت فرمائے(افسوس ہے کہ چوہدری خلیق الزماں نے اپنی انگریزی کتاب 'پاتھ وے ٹو پاکستان' میں اِس واقعہ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور حضرت باری میاں کے اِس عظیم کارنامے کو چھپانے کی کوشش کی ہے)اِس کانفرنس میں بمبئی کی چھوٹی سی مقامی خلافت کمیٹی کو آل انڈیا خلافت کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔۔۔لکھنو کی جس کانفرنس میں بمبئی کی خلافت کمیٹی کا آل انڈیا بنانے کا فیصلہ کیا گیا اُس میں مولانا عبدالحامد بدایونی بھی شریک تھے اور اُن کی پُرجوش تقریر سننے کا اتفاق مجھے پہلی مرتبہ ہوا۔نوجوان مولانا عبدالحامد کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے نیا میدان مل گیا۔اُنہوں نے کبھی تنہا اور اکثر اپنے بردار محترم کے ساتھ خلافت کمیٹی کی شاخیں قائم کرنے کے لیے ملک کے طویل دورے شروع کیے۔یہ واقعہ ہے کہ کم از کم یوپی کے طول وعرض میں کوئی شہر یا قصبہ ایسا نہیں تھا جہاں خلافت کمیٹی قائم کرنے میں مولانا عبدالحامد بدایونی نےبالواسطہ حصہ نہ لیا ہو۔
مولانا عبدالحامد جوانی میں خوبصورت اور جامہ زیب تھے۔آواز میں ترنم تھا اور جب کبھی اپنے استاد اور بڑے بھائی حضرت مولانا عبدالماجد قادری کے مخصوص والہانہ انداز میں الفاظ کی بے پناہ تکرار کے ساتھ جھوم جھوم کر تقریر کرتے تھے سارے مجمع پر چھا جاتے تھے۔
خلافت اسٹور(جوکانپور میں مولانا حسرت موہانی نے خلافت سودیشی اسٹور قائم کیا تھا)کا ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے مولانا عبدالحامد بدایونی سے میری کم و بیش تین سال کی دوستی کو اِس قدر مستحکم بنادیا کہ پچاس برس تک اُس میں بال برابر رخنہ نہ پڑا۔بات یہ ہوئی کہ 1921ء کے اواخر میں حضرت سید الاحرار کے بہت پرانے سکھ دوست سردار کشن سنگھ کے فرزند سردار بختاور سنگھ (جنھوں نے بعد میں سردار بھگت سنگھ کی حیثیت سے ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی نہ مٹنے والی شہرت حاصل کی)سے ایک دن میری باقاعدہ مار پیٹ ہوئی۔۔۔سیدالاحرار مجھ سے درحقیقت ناراض ہوگئے ۔۔۔حضرت مولانا کے دل میں میری جانب سے تکدر پیدا ہوگیا تھا۔۔۔جناب عبدالحامد بدایونی جو کئی دن سے کانپور آئے ہوئے تھے ۔۔۔خلافت اسٹور میں براجمان ہوئے۔خلاف معمول اسٹور کا بجھا بجھا سا ماحول دیکھا تو سب سمجھ گئے۔اُنہوں نے کسی تمہید کے بغیر میری طرفداری شروع میں تقریر شروع کردی۔میں نے مولانا عبدالحامد کی کئی پُرجوش سیاسی تقریریں سنی تھیں ۔اُنہوں نے میری بے گناہی بلکہ مظلومی ثابت کرنے کے لیے اپنی خطابت کے پورے جوہر صرف کر دیئے اور آخر میں جب اُنہوں نے جھومنے کے انداز میں اپنے بالائی حصہ جسم کو جنبش دے کر بڑے ڈرامائی طریقے سی کہا کہ "مولانا یہ نہ بھولئے کہ سردار علی کے والد کی وفات کو ابھی چند مہینے گزرے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ اِسے اپنے باپ سے کس قدر محبت تھی یہ غم نصیب سردار علی اب آپ کی نورانی شکل میں اپنے باپ کا جلوہ دیکھ کر تسکین حاصل کرتا ہے اگر یہ آپ پر بھی ناز نہ کرے تو کہاں جائے گا۔۔۔"سید الاحرار مولانا حسرت موہانی رحم وکرم کی منہ بولتی تصویر تھے۔ مولانا عبدالحامد بدایونی کی پُرجوش تقریر اور خاص الفاظ سے متاثر ہوگئے ۔ میری طرف دیکھا آنکھوں میں آنسو جھلک رہے تھے۔فرمایا:میاں سردار علی تم اتنی سی بات پر روٹھ گئے۔۔۔!"
اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ پچاس برس کے بعد یہ واقعہ لکھتے ہوئے میرا چہرا آنسوؤں سے تر ہے۔۔۔اور میں رُو رُو کر لکھ رہا ہوں کہ حضرت سیدالاحرار کے پُرنور چہرے میں مجھے اپنے پیارے اور بہت ہی پیارے باپ کی شبیہ صاف نظر آئی،منہ سے بے ساختہ چیخ نکل گئی۔تیورا کر سیدالاحرار کے قدموں میں گرا اور بے ہوش ہوگیا۔پتہ نہیں کتنی دیر بے ہوش رہا۔آنکھ کھلی تو میرا سر حضرت مولانا سیدالاحرار کے زانوئے پاک پر تھا اور مولانا عبدالحامد بدایونی میرے چہرے کو جو ہوش میں لانے کے لیے پانی کے چھینٹوں سے تر تھا اپنی عبا کے دامن سے پونچھ رہے تھے۔بات آئی گئی ہوئی مگر مولانا عبدالحامد بدایونی کی اِس دوست نوازی کا بہت گہرا نقش دل پر جم کر رہ گیا۔میں نے بارہا مولانا سے جذبہ ممنونیت کا اظہار کیا اور مولانا بھی کبھی کبھی بہت ہی بے تکلف پرانے دوستوں کی محفل میں مجھے چھیڑنے کے لیے کہتے۔۔۔"صابری بھائی کی تقدیر اچھی تھی جو اُس دن میں ٹھیک وقت پر خلافت اسٹور پہنچ گیا ورنہ آج نہ یہ ایڈیٹر ہوتے نہ لیڈر۔نمبردار جی، گاؤں کی چوپال میں پیال کے بچھونے پر آلتی پالتی بیٹھ کر اپنا مدریہ (دیہاتی قسم کا حقہ) گڑگڑاتے ہوتے۔۔۔"
آگے لکھتے ہیں"آگرہ اسٹیشن پر مولانا عبدالحامد قادری بدایونی کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔وہ اپنے بڑے بھائی حضرت مولانا عبدالماجد قادری بدایونی،مولوی عبدالصمد مقتدری اور پارٹی کے دیگر افراد کے ساتھ احمدآباد جارہے تھے۔اُس زمانے میں بی بی اینڈ سی آئی ریلوے میں انٹر کلاس نہ تھا۔میں تھرڈ کلاس میں سفر کررہا تھااور مولانا عبدالحامد کے پاس سیکنڈ کلاس ٹکٹ تھا۔لیکن اُنہوں نے آگرہ سے احمد آباد تک پورا سفر ہمارے ساتھ تھرڈ کلاس میں طے کیا۔۔۔اِس سفر میں مولانا عبدالحامد کی شرافت نفس ،بوڑھوں کے احترام(کا جذبہ)۔۔۔کبھی فراموش نہ کیا جائے گا۔"
لکھنو میں حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی کی جدوجہد اور مرحوم راجہ سید احمد والئی سلیم پور کی دریا دلی سے آل انڈیا انجمن خدام الحرمین قائم ہوئی۔مولانا عبدالحامد قادری بدایونی نے اِس سلسلے میں بڑے جوش وخروش کے ساتھ کام کیا۔طویل دورے کرکے ہندوستان میں انجمن خدام الحرمین کی شاخیں قائم کیں اُس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔اِس سلسلے میں سلطان ابن سعود سے ملنے کے لیے مولانا عبدالحامد اپنے بڑے بھائی کے ساتھ حجاز بھی گئے تھے۔
مولانا عبدالحامد بدایونی کی شادی کوچہ بنڈت دہلی میں خان بہادر ڈپٹی بہاء الدین کے گھرانے میں ہوئی۔جب میں نے بعض تکلیف دہ حالات کی بنا پر کانپور کو خیرآباد کہہ کر دہلی میں مستقل سکونت اختیار کی تو مولانا سے میری طویل ملاقاتیں آئے دن ہوتی رہتے تھیں۔سائمن کمیشن کے سلسلے میں جب آل انڈیا مسلم لیگ ،جناح لیگ اور شفیع لیگ دو ٹکڑے میں منقسم ہوگئی اور علامہ اقبال موخرانہ لیگ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے تو مولانا عبدالحامد قادری بدایونی نے شفیع لیگ میں گرمجوشی سے حصہ لیا اور نہرو رپورٹ کی مخالفت میں سیدالاحرار مولانا حسرت موہانی کے ساتھ حضرت مولانا عبدالماجد قادری مولانا عبدالحامد قادری اور مولانا آزاد سبحانی کے طویل دوروں اور پُرجوش تقریروں کی یاد کبھی فراموش نہ کی جاسکے گی۔
قائداعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ کی نشاۃ ثانیہ پر مولانا عبدالحامد بدایونی نے تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے میں جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا اور مسلم لیگ کے پیغام کو ہندوستان کے گوشے گوشے میں پہنچایا۔ اِس سے کون واقف نہیں۔
پاکستان بن جانے کے بعد مولانا عبدالحامد اگرچہ بوڑھے ہوچکے تھے لیکن اُن کی قومی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہ آئی۔وفات سے کچھ عرصہ پیشتر آنکھ میں کینسر ہوا جس کے آپریشن کے لیے وہ لندن گئے تھےمگر دوستوں کی شدید مخالفت کے باوجود لکھنے پڑھنے کا سلسلہ پوری تندہی سے جاری تھا۔مولانا عبدالحامد بدایونی سچے صوفی مشرب مسلمان تھے۔رسول کریم ﷺ کے آستانہ پاک سے گہرا قلبی تعلق تھا۔آئمہ اطہار اور اولیائے کرام سے بے پناہ عقیدت تھی۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
(ماخوذ:۔سردار علی صابری،اپنی تحریروں کے آئینے میں۔ترتیب و پیشکش،ارشد علی صابری۔ص108-95،سن اشاعت 2007،سردار علی صابری میموریل سوسائٹی ،گلشن اقبال کراچی)
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358139 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More